جدید علم حیاتیات کی دنیا میں ’تہذیب‘ بے وقعت ہوچکی ہے۔ نظریۂ ارتقا کا نیا سلسلہ ’تہذیب‘ کا فطری ہونا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مغرب کا معاشرہ تہذیب سے معذوریت کا عملی نمونہ بن چکا ہے۔ انسانی تہذیب کا یہ انکارکیوں ہے؟ یہ معذوریت کیسی ہے؟ مائیکرو بائیولوجی کی نئی تحقیق میں اس کا فخریہ اعتراف موجود ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
معروف برطانوی ماہر جینیات ایڈم ردرفورڈ حیاتیاتی تاریخ A Brief History of Everyone Who Ever Lived کے باب horny and mobile میں کہتے ہیں:
’’زندگی کا کہیں کوئی آغاز نہیں، اور اگر کوئی اختتام ہے توہماری نظر میں نہیں۔ ہم سب ہمیشہ سے درمیان میں ہیں، ہمارے سارے سلسلے لاپتا ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا مقام نہیں ملتا، جہاں سے زندگی شروع ہوئی ہو۔ کہیں زندگی کا کوئی شرارہ نہیں ملتا، کہیں خدا کی کسی روح کا سراغ نہیں ملتا جو آدم کے پیکرِ خاکی میں پھونکی گئی ہو۔ کسی زندگی کا کوئی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مخلوقات کی چار جہتیں ہیں۔ سب خلا میں معلق ہیں۔ وقت کے دھارے میں بہہ رہے ہیں۔ درحقیقت صرف وہی ٹھیرے ہوئے ہیں جو مُردہ ہیں۔ ہمارے آباو اجداد کا وہ سلسلہ جو نامعلوم ماضی تک چلاجاتا ہے، اس سے پیچھے یہ دو ٹانگوں والوں، اور پھر چوپایوں تک پہنچتا ہے، وہاں سے خطرناک درندوں میں جا نکلتا ہے، اس سے پہلے یہ سمندر کی نباتاتی حیات میں کہیں پایا جاتا ہے، آخر سمندری چٹان میں منجمد ملتا ہے۔ بات چار ارب سال پیچھے چلی جاتی ہے…‘‘
چند سطروں کے بعد ایڈم ردرفورڈ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’ہم نہیں جانتے، وہ کون سا اورکیسا تسلسل ہے جوبندروں سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں بہت بے ربطگی اورپیچیدگیاں ہیں (ارتقا کے تسلسل میں تعطل آیا ہے یا نہیں، کہیں کوئی گیم چینجر ہوا ہے، یا نہیں؟ نہیں جانتے!)۔ ہمارے پاس ارتقا کی پیش رفت کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔ نئی تحقیق کے بعد انواع کے اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کا بھی کوئی مفہوم نہیں رہا۔ یہاں تک کہ چارلس ڈارون نے بھی اپنی دوسری اہم کتاب The Descent of Man میں مرکزی سوال یہی اٹھایا کہ کیا دیگر انواع کی طرح واقعی انسانی زندگی بھی گزشتہ کسی حالت سے منتقل ہوئی ہے؟‘‘
ماہرینِ جینیات اور ماہرینِ حیاتیات کی نظر میں یہ ہے انسان کا وجود، جس میں تخلیق اور تہذیب کا کہیں گزر نہیں۔ ارتقا پر اندھا ایمان بھی دیکھا جاسکتا ہے اور لاعلمی کا واضح اعتراف بھی نظر آتا ہے۔ بیانیہ دلیلِ قاطع سے تہی دست ہے۔ تاہم تفہیم اور تنقید کا مفید مواد یہاں ملتا ہے۔ خاص طور پر چارلس ڈارون کی وہ الجھن، جس میں ماہرین آج تک الجھے ہیں، اور مزید الجھتے جارہے ہیں۔ کیونکہ ارتقا کے کسی نامعلوم وقفے میں انسان کی تخلیق کا مرحلہ تسلیم کرنے کا مطلب مذہب کی سچائی تسلیم کرنا ہوگا، اور ایسا کرنا سائنس دانوں کے لیے نظریۂ حیات بدلنے جیسا ہوگا(ماہرِ فلکیات اسٹیفن ہاکنگ نے Black hole essaysکے تعارف میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگرکائنات کا خالق مان لیا گیا، تو سائنسی انقلاب کا کیا بنے گا؟) لادین سائنس کی تاریخ کا رخ ہی بدل جائے گا۔ لہٰذا ماہرینِ حیاتیات بہرصورت تصورِ تخلیق کا رد چاہتے ہیں۔ گوکہ یہ رد محض قیاسات اور ظنیات پر مشتمل ہے۔ نظریۂ ارتقا کی دلیل اس حقیقت کے بعد مزید کمزور پڑ چکی ہے کہ انواع میں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف سفرکا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ یہ نئی حقیقت نظریۂ ارتقا کی وہ جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر انسان کا نسبی درخت پروان چڑھایا گیا ہے۔ بندر سے انسان بننے والی مشہور ارتقائی تصویر قطعی جھوٹ ثابت ہوچکی ہے۔ چار ارب سال کے ارتقا کی سست روی اور دس ہزار سال کی شعوری اور تہذیبی پیش رفت کا براہِ راست تعلق تلاش کرنا بھی منطق سے دور اورخودفریبی سے بہت قریب ہے۔ انسان کا اشرف المخلوق ہونا بالکل واضح ہے۔ مگرسائنٹزم کا رویہ اسفل السافلین کی تفسیر بن چکا ہے۔
مولانا شہاب الدین ندویؒ نے ایک عرصہ قبل عظیم تصنیف ’’تخلیقِ آدم اور نظریۂ ارتقا‘‘ میں جدید سائنس کی نفسیات اور نظریۂ ارتقا کا لاجواب تجزیہ کیا تھا، جو آج بھی قابلِ نقل ہے:
’’ارتقا پسند لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ انسان سے لاکھوں سال پہلے سے انسان جیسی شکل و صورت کی انواع کی باقیات کا پایا جانا ارتقا کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سے ارتقا کا ثبوت نہیں ملتا۔ کیونکہ زمانی اعتبار سے کسی نوع کا دوسری نوع سے مقدم ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مابعد کی نوع نے لازمی طور پر اسی کے بطن سے جنم لیا ہو۔ بلکہ زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ ’ترقی یافتہ انواع‘ زمین کے طبیعی حالات کی سازگاری کے اعتبار سے زمانی طور پر یکے بعد دیگرے وجود میں آئی ہوں۔ پھر جب زمین کے حالات بدل گئے تو اس ناسازگاری کی وجہ سے اگلی انواع ختم ہوگئی ہوں۔ غرض اس لحاظ سے سابقہ انواع کے چند جزئی آثار و باقیات کو دیکھ کریہ جو قیاس کرلیا گیا ہے کہ زندگی کا ارتقا ادنیٰ سے اعلیٰ حالتوں کی طرف خودبخود بتدریج موجودہ ترقی یافتہ حالت تک پہنچا ہوگا، وہ کسی بھی طرح صحیح نہیں ہوسکتا… خود ڈارون نے اعتراف کیا ہے کہ مختلف شکلوں کے ایک سلسلے میں جو بندر نما مخلوق سے موجودہ انسان تک غیر محسوس طور پر بتدریج رونما ہوئے ہیں اس بات کا تعین کرنا ناممکن ہے کہ ان کے لیے انسان کی اصطلاح کہاں اور کب استعمال کی جائے؟ نمایاں حقیقت یہ ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کی بہ نسبت شعوری و نفسیاتی ارتقا جس نے مدنیت وعمرانیت کو جنم دیا، بہت تیزی سے واقع ہوا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کہتی ہے کہ حیاتیاتی اور نفسیاتی… عمرانی ارتقا کا بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ حیاتیاتی ارتقا بہت ہی سست رو واقع ہوا ہے، جس نے انسان کو پیش کرنے کے لیے تقریباً تین ارب سال لے لیے، جبکہ اس کے برعکس نفسیاتی… عمرانی ارتقا نہایت تیزی کے ساتھ صرف ایک قلیل مدت یعنی دس ہزار سال میں ہوگیا۔ آپ مادے اور اس کے عناصر کا تجزیہ کیجیے اور ان کے خواص وتاثیرات کا تفصیلی جائزہ لیجیے، آپ کو کہیں بھی ’شعور ادراک‘ کی پرچھائیاں تک بھی نہ ملیں گی۔ یہ ایک ایسی پراسرار چیز ہے جس کو’روح خداوندی‘ یا ’خدائی پھونک‘ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایک فوق الطبیعی شے ہے، جس کی حقیقت تک انسان کبھی رسائی نہیں پاسکتا۔ اسے طبیعات کی دنیا میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ مگر یہی وہ ’امر الٰہی‘ ہے جس کے ذریعے انسان دیکھتا اور سنتا ہے، بولتا اور لکھتا ہے، سوچتا اور خیال کرتا ہے، اور احساس واستدلال کرتا ہے‘‘۔
مولانا ندوی کی اس دلیلِ قاطع کے بعد، نظریۂ ارتقا میں ڈی این اے اور جینوم کے سلسلے پر تحقیق کے لیے گراں قدر کام کا اضافہ ضرور شامل ہوا ہے۔ لیکن بات اجزا و عناصر کی مماثلتوں سے آگے نہیں بڑھی۔ انسان کے جذبات، شعور، ادراک، احساسات کی خلیاتی و میکانیکی توجیہہ پیش کردی گئی ہے، مادی تعاملات کی باریکیوں کو ہی زندگی کا بنیادی محرک سمجھ لیا گیا ہے۔
موضوع پر آتے ہیں۔ ماہرینِ حیاتیات کے تصورِ تہذیب کی بنیاد نظریۂ ارتقا پرقائم ہے۔ یہ نظریہ انسان پر بات ہی نہیں کرتا۔ اس کا سارا زور’معاشرتی حیوان‘ اور اس کی جبلتوں پر ہے۔ یوں ماہرینِ حیاتیات کا کوئی تصورِ ثقافت و تہذیب ہے ہی نہیں۔ جہاں یہ اصطلاحیں استعمال کی جارہی ہیں، وہاں بھی تصورِ ’تہذیب‘ اور تصورِ ’ثقافت‘ کا جوہری فرق مٹادیا گیا ہے۔ نظریۂ حیات، معاشرتی اقدار،اور اخلاقیات پر لباس، خوراک، اور رہن سہن کے انداز کو فوقیت دی گئی ہے۔ انسانوں کے احساسات، نظریات اورجذبات محض کیمیائی اور حیاتیاتی عناصرکا تعامل قراردیے گئے ہیں، اورکچھ بھی نہیں۔ یہاں اصل شے ایک ایسا دوپیروں والا جانور ہے، جو جدید ترین مادی فوائد کے لیے بدترین ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، اور کامیاب انسان قرارپاتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے، جوانسانی تہذیب کی ہرتعریف کا دشمن ہے۔ اسے حیاتیاتی سائنس کی نفسیات میں واضح دیکھا جاسکتا ہے… سائنٹزم میں انسانی تہذیب کی گنجائش نہیں، بلکہ یہ نمایاں طورپرحالتِ تصادم میں ہے۔ معروف تاریخ Sapiens کے محقق یوول ہراری نے باب The arrow of historyمیں انسانی ثقافت و تہذیب کوغیر فطری قرار دیا ہے: ’’طبیعاتی قوانین کے برخلاف، انسان کا وضع کردہ (ثقافتی وتہذیبی) نظام اندرونی تضادات کا شکار ہوتا ہے۔ ثقافتوں نے مسلسل ان تضادات سے مصالحت کی کوشش کی، جس کے ردعمل میں تبدیلی کی لہراٹھی… درحقیقت ’معاشرتی حیوان‘ کی جبلت میں ’گروہی مفادات‘ کی تحریک نہیں پائی جاتی۔ کوئی چمپینزی دیگر چمپینزیزکے مفادات کی چنداں فکر نہیں کرتا۔ کوئی مکھی یہ اعلان کرتی نہیں پھرتی کہ دنیا بھر کی مزدور مکھیو! متحد ہوجاؤ۔ مگر انسانوں میں ایک دوسرے کے لیے بھائی چارے کی فضا بنی۔ گروہی اور ثقافتی شناختیں وضع ہوئیں۔ تین ہزار سال سے لوگ اپنے اپنے (تہذیبی) تصورِجہاں کی تبلیغ کررہے ہیں۔ پہلے ہزاریے میں تین عالمی نظام ابھرکر سامنے آئے۔ پہلا معاشی، دوسرا سیاسی، اور تیسرا مذہبی تھا‘‘۔ نظریۂ ارتقا کا پروفیسر ہراری پر جو اثر ہوا ہے، اس کے اظہار میں انہوں نے دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یقیناً جب انسان خود کو جانور سمجھنے لگے، توجانور بننے میں کتنی دیرلگائے گا؟ عالمی جنگیں دراصل اعلیٰ وادنیٰ نسل پرست معاشرتی حیوانوں کے درمیان ہی چھڑی تھیں۔ غرض نوح ہراری کا انسان دراصل بندر اور مکھی کی برادری سے ہے۔لہٰذا ایسا انسان جس کی فطرت میں (نظریۂ ارتقا کے مطابق) معاشرہ بندی اور تہذیب سازی نہیں ہے، وہ کس طرح انسانی تہذیب کا وارث ودعویدارہوسکتا ہے؟ بلکہ ایسی کوئی بھی کوشش تہذیب اور بائیولوجیکل تصورِ انسان میں تصادم پیداکرے گی۔ نظریۂ ارتقا بیسویں صدی کے اوائل میں بھی عام قتل وغارت کا بنیادی محرک بنا، آج مزید تباہ کن ہوچکا ہے۔ آج کا شام، عراق، یمن، میانمر، اور فلسطین اس خبر کی عملی مثالیں ہیں۔ پروفیسر ہراری کے ہاں تضاد کی یہ کیفیت نمایاں ہے کہ جو انسان تہذیب سازی نہیں کرسکتا، وہ حیوانی جبلت کے برخلاف مالی و مادی محرک پر روئے زمین پر فوج کشی کرسکتا ہے، کیسے؟ پروفیسر ہراری مالی محرک ہی کو انسانی تعلقات کی بنیاد قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ اُن کی مادی خواہشات پوری کرتا ہے، یہاں وہ بندر اور مکھی کی جبلتیں بھول جاتے ہیں، جنہیں مال ودولت جمع کرنے کا کوئی شعور نہیں، سود کا کوئی لالچ نہیں۔ دوسری جانب حال یہ ہے کہ مال کی محبت کو دلوں کی بیماری بھی بیان کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سمجھتے کہ کفر پر ڈٹ جانا بدترین بیماری ہے، جوصرف انسان کی جبلت میں شامل ہے، کسی بندر سے وراثت میں نہیں ملی۔ باب Scent of money میں قصہ سناتے ہیں کہ 1519 عیسوی میں ہسپانویوں نے جب میکسیکو پر حملہ کیا، جو اَب تک ایک الگ تھلگ خطہ تھا، Aztec قوم کے لوگ یہاں رہتے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ حملہ آور چمک دار زرد دھات میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں، جبکہ یہ دھات کسی کام کی نہیں۔ جس دھات کو نہ کھایا جاسکے، نہ اس کا کوئی اوزار بنایا جاسکے۔ یہ لوگ لین دین کے لیے کوکوا بیج اور دیگر اناج وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ جب انہوں نے ہسپانوی حملہ آوروں سے پوچھا کہ سونے میں کیا خاص بات ہے؟ تمہاری اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ تو ایک ہسپانوی نے جواب دیا کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو دل کی ایک بیماری ہے، جس کا علاج صرف اس دھات میں ہے۔
