امریکہ، طالبان مذاکرات کا نیا مرحلہ اور پاکستان

قومی اسمبلی میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پاکستان کی شرکت کے حوالے سے حکومت کی پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امن سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوتا ہے، اور اسی طرح افغانستان میں بدامنی سے پاکستان سب زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ واحد قابلِ عمل حل یہ ہے کہ افغانستان خود سیاسی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرے۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور کسی ایک ملک سے یہ کام انجام دینے کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں 17سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان مخلصانہ کوشش کررہا ہے، لیکن تنہا پاکستان افغانستان میں امن نہیں لاسکتا، یہ خطے کے ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک ایران، تاجکستان اور چین کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارت افغانستان میں موجود ہے تو اسے بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کے معاملے میں پاکستان کا مؤقف تسلیم کرلیا ہے،افغان مسئلے کا واحد حل ہے۔ اب امریکا نے بھی ہمارے مؤقف کو تسلیم کیا ہے اور افغان معاملے پر اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہے، اور اب افغان حکومت نے بھی مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کو بھی ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔ دوحہ اور ماسکو میں فریقوں کی نشستیں ہوئی ہیں، پاکستان کوشش کررہا ہے کہ یہ لوگ مل بیٹھیں۔ اس سارے عملمیں ہم معاون کا کردار ادا کررہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ڈومور کہنے والوں نے مدد مانگ لی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت عوامی امنگوں کے مطابق کام کررہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک سال پہلے جنوبی ایشیا کی پالیسی دی تھی، صدر ٹرمپ کے ایک سال پہلے پاکستان کے بارے میں کیا تاثرات تھے! اب وہ ہم سے مدد مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ کا وزیراعظم عمران خان کے نام خط آیا ہے جس میں پاکستان سے گزارش کی گئی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لیے آپ کی مدد درکار ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ امریکی صدر کہتے تھے ’’پاکستان ڈومور‘‘، اب کہہ رہے ہیں ’’ہم مطمئن ہیں‘‘۔ آج انہوں نے مدد طلب کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ 15 دسمبر کو کابل کا دورہ کریں گے اور وہاں افغانستان کے صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ افغان وزیر خارجہ کے ساتھ بیٹھ کر افغانستان کے دیرپا امن کے لیے تبادلہ خیال کریں گے، مسئلے کے حل کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا۔
اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلق قائم رکھنا نہیں چاہیںگے جوپاکستان کو کرائے کے قاتل کے طور پر استعمال کرے، یعنی پیسوں کے عوض ہم کسی اور کی جنگ ہرگز نہیں لڑیں گے۔ پاکستان نے امریکی جنگ لڑ کر بہت کچھ برداشت کیا ہے، اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہوگا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ امریکہ سے ایسے تعلقات کبھی نہیں چاہیں گے جس میں پیسے دے کر جنگ لڑنے یا پاکستان کے ساتھ خریدی گئی بندوق جیسا برتائوکیا جائے، ہم خود کو دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں ڈالیں گے، اس سے انسانی جانوں کا ضیاع، ہمارے قبائلی علاقوں کی تباہی اور ہمارا وقار مجروح ہوا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سپرپاور سے کون دوستی نہیں رکھنا چاہے گا! ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح کے تعلقات چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے یک طرفہ تعلقات نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں، اور ہم اسی طرح کے تعلقات امریکہ سے بھی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ آپ امریکہ کے بہت مخالف ہیں؟ جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر آپ امریکہ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ امریکہ کے خلاف ہیں، یہ سامراجی سوچ ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں یا میرے خلاف۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کا الزام لگایا تھا، جب حکومت میں آیا تو سیکورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتاً فوقتاً امریکہ سے کہا کہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ کارروائی کرسکیں، پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹ اور اس پر جواب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ٹویٹر پر ٹرمپ کو جواب دینے کا مقصد ریکارڈ درست کرنا تھا۔ یہ ٹویٹر جنگ نہیں تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لکھے گئے خط کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے جس کے لیے ہم بھرپور تعاون کریں گے۔ یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کا 40 فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔ طالبان پر دبائو ڈالنے کا کہنا تو بہت آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ امریکی حکام کہتے ہیں پاکستان طالبان رہنمائوں کو پناہ دیتا ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ ان الزامات کو نہیں سمجھ سکے، ایسا ملک جس کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں سے کوئی تعلق نہیں، کوئی پاکستانی اس میں ملوث نہیں، القاعدہ افغانستان میں ہے، اس کے باوجود پاکستان کو کہا گیا امریکی جنگ کا حصہ بنیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے امریکی جنگ کی مخالفت کی، اگر ہم اس جنگ میں نہ پڑتے تو خود کو تباہی سے بچا سکتے تھے، امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، تقریباً 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ نہ ہی سرمایہ کار اور نہ کھیلوں کی ٹیمیں یہاں آرہی ہیں، پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی اور مسئلے کے حل کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں، اور یہ بات کہنے پر انہیں ’طالبان خان‘ بھی کہا گیا، اگر آپ امریکہ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ امریکہ مخالف بن جاتے ہیں، لیکن اب میں خوش ہوں کہ ہر کسی نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل ہے، ہم نہیں چاہیں گے کہ امریکہ افغانستان سے جلد بازی میں نکلے جس طرح اس نے 1989ء میں کیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1989ء میں جب سوویت یونین افغانستان سے نکلا تو امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ افغانستان میں پہلے حالات ٹھیک کرے، پھر تعمیرنو کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوگی۔ وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ امریکہ کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے ان سے جھوٹ بولا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انہیں غلط اطلاعات فراہم کی گئیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے مضبوط فوج، جدید ہتھیاروں سے لیس ڈیڑھ لاکھ نیٹو فوجی اور ایک ٹریلین ڈالر لگانے کے بعد بھی کہا جائے کہ چند ہزار پاکستانی باغی افغانستان میں جنگ کی ناکامی کی وجہ ہیں! اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے ذلت آمیز تھا کہ ہم اپنے سپاہی اور شہری کھو رہے تھے اور بم دھماکوں کا سامنا کررہے تھے کیونکہ ہم امریکہ کی جنگ میں شرکت کررہے تھے، اور پھر ہمارے اتحادی نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے ہم پر بھروسا نہیں کیا۔ انھیں پاکستان کو پہلے سے اطلاع دینا چاہیے تھی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم دوست ہیں کہ دشمن۔
بھارت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی برسراقتدار جماعت پاکستان مخالف اور مسلم دشمن ہے، وہاں عام انتخابات ہونے والے ہیں اسی لیے ہماری دوستانہ کاوشوں کو رد کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دوستانہ کاوشوں کے تحت ہی ہم نے کرتارپور ویزا فری کوریڈور کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، امید کرتے ہیں کہ بھارت میں انتخابی عمل کے بعد ان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرسکیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان آج افغان ثالثی کے لیے مرکزی کردار ادا کررہا ہے، اور افغانستان کے مسئلے پر امریکہ نے تحریک انصاف کا مؤقف تسلیم کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے ہمارے منشور کے بارے میں کہا کہ ہمارا موقف ٹھیک تھا، وہ افغانستان میں امن کے لیے ہماری مدد چاہ رہے ہیں، ہم افغانستان میں امن کروانے کے لیے کردار ادا کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں افغان امن عمل پر بات ہوئی ہے، خوشی ہے کہ 15 سال سے ہم جو کہہ رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں، اب امریکہ بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں امن اور افغان طالبان سے بات چیت کے لیے ہماری مدد چاہتا ہے، پاکستان آج ثالثی کے لیے مرکزی کردار ادا کررہا ہے، میں ہمیشہ سمجھتا تھا کہ بجائے ڈومور کے ہمارا کردار ثالث کا ہونا چاہیے تاکہ ہم افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کریں، لیکن ہمیں ایسے ٹریٹ کیا گیا کہ کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے امداد دی جارہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ کسی اور کی جنگ کے حصے دار بننے کے بجائے ہمارا اصل کردار ثالث کا ہے، ہم نے یمن میں امن عمل آگے بڑھانے کی بات کی، ایران اور سعودی عرب سے بھی اس حوالے بات کی، ایرانی وزیر خارجہ نے ہمیں یمن جنگ ختم کرنے میں کردار ادا کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ کرتارپور معاملے پر سکھ برادری سے جو ردعمل ملا اس پر خوشی ہے، جس طرح ہمارے لیے مدینہ ہے اُن کے لیے کرتارپور ہے، امید رکھتے ہیں بھارت بھی ردعمل دے گا۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان امن عمل کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمی برادری کو یاددہانی کرائی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ہمیشہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورت حال پر مباحثے کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور افغان حکومت کی ایسے حل پر آمادگی مثبت سمت میں پیش رفت ہے۔ امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات بھی ایک اور مثبت پیش رفت ہے اور پاکستان ایسے مذاکرات میں بھرپور معاونت کرے گا۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان تقریباً دو عشروں سے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کو مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب اس مؤقف کو پوری عالمی برادری کی طرف سے اپنا لیا گیا ہے جس پر ہم عالمی برادری کے شکر گزار ہیں۔ پاکستانی مندوب نے افغانستان میں امن کے فروغ کے لیے روس، چین اور خطے کے دیگر ممالک کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ تمام علاقائی شراکت داروں کے کردار کو تسلیم کیا جائے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان عوام جنگ کا خاتمہ اور امن چاہتے ہیں، اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ افغان عوام کی اس خواہش کو اُن کے ملک میں پائیدار امن کے قیام کی بنیاد بنائے۔ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ سے پاکستان دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی اور کئی عشروں سے ان کی میزبانی کررہا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں بیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین موجود ہیں۔
دریں اثناء امریکی سینٹرل کمانڈ کے آئندہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکنزی نے کہا ہے کہ وہ افغان معاملے میں پاکستان کو ترجیحی شراکت دار بنائیں گے۔ جنرل کینتھ میک کینزی نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک جواب میں لکھا کہ اس وقت پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی حوصلہ افزائی کے لیے مکمل اثررسوخ استعمال نہیں کررہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل یہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کو مستحکم افغانستان کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ جنرل میکنزی نے اعتراف کیاکہ پاکستان کا قومی مفاد سیاسی طور پر مستحکم افغانستان سمیت خطے میں مستقبل کے کسی بھی سیاسی حل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کمانڈ کے تحت امریکی سینٹ کام افغانستان میں تنازع کے سفارتی حل کے لیے کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا جس میں یہ یقینی ہو کہ مستقبل میں کسی بھی معاہدے میں اسلام آباد کا حق تسلیم کیا جائے۔ امریکی جنرل نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیے سب سے اہم باہمی اسٹرے ٹیجک دلچسپی ہے اور ہم پاکستانی قیادت کے ساتھ اس سلسلے میں ضرور رابطے میں رہیں گے کہ اس باہمی مفاد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں طویل مدتی استحکام میں ایک اہم بنیادی عنصرتھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرسکتا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے امریکی پالیسی اور اپروچ میں ہونے والی تبدیلی کے اشارے اُس وقت ملنا شروع ہوگئے تھے جب صدر ٹرمپ نے افغان امن عمل میں طالبان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے براہِ مذاکرات کے لیے افغان نژاد سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد کو اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا تھا۔ یاد رہے کہ زلمے خلیل زاد اِس سال ستمبر میں جب سے اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں وہ اب تک نہ صرف طالبان سے مذاکرات کے دو دور کرچکے ہیں بلکہ وہ پاکستان اور افغانستان کے دوروں کے علاوہ حال ہی میں ماسکو کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ ان کے اِن دوروں کا مقصد افغانستان میں جاری شورش پر قابو پانے کے لیے طالبان کو ایک ایسے امن معاہدے پر راضی کرنا ہے جس کے نتیجے میں طالبان کو ہتھیار پھینک کر حکومتی معاملات میں شامل کرکے امریکہ کے افغانستان سے محفوظ انخلاء کے لیے راستہ ہموار ہوسکے۔گو امریکی فوج کے سربراہ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے کسی آپشن کو مسترد کرچکے ہیں لیکن سفارتی حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ امریکہ اب افغانستان میں مزید رہنے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن وہ یہاں سے نکلنے کے لیے جہاں شکست کی بدنامی اور ذلت برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے وہیں وہ یہاں سے نکلتے ہوئے کوئی ایسا خلاء بھی نہیں چھوڑنا چاہتا جس کے نتیجے میں طالبان پوری قوت کے ساتھ دوبارہ برسراقتدار آجائیں۔ اس لیے زلمے خلیل زاد کے ذریعے امریکہ ایک ایسا بندوبست کرنے کا متمنی ہے جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