پاک امریکہ تعلقات میں نیا موڑ

پاک امریکہ تعلقات میں کچھ دنوں میں جو ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس سے کیا دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کا ماحول تبدیل ہوسکے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل اہلِ دانش اور خارجہ امور کے ماہرین میں زیربحث ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بہتری نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ جنوبی ایشیا یا خطے کی سیاست اور امن کے تناظر میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ملکوں کو عملی طور پر ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اگر امریکہ مسئلہ افغانستان کا حل چاہتا ہے تو یہ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ میں یہ احساس موجود ہے کہ پاکستان کو نکال کر انہوں نے جو افغان حل تلاش کرنے کی کوشش کی تھی وہ ان کی بڑی سیاسی غلطی تھی۔ پچھلے کچھ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کے سائے خاصے گہرے نظر آئے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مسلسل الزامات اور بالخصوص دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس کا ردعمل پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات بھی نمایاں ہوتے ہیں اور سیاسی سطح پر حکمران طبقہ اسی جذباتی کیفیت کو اپنے حق میں بھی استعمال کرتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل امریکی صدر کی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ، اور اس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کے سخت جوابی ٹویٹ کے بعد ایسا نظر آیا کہ فوری طور پر بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے متنازع اور الزام تراشیوں پر مبنی بیانات کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں مزید بگاڑ دیکھنے کو ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے امریکہ کے بارے میں سخت مؤقف کو بہت سے لوگوں نے سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ ہمیں ایسا سخت مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان لوگوں کے بقول اس طرح کے سخت مؤقف کے بعد امریکہ سے تعلقات میں بہتری کا امکان کم اور بگاڑ کا زیادہ بڑھ جائے گا۔ لیکن یہاں پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے بغیر کسی دبائو میں آئے امریکہ کو اُسی کے لہجے میں جواب دیا اور کہا کہ ہم بھی اپنے ہی مفادات کے تحت اب فیصلے کریں گے۔لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سخت مؤقف کے بعد امریکہ کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمیں اپنے سخت مؤقف کی بنیاد پر پاکستان کو تنہا کرنے کے بجائے اسے ساتھ لے کر ہی چلنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے بداعتمادی کی فضا میں وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر خطے کی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ اُن کے بقول دونوں ملکوں کو محض ایک دوسرے کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خطے کی سیاست کو پُرامن بنانے میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری جانب امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے ان کو امریکی صدر کا خیرسگالی کا پیغام پہنچایا کہ امریکی قیادت مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ بنیادی نوعیت کی تبدیلی ہے جو ہمیں پچھلے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان دیکھنے کو ملی ہے۔ حالانکہ یہ وہ نکتہ ہے جو کئی برسوں سے پاکستان امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ ہمیں طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
یقینی طور پر امریکی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی صدر کی جانب سے حالیہ مثبت طرزعمل نے پاک امریکہ تعلقات کی بحالی میں ایک نیا موڑ دیا ہے، اور امید پیدا کی ہے کہ معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بنیادی بات امریکہ نے یہ کہی ہے کہ افغانستان میں امن یقینی طور پر پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان سے مشروط ہوگا۔ امریکہ کا یہ طرزِعمل یقینی طور پر حالیہ دنوں میں پاکستان کی ڈپلومیسی کے محاذ پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جائے گا جس نے امریکہ کو سخت مؤقف کے بجائے بات چیت اور پاکستان سے تعاون کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کو اب اس بات کا بہت حد تک اندازہ ہوگیا تھا کہ پاکستان میں امریکی کردار کے حوالے سے خاصی مایوسی پائی جاتی ہے اور اسی تناظرمیں پاکستان امریکہ کے مقابلے میں متبادل آپشن کی جانب بڑھ رہا ہے۔