کابینہ کا جائزہ اجلاس

حکومت نے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے، جس کے لیے کابینہ کا اجلاس 9 گھنٹے تک جاری رہا، اور سب وزراء پاس کردیے گئے، اور اگلے سو دنوں بعد وزراء کو پھر امتحان کی تاریخ دے دی گئی۔ حکومت بطور انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے، اور پارلیمنٹ عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کابینہ کے وزراء کا امتحان عوام اور پارلیمنٹ کے کمرۂ امتحان میں نہیں لیا، پارلیمنٹ اور عوام میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وزیر سے کیا سوالات ہوئے اور وزیراعظم کس طرح کے جواب سے تسلی اور اطمینان پاسکے ہیں۔ 100 روزہ کارکردگی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی وزیراعظم وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ اور تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر حالیہ اجلاس میں وہ اپنے روایتی اور آزادانہ فیصلے کرنے میں شاید اس حد تک بے بس نظر آئے کہ جن وزراء اور مشیران کو ان کے عہدوں سے فارغ کرنے کا ارادہ کرکے بیٹھے تھے وہ بھی نہیں کرپائے۔ اس اجلاس کا حاصل یہ رہا کہ وزیراعظم کی قربت کی شہرت والے وزیر مملکت وفاقی وزیر بنائے جارہے ہیں۔ سول ایوی ایشن کے لیے بھی الگ وزارت بنائی جارہی ہے، محمد میاں سومرو کو اضافی چارج دیا جائے گا۔
حکومت قائم ہوئے پانچ ماہ ہوچکے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی مزید وقت دینے کا فیصلہ ہوا ہے، اسی لیے کہا گیا کہ میڈیا چھے ماہ تک ترقی دکھائے۔ اگلے چھے ماہ کے بعد جب وزراء کمرۂ امتحان میں بیٹھے ہوں گے تو پھر کابینہ ہی نہیں بلکہ وزیراعظم کے سامنے بھی ایک سوالنامہ ہوگا۔ یہ سوالنامہ پارلیمنٹ اور عوام کی جانب سے تھمایا جائے گا۔ نو گھنٹے کے طویل اجلاس کے بعد اگرچہ اطمینان ظاہر کیا گیا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اپنی کابینہ میں شامل کھلاڑیوں کی کارکردگی سے قطعی طور پر مطمئن نہیں ہیں، اور کسی بھی وقت وہ کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں اور بات وسط مدتی انتخابات تک بھی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا فیصلہ یقینی طور پر اگلے 100 روز میں ضرور سامنے آجائے گا۔
اپنے پہلے سو دنوں میں حکومت بہت تیز کھیلی ہے جیسے اُس کے پاس آخری سو دن رہ گئے ہوں۔ اب وزیراعظم کابینہ میں تبدیلی سمیت دیگر فیصلوں کے تلخ مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں۔ کابینہ میں تبدیلی کے لیے وزارتِ خزانہ بہت دبائو میں ہے۔ اس کی وجہ ڈالر کی قیمت اور ملکی قرضے میں اضافہ ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی ساکھ دائو پر لگ گئی ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا کہ کپتان نے ٹاس جیت کر انہیں گراسی پچ پر اوپننگ کرنے بھیج دیا، بالکل ایک غلط تصور ہے۔ وفاقی کابینہ میں اسد عمر ہی وہ واحد وزیر ہیں جنہیں علم تھا کہ وہی وزیر خزانہ ہوں گے، لہٰذا انہیں تیاری کرنی چاہیے تھی جو انہوں نے نہیں کی، اور پوری حکومت اُن کی وزارت کی ناقص کارکردگی کے باعث دبائو میں آئی ہے۔ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ 2013ء میں جب سابق حکومت برسراقتدار آئی تو حساباتِ جاریہ کا خساہ 2.5 ارب ڈالر تھا، تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اب یہ خسارہ 19 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اب حکومت ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے تاکہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہو۔ اسی طرح حکومت ٹیکس اصلاحات کرنے جارہی ہے۔ ایک جانب بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور دوسری جانب حکومت وسائل کی تقسیم میں امتیاز برت رہی ہے۔ تحریک انصاف نے صوبہ پنجاب کے ترقیاتی اخراجات آدھے کردئیے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر گزشتہ سال سے 54 فیصد کم رقم خرچ کی گئی۔ سندھ کے ترقیاتی اخراجات بھی کم ہوگئے۔ رواں تین ماہ میں سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر 13 ارب 12 کروڑ خرچ کیے گئے جو کہ گزشتہ سال سے 32 فیصد کم تھے۔ لیکن خیبر پختون خوا کے ترقیاتی اخراجات پہلے سے بھی 11 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی اخراجات کا حجم 30 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔ خیبر پختون خوا میں ترقیاتی منصوبوں پر80 کروڑ 20 لاکھ خرچ کیے گئے۔ گزشتہ سال ترقیاتی اخراجات 9 ارب 76کروڑ تھے۔ بلوچستان میں ترقیاتی اخراجات 113 فیصد بڑھ گئے، جب کہ رواں مالی سال ترقیاتی منصوبوں پر ایک ارب 45کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ گزشتہ سال کے ترقیاتی اخراجات 68کروڑ 30 لاکھ تھے۔