دل کی اس بیماری کا عملی نمونہ مغربی اور مغرب زدہ معاشرے ہیں۔ انہیں معاشرہ سمجھنا بھی تعریفی طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ منتشر انسانوں کا ایسا انتظامی ہجوم ہے کہ اگر مادی آسائشات نکال دی جائیں یا کم ہوجائیں، تو شیرازہ بکھر کر رہ جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ استاذ سید مودودیؒ کی پیشگوئی کے مطابق ضبطِ ولادت نے مغرب کی آبادی خوفناک حد تک گھٹادی ہے۔ نئے فرد کا یہاں کوئی خیرمقدم نہیں ہے۔ بس چاہتے ہیں کہ کسی طرح موت کو شکست دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیں (Sapiens میں پروفیسر نوح ہراری نے اس خواہش کے اظہار میں خوفناک خودغرضی کا اظہار کیا ہے)۔ خدمت اور مزدوری کے لیے غریب دنیا سے غلاموں کی کھیپ منگوا لیتے ہیں۔ اس منظرنامے کے لیے معروف عالم حامد کمال الدین کے (فرائیڈے اسپیشل کو دیے گئے) انٹرویو سے مدد لیتے ہیں۔ انہوں نے اس صورت حال کا مناسب نقشہ کھینچا ہے:
’’یہ بھی تو اہلِ نظر کے لیے ایک لطیف قسم کا عذاب ہے کہ اُن (مغرب) کی آبادی بتدریج گھٹ رہی ہے، اسکینڈے نیویا سے لے کر امریکہ اور کینیڈا تک یہی صورتِ حال ہے۔ کینیڈا ہر سال لاکھوں لوگوں کو امیگریشن دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بغیر اُس کا ملک چلے گا ہی نہیں۔ اگرچہ اسے ضرورت اس سے بھی زیادہ لوگوں کی ہے لیکن وہ اتنے ہی لوگ اپنے ہاں بلاتا ہے، اور وہاں اُنہیں ایڈجسٹ کرتا ہے۔ بہرحال عقل مند ہیں کہ وہ اتنے ہی لوگ بلواتے ہیں جو اُن کے ثقافتی سانچے میں ڈھل جائیں۔ بعد میں نئی کھیپ منگوا لیتے ہیں۔ ایک دم اتنے انسان نہیں بلوائے جا سکتے جو اُن کے معاشرتی ماحول سے سازگاری کے ضمن میں دشواریاں پیدا کریں۔ آخرکار یہ کس طرف اشارہ ہے کہ آدھی آبادی جیلوں میں ہے، آدھی آبادی Homesexual ہے۔ خاندان کا جو ادارہ ہے، اُس پر آپ نے ہاتھ ڈالا تو اللہ نے دنیا میں اس کی سزا دے دی۔ یہ تو افریقی عورت ہے جو اُن کو بچے جَن کے دیتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی آبادی میں ذرا رمق پیدا ہوئی ہے۔ یہ اِسی عورت کے ایثار کا نتیجہ ہے کہ یہ انہیں زندگی دیتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ یعنی اگر تیسری دنیا Stable ہوتی تو کہاں ہوتے یہ لبرل معاشرے؟ وہ جو خاندانی محبتیں ہوتی ہیں اُن کے لیے خواب ہیں، کیوں کہ خاندان ہوگا تو محبت ہوگی۔ دس میں سے دو عورتیں ہوں گی جو کہ اپنی پہلی شادی کے بعد آخر عمر تک اپنے خاوند کے ساتھ رہ لیتی ہیں۔ ہر مرد عورت نے کئی کئی شادیاں کی ہیں۔ ایسے ماحول میں خاندانی محبتیں خاک ہونی ہیں! کئی ایسی مغربی عورتوں کے تاثرات سننے کو ملے جو امریکہ میں مسلمان ہوجاتی تھیں تو مسلم ممالک سے گئے ہوئے لوگوں کے ساتھ اُن کی شادی ہوجاتی تھی۔ ظاہر ہے کچھ عرصے کے بعد پاکستان یا دیگر مسلم ممالک میں ان کی اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ واپسی ہوتی تھی، تو اُن سے پوچھا جاتا کہ کیسے حالات رہے؟ تو وہ بتاتی تھیں کہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ مشترکہ خاندان میں کزن اور خاندان کے دیگر افراد اس طرح بھی محبت کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے لیے تو یہ نارمل بات ہے، لیکن اس کی قدر اُن سے پوچھو جن کی خاندانی روایت دم توڑ چکی ہے۔ جس نے بھی فطرت کے ساتھ مذاق کیا، اُسے یہ سارے سانحے دیکھنے پڑے۔ وہاں پر بہت سے کام ریاست(State) کرتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں جو بوڑھے اور معذور ہیں، ان کو کون سنبھالے؟ جس کے پاس پیسہ ہے وہ تو خرچہ کرلے گا، جس کے پاس نہیں ہے اُس کو ریاست سنبھالتی ہے۔‘‘