اسی وجہ سے امریکہ میں وزیراعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ کی جانب سے اس پیغام کو سنجیدہ لیا گیا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان اُن لوگوں میں سے ہیں جو کئی برسوں سے امریکہ کو یہ باور کروا رہے تھے کہ مسئلہ افغانستان کا حل طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے سیاسی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اب امریکہ نے مسئلہ افغان کے حل کے تناظر میں سیاسی تصفیے کی بات کرکے عملی طور پر وزیراعظم عمران خان کے اس مؤقف کی تائید کی ہے ۔امریکہ کا اس وقت بڑا مسئلہ افغانستان ہے، وہ پہلی فرصت میں افغان طالبان سے مذاکرات کا جاتا ہے، اوران مذاکرات کے لیے اس توجہ کا مرکز پاکستان ہے۔ کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر عملی طور پر افغان طالبان افغان حکومت اور امریکہ سے مذاکرات کی طرف بڑھے تو یہ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو امریکہ کو باربار پاکستان کی طرف دھکیلتا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہ احساس موجود ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں اور ان کی مدد کے بغیر ہم کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ ماضی میں خاص طور پر ہمارے یہاں سول، ملٹری تعلقات میں باہمی اتفاق کا جو فقدان تھا، اس کا فائدہ یقینی طور پر خارجی محاذ پر امریکہ کو ہوتا تھا، اور اسی کو بنیاد بناکر امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھاتا تھا۔
امریکی صدر کے خط کو اب خطے کی سیاست اور بالخصوص افغانستان کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے، اور اس کا پاکستان میں بھی خیرمقدم کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکہ کو باہر نکال کر یا تعلقات میں بگاڑ پیدا کرکے خطے کی سیاست میں استحکام ممکن نہیں۔ خاص طور پر بھارت، افغانستان گٹھ جوڑ کے بعد پاکستان کو بھی امریکہ کی ضرورت ہے۔ امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر واقعی وہ افغان طالبان سے تصفیہ چاہتا ہے اور اس میں پاکستان کے کردار کو دیکھ رہا ہے تو یہ پُراعتماد رشتہ ہونا چاہیے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف امریکہ پاکستان سے تعاون چاہے اور دوسری طرف پاکستان کی نیت پر سوالات اٹھائے جائیں۔ خاص طور پر جب امریکہ یہ سمجھ رہا ہے کہ افغان حل پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تو پھر اُسے پاکستان پر ہی اعتماد کرنا ہوگا۔
امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افغان طالبان پاکستان کی کٹھ پتلی نہیں، بلکہ وہ اپنی آزاد سوچ اور رائے رکھتے ہیں۔ اس لیے اگر امریکہ افغان طالبان سے مسائل کا حل چاہتا ہے تو اسے یہ باورکروانا ہوگا کہ مذاکرات کی صورت میں افغان طالبان کو کیا ملے گا۔ یہ یقین دہانی افغان طالبان کو افغان حکومت سے نہیں امریکہ سے درکار ہے،کیونکہ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ محض امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔
امریکہ کی یہ جو پالیسی ہے کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو خطے کی سیاست میں ایک بڑے کردار کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے، اس پر بھی امریکہ کو نظرثانی کرنی ہوگی۔ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے جو اہم پیش رفت پاکستان نے کی ہے اُس کا مثبت جواب بھارت سے نہیں مل رہا، اس پر بھی امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ افغان حل کا ایک نکتہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری بھی ہے۔ کیونکہ بھارت اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس کے کئی شواہد پاکستان کے پاس موجود ہیں۔
خارجی محاذ پر چیلنج سے نمٹنے کے لیے ملک کا داخلی سیاسی استحکام لازمی ضرورت ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت ہمیں ماضی کے مقابلے میں سول ملٹری تعلقات میں خاصی بہتری نظر آرہی ہے، اور اس کا فائدہ ہمیں مشترکہ آواز کی صورت میں ہوگا ۔ مسئلے کا حل امریکہ سے جنگ کرنا نہیں، اور نہ ہی اس سے اپنے تعلقات بگاڑنے کا ہےاور نہ امریکی غلامی ہے۔ ہمیں بس اپنے کردار کو ایک نئی شکل دینی ہوگی ۔