پی ٹی آئی کا نعرہ کرپشن ختم کرنا ہے، جب کہ یہ نعرہ اصل میں جماعت اسلامی نے لگایا تھا لیکن تحریک انصاف اس نعرے کو اچک کر لے گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ووٹرز اور حامی پڑھے لکھے اور لبرل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، جو کرپشن کے خلاف تو ہیں لیکن اسلام کے عملی نفاذ کے لیے اپنی حمایت دینے سے گریزاں ہیں۔ تحریک انصاف کی توجہ ایسے ووٹرز پر ہے جن کا مطمح نظر ایک ہی مسئلہ ہے، اور وہ متوسط و بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو افسر شاہی میں اہمیت رکھتا ہے۔ ووٹرزکو مطمئن رکھنے کے لیے صرف وزیراعظم عمران خان کی ذات کا متحرک رہنا ضروری ہے۔ کرپشن کے خلاف عمران خان کے نعرے کی ابھی تک عوام میں بہت پذیرائی موجود ہے۔ حالیہ سروے سے بھی یہی معلوم ہوا کہ عوام میں حکومت کے حق میں 52 فیصد رائے پائی جاتی ہے، اور یہ رائے صرف عمران خان کی ذات کی حد تک محدود ہے۔ تحریک انصاف کی پوری ٹیم خود قابلِ محاسبہ ہے لیکن عوام اسے عمران خان کی وجہ سے برداشت کیے جارہے ہیں۔
حکومت کے لیے اس وقت خارجہ محاذ مشکلات سے بھرپور ہے، تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چونکہ خود فیصلے نہیں لے رہے بلکہ فیصلوں پر عمل درآمد کرا رہے ہیں، اس لیے انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ افغانستان، بھارت اور امریکہ تین ایسے ملک ہیں جو خارجہ پالیسی کے لیے ہر وقت بھاری پتھر بنے رہتے ہیں۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹکے درمیان اس وقت ہم آہنگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تین چار بار’’لوز بال‘‘ پر شاٹ کھیلنے کی کوشش کی، لیکن انہیں اب سختی سے روک دیا گیا ہے کہ ٹرمپ کے ٹویٹ کا جواب مل کر اور مکمل مشاورت کے بعد دینا ہے، اسی لیے واشنگٹن پوسٹ کو دیے جانے والے انٹرویو میں وزیراعظم نے محتاط زبان استعمال کی اور کہا کہ پاکستان کی حیثیت کرائے کے سپاہی کی نہیں ہے۔ ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ امریکہ امن چاہتا ہے تو اس خطے میں پھیلایا ہوا اپنا گند خود صاف کرے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ دراصل پاکستان یہ سمجھتا ہے بلکہ اب یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ امریکہ ہمیں استعمال کرتا ہے اور پھر الزام تراشی بھی کرتا ہے، لہٰذا اب فیصلہ یہی ہوا ہے کہ گھبرانے کے بجائے اسے آئینہ دکھاتے رہنا چاہیے۔ پاکستان ایک چھوٹی معیشت والا ملک ہے لیکن ہمیں افغانستان میں روس کی جارحیت کے دنوں میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا، اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستان مشکلات کا شکار ہوا،80 ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں پاکستان میں سرمایہ کاری رک گئی اور پاکستان کو دنیا میں خطرناک ملک قرار دیا جانے لگا۔ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن جس میں اسامہ بن لادن کو امریکی دعوے کے مطابق ہلاک کیا گیا، یہ خود سی آئی اے کا امریکی انتخابی آپریشن تھا اور معلومات سے پاکستان کو لاعلم رکھا گیا، امریکہ کو پاکستان کے ساتھ معلومات شیئر کرنی چاہیے تھیں۔ ہمارا یہ مؤقف درست ہے، اگر امریکہ ہم پر اعتماد نہیں کرتا تو تعاون کس بات کے لیے مانگ رہا ہے! ایک لاکھ 50 ہزار نیٹو افواج، جدید سازوسامان اور ایک ٹریلین ڈالر سے زائد بجٹ کا حامل فوجی مشن کابل میں امن قائم کرنے میں خود ناکام ہے اور درجن بھر مزاحمت کاروں پر الزام دیا جارہا ہے۔ بھارت میں عام انتخابات قریب ہیں، وہاں کی حکمران جماعت مسلمان مخالف اور پاکستان مخالف سوچ رکھتی ہے۔ پاکستان بھی ممبئی حملے کرنے والوں کو انجام تک پہنچانا چاہتا ہے، اس کیس کو اپنے انجام تک پہنچانا ہمارے اپنے مفاد میں ہے، کیونکہ یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی۔ بھارت کو بھی اپنا دماغ ٹھکانے پر رکھ کر اس معاملے میں پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا تب کہیں یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ امکان ہے کہ کرتارپور میں ویزا فری راہداری کھولنے سے انتخابات کے بعد بھارت کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع ہوجائے۔