سادہ سی حقیقت ہے، معاشرہ وتہذیب انسانوں سے بنتے ہیں، بے جان اشیا سے نہیں۔ تہذیبیں جو فنا ہوئیں، ان کے بے جان مادی آثار ہی ملتے ہیں، اورآثار ہی کہلاتے ہیں۔ معاشرہ فرد، خاندان، رشتے داروں، احباب، اور باہم محبت کے رشتوں سے پروان چڑھتا ہے، جو بتدریج ثقافت اور پھر تہذیب کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہی ہے وہ تہذیب و معاشرت، جس نے انسان کو اس مقام تک پہنچادیا، کہ جہاں وہ پروفیسر، ڈاکٹر، ماہرِ حیاتیات، ماہرِ جینیات، اور ماہرِ عمرانیات بن سکا ہے، اور اب اپنی ہی تشکیل ومعاشرہ بندی کا منکر ہوا جاتا ہے۔ پروفیسرہراری کا اپنا مستقبل کیا ہو،اگرطالب علم ہمہ تن گوش نہ ہوں؟ اگرمتجسس قاری نہ ہوں؟ اگرکتاب کی دس دس ملین کاپیاں خریدنے والا معاشرہ نہ ہو؟ پھر ان دانش وروں کے لیے کسی تعریف و توصیف اور عزوشرف کا کیا مفہوم رہ جائے کہ جب انسانی زندگی کیڑے مکوڑے کی سی بے وقعت ہوجائے؟ پھر یونیورسٹیوں، لیکچرز، اور دلائل کی بھی کیا ضرورت رہ جائے؟ پھر کیوں ناں سب جانوروں کی طرح مکمل بے حس و سفاک ہوجائیں؟ ان سوالوں پر اثبات کا مطلب تباہی ہے۔
انسانوں کی تہذیب کا مستقبل کہاں محفوظ ہے؟ جواب کے لیے استاذ سید مودودیؒ سے نقل کی سعادت حاصل کرتے ہیں، ’’اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’زندگی کے تمام تصورات میں صرف اسلام کا ہی تصور ایک ایسا تصور ہے جو فطرت اور حقیقت کے مطابق ہے، اور جس میں دنیا اور انسان کے تعلق کوٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ نہ انسان اتنا حقیرہے کہ دنیا کی ہر قوت اس کی مسجود ہو، اور نہ اتنا غالب و قاہرکہ وہ دنیا کی ہر شے کا مسجود بن جائے۔ نہ وہ اتنا بے بس ہے کہ اس کا ارادہ کوئی ذاتی چیز ہی نہ ہو، اور نہ اتنا طاقت ور کہ بس اس کا ارادہ ہی سب کچھ ہو۔ نہ وہ عالمِ ہستی کا مطلق العنان فرماں روا ہے اور نہ کروڑوں آقاؤں کا بے چارہ غلام۔ حقیقت جو کچھ ہے وہ ان مختلف اطراف ونہایات کے درمیان ایک متوسط حالت ہے۔ یہاں تک تو فطرت اور عقلِ سلیم ہماری رہنمائی کرتی ہے، لیکن اسلام اس سے آگے بڑھتا ہے اور اس امر کا ٹھیک ٹھیک تعین کرتا ہے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی مرتبہ کیا ہے؟ انسان اور دنیا کے درمیان کس نوع کا تعلق ہے؟ اور انسان دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ وہ یہ کہہ کر انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ تُوعام مخلوقات کی طرح نہیں ہے، بلکہ روئے زمین پر رب العالمین کا ذمے دار وائسرائے ہے۔ دنیا اور اس کی طاقتوں کو تیرے لیے مسخرکیا گیا ہے۔ تُوسب کا حاکم اور ایک کا محکوم ہے۔ سب کا فرماں روا اور صرف ایک کا تابع فرمان ہے۔ تجھے تمام مخلوقات پر عزت وشرف حاصل ہے۔ (یہی ہے وہ اسلام کا تصور) اسلامی تہذیب کی بیخ وبنیاد (جس) میں متمکن ہے۔‘‘