انتخابات 2018ء ۔ فافن کی رپورٹ،95 فیصد نشستوں کے نتائج مشکوک

جولائی میں عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے وفاق میں حکومت بنائی۔ انتخابات کے نتائج پر اپوزیشن نے تحفظات ظاہر کیے لیکن پارلیمنٹ کے حلف اور نئی حکومت کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان جیسے سینئر سیاست دان کی پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی بھی حمایت نہیں کی گئی۔ اب عام انتخابات کے 5 ماہ بعد انتخابی نتائج سے متعلق بحث نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے اپنی نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اسمبلیوں کی 95 فیصد نشستوں کے نتائج کے لیے فارم 45 جو کہ اہم قانونی ضرورت ہے جاری نہیں کیا گیا۔ اس تنظیم نے انتخابی عمل کو پہلے شفاف قرار دیا تھا۔ اس کی جاری کی جانے والی نئی رپورٹ کے بعد انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کو پھر سے تقویت مل گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی 249 نشستوں کے نتائج جن پر 78,467 فارم 45 جاری کیے جانے والے تھے، وقت پر پولنگ ایجنٹوں کو جاری نہیں کیے گئے، جو کہ الیکشن قوانین کے مطابق لازمی جاری کرنے ہوتے ہیں۔ فافن نے اپنی آخری آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ قومی اسمبلی کی 48 نشستوں کے نتائج پر پولنگ ایجنٹوں سے دستخط نہیں لیے گئے۔ الیکشن 270 نشستوں پر لڑے گئے تھے جن میں سے 249 کے نتائج الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں 98 فیصد نشستوں پر یہ فارم جاری نہیں کیے گئے، سندھ میں ان کا تناسب 97 فیصد ہے، خیبر پختون خوا میں 95 فیصد اور پنجاب میں 94 فیصد۔ اسلام آباد فیڈرل کیپٹل ایریا میں صورتِ حال قدرے بہتر تھی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق (12) 90 کے تحت تمام فارم 45 اور ساتھ فارم 46 پر پولنگ آفیسرز اور پولنگ ایجنٹوں کے دستخط لازمی ہونے چاہئیں۔ فافن کی یہ رپورٹ نئی معلومات پر مبنی نہیں، یہ وہی نکات ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل بیان کیے جارہے ہیں، تاہم اس رپورٹ کی اہمیت اس لحاظ سے ضرور ہے کہ پارلیمنٹ نے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے۔ یہ کمیٹی ابھی اپنے ٹی او آرز طے کرنے کے مرحلے میں ہے، لہٰذا یہ رپورٹ ایک پریشر ٹول کے طور پر ضرور استعمال ہوسکتی ہے۔ حتمی فیصلہ اور سفارشات تو پارلیمنٹ کی کمیٹی کو ہی کرنا ہے۔

شراب پر مکمل پابندی کا بل بھی مسترد

قومی اسمبلی میں جہاں کم سن بچوں کے لیے سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی کا قانون منظور ہوا ہے وہیں شراب پر مکمل پابندی کا بل بھی مسترد ہوا ہے ۔یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کے مدینہ جیسی فلاحی اور پاکیزہ ریاست بنائیں گے کی نفی ہے۔ حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں شراب پر مکمل پابندی کے خلاف بات کرنا شرمناک فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اقلیتی رکن رمیش کمار نے بھی اظہار خیال کیا تھا کہ شراب ان کے مذہب میں حرام ہے، اقلیتیں بھی شراب پر پابندی چاہتی ہیں مگر بد قسمتی سے کچھ حکومتی اور اپوزیشن کے لوگ نہیں چاہتے کہ شراب پر پابندی لگے۔ قوم کو بتایا جائے کہ شراب کی اجازت دے کر پاکستان کو مدینہ جیسی پاکیزہ ریاست کیسے بنایا جائے گا؟ جن اقلیتوں کے لیے شراب کو جائز قرار دینے کی کوششیں ہورہی ہیں وہ طبقہ خودہی شراب کی بندش کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل جمع کروارہا ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے کی کبھی بھی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی،ہم ملک کے اسلامی تشخص کے خلاف ہونے والی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔جماعت اسلامی کے ترجمان امیر العظیم نے کہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشوں میں مصروف ہیں،دنیا کو اسلامی ایٹمی ریاست کاوجود برداشت نہیں ہورہا،ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق چلایا جائے، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست میں صرف اور صرف اللہ کا نظام ہی رائج ہوسکتا ہے، پاکستان اس وقت نازک صورت حال سے دوچار ہے۔امیر العظیم نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں ملک کے اسلامی تشخص کے خلاف ہونے والی کسی بھی قانون سازی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے،بانی پاکستان نے قرآن کو ملک کا آئین قرار دیا تھا اورایسی ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جہاں مسلمان اپنی زندگی کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