نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو،مظفراحمدہاشمی

اللہ پر بھروسا
مظفرہاشمی صاحب پاکستان اسلامک فرنٹ (P.I.F) کے تحت 1993ء کے انتخابات میں دوسری مرتبہ کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی نے یہ ایک سیاسی تجربہ کیا، مگر المیہ یہ ہوا کہ فرنٹ کے بنتے ہی انتخابات سرپہ آگئے۔ پوری تیاری کرکے انتخابات میں جانے کے بجائے وقت کی قلت کی وجہ سے رواروی اور عجلت میں انتخاب میں جانا پڑا۔ اس انتخاب میں قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے صرف تین نمائندے پہنچ سکے۔ دوسرے دو حضرات صوبہ کے پی کے سے تھے، مولانا عبدالرحیم چترالی، چترال سے اور صاحب زادہ فتح اللہ دیر سے منتخب ہوئے تھے۔ ہاشمی صاحب کے ایم این اے منتخب ہونے کے پہلے دور میں ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ وہ اپنے گھر نارتھ ناظم آباد بلاک اے میں رات کے وقت اپنے کمرے کے اندر مطالعہ کررہے تھے کہ باہر سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تھی۔ ظالم دہشت گرد ان کے گھر کے قریب سے گولیاں چلا رہے تھے۔ ایک گولی بالکل ان کے کان کے پاس سے گزرتی ہوئی دیوار میں جا لگی، جبکہ کئی اور گولیاں بھی گھر کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر لگیں۔ ہاشمی صاحب کے گھر پر گولیاں برسانے کا واقعہ ایسا تھا جو پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ کئی تحریکی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان وقائدین نے ہاشمی صاحب سے کہا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے سیکورٹی گارڈ کا اہتمام کریں۔ اللہ کے اس درویش صفت بندے نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا: ’’جب تک میری زندگی لکھی ہے، مجھے کوئی مائی کا لعل نہیں مار سکتا۔ جب وقتِ مقررہ آگیا تو پھرکوئی بچا بھی نہیں سکتا۔‘‘
خاندان
جناب مظفر ہاشمی مولانا محمد رفیع صاحب کے بچوں میں سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے ایک بھائی محترم غیوراحمد ہاشمی اور ایک بہن ان سے چھوٹے ہیں۔ ماشاء اللہ تینوں بہن بھائی صاحبِ اولاد اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر رہے۔ آگے ان کے بچے بھی اسی طرح باہمی محبت کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ مظفرہاشمی صاحب کا ایک بیٹا اور دوبیٹیاں ہیں۔ بیٹا عزیزم محمد علی ہاشمی ان کے ساتھ ہی مقیم تھا۔ ماشاء اللہ انھی کی طرح خوش اخلاق ہے۔ اپنی والدہ اور بہن بھائی کا بہت خیال رکھتا ہے۔اس کے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹا حسن اپنے دادا سے اتنا مانوس تھا کہ اب تک ان کو یاد کرکے ان کے واقعات سناتا ہے، حالانکہ اس کی عمر چند سال ہے۔ جب میں برادرم محمد یونس بارائی (امیر جماعت اسلامی ضلع شرقی) کے ہمراہ مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے گیا تو حسن اپنے بہت سے کھلونے اور گاڑیاں لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ ہم اس کے دادا ابو کا ذکر کررہے ہیں۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہ دادا ابو میرے لیے گاڑیاں بھی لاتے تھے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں مجھے دیتے تھے۔ پھر وہ کمرے کے درو دیوار کو دیکھنے لگا جیسے دادا ابو کے نشانات تلاش کررہا ہو۔
عملی زندگی
مظفر ہاشمی مرحوم اور ان کے بھائی غیورہاشمی صاحب کے بچے آپس میں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ غیور صاحب کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے۔ مظفر صاحب کے بیٹے علی کا کمپیوٹر کے شعبے میں اپنا ذاتی کاروبار ہے۔ وہ اس شعبے سے متعلقہ سروسز بھی اپنے گاہکوں کو فراہم کرتا ہے۔ خود مظفرہاشمی صاحب نے ایک معروف پرائیویٹ ادارے انڈس پنسل انڈسٹریز میں طویل عرصے تک ملازمت کی۔ وہ اٹھارہ اُنیس سال کی عمر میں عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور زندگی کے آخری لمحے تک ساٹھ سال ملازمت کی۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ایم اے اسلامیات کر رکھا تھا۔ ذوقِ مطالعہ قابلِ تحسین تھا۔ تحریکی بہن بھائیوں میں قلم وقرطاس سے رشتہ رکھنے والوں کے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ رہتا تھا اور ان کی مطبوعہ کتب اور مضامین پر بروقت داد دے کر حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ان کے ادبی ذوق نے ایک ادارے کی بنیاد ڈالی جو کہ ادارہ تعمیر ادب کے نام سے ہے جس کے وہ صدر منتخب کرلیے گئے۔ اس ادارے نے بہت سی نہایت عمدہ کتب بھی شائع کیں اور ہاشمی صاحب کی رہنمائی میں بڑے بڑے ادبی اجتماعات اور بہت بڑے مشاعروں کا اہتمام بھی کیا، جن میں جماعت کی مرکزی قیادت شرکت کرتی رہی۔
ہمہ گیر شخصیت
مظفر ہاشمی مرحوم کا علم وادب سے زندگی بھر گہرا تعلق رہا۔ اپنی وفات کے وقت بھی وہ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی جماعت کے تحت علمی و تحقیقی شعبے کے انچارج تھے۔ ان کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ تھیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ وہ کیسے ان سب سے عہدہ برآ ہوتے تھے! جہاں جہاں ان کی ذمہ داری تھی وہاں ان کے ساتھی گواہی دیتے ہیں کہ سب سے زیادہ فرض شناسی کے ساتھ مظفر ہاشمی مرحوم ہی اپنا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ ایک رفاہی ادارے ’’گوشۂ عافیت‘‘ کے ذمہ دار بھی تھے، جس کے تحت یتیم بچوں کی کفالت وتعلیم، بے سہارا وبیوہ خواتین کی ضروریات فراہم کرنے اور غریب خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے امداد فراہم کرتے تھے۔ ’’جمعیت الفلاح‘‘ کے صدر تھے اور ’’فلسطین فاؤنڈیشن‘‘ کے بھی ناظم اعلیٰ تھے۔ ’’ادارہ تعمیرادب‘‘ انھی کی سربراہی میں کام کرتا تھا، جس کی کاوش ماشاء اللہ اب بھی کراچی جماعت کے تحت جاری و ساری ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے تک وہ کراچی جماعت کے امورِ خارجہ کے انچارج بھی رہے اور یہاں بھی انھوں نے فلسطین اور کشمیر کاز کے لیے بہت ٹھوس اور یادگار خدمات سرانجام دیں۔
مجسمۂ امانت ودیانت
جس انڈسٹری میں ہاشمی صاحب ملازمت کرتے تھے اس کے مالکان ان کی دیانت وامانت، ذہانت وقابلیت اور وقت کی پابندی سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ ان کے معاوضے کے علاوہ سالانہ ان کو کمپنی کی طرف سے بنائی گئی مختلف پنسلوں اور بال پوائنٹس کے کئی پیکٹ ہدیہ میں دیے جاتے۔ ان کا معمول تھا کہ یہ سیکڑوں پیکٹ اپنے حلقۂ احباب میں ہدیتاً بھیجتے رہتے تھے۔ مجھے جب بھی ان کا یہ پیکٹ ملتا، میں اسے بچوں میں تقسیم کردیتا۔ آخری مرتبہ جب ان کا پیکٹ ملا تو آج تک وہ میری دراز میں پڑا ہے۔ میں نے کئی بار اسے دیکھا، معلوم نہیں کیوں اپنے معمول سے ہٹ کر میں اسے بچوں میں تقسیم نہ کرسکا۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ ان کی طرف سے ایک ہدیہ ہے۔ میں اگرچہ غیرارادی طور پر اسے تقسیم نہ کرسکا، مگر ان کی وفات کے بعد جب اس پر نظر پڑتی ہے تو دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ جلد از جلد اسے تقسیم کردوں تاکہ اس کا اجروثواب مرحوم تک پہنچ جائے، پھر سوچتا ہوں کہ یہ اپنے محبوب دوست کا یادگار ہدیہ ہے، جسے دیکھنے سے مرحوم کی یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں، اس لیے اسے یوں ہی رکھا رہنے دوں۔ تاہم یہ سطور لکھتے ہوئے دل نے کہا ہے کہ اسے تقسیم کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ اب اسے تقسیم کیا جارہا ہے۔
ایک جنازے میں شرکت
ہاشمی صاحب بظاہر تندرست اور توانا اور اپنے کاموں میں پوری طرح فعالیت کے ساتھ سرگرم تھے۔ ہر اتوار کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک کلب میں صبح کے وقت چلے جاتے اور کچھ وقت وہاں گزارتے۔ اسی طرح اپنے دفتر اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نورِ حق میں بھی تشریف لے جاتے۔ ہاشمی صاحب کی وفات سے ایک روز قبل ’’آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر اور معروف سماجی شخصیت سید محمد خالد شاہ کا انتقال ہوا۔ شاہ صاحب کے بھائی اور مظفرہاشمی صاحب کے بھائی آپس میں ایک دوسرے کے سمدھی تھے۔ یوں شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ ذاتی تعارف کے علاوہ ایک خاندانی تعلق بھی قائم ہوگیا تھا۔ شاہ صاحب مرحوم کی نماز جنازہ مسجد فاروق اعظم میں بعد نماز عصر ادا کی گئی۔ ہاشمی صاحب جنازے میں شریک تھے۔
سانحہ ارتحال
جنازے سے فارغ ہوکر واپس آئے اور اپنے معمولات کے مطابق مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد ابراہیم میں ادا کیں۔ نماز عشاء کے بعد بہت دیر تک مسجد میں خاموش بیٹھے رہے۔ مرحوم کے ساتھی اور رکن جماعت اسلامی جناب ہمایوں نقوی نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی تھی، جب انھوں نے دیکھا کہ ہاشمی صاحب نماز پڑھنے کے بعد اپنی نشست پر بہت دیر سے بیٹھے ہیں، تو ان کے پاس گئے۔ ہاشمی صاحب کو بہت پسینہ آرہا تھا اور سینے میں شدید گھٹن محسوس کررہے تھے۔ اسی کیفیت میں انھیں گھر لے کر آئے۔ مسجد سے نکلتے ہوئے گھر آنے تک مسلسل کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے رہے۔ گھر پہنچ کر اہلیہ سے کہا کہ میرے سینے میں شدید تکلیف ہے۔ بیٹے علی نے فوراً ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اس دوران بھی ان کی زبان پر مسلسل کلمہ طیبہ کا ورد رہا۔ اہلیہ سے کہا میں جارہا ہوں، اللہ حافظ۔ ساتھ ہی اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے وینٹی لیٹر پر نہ ڈالنا۔ بہرحال ہسپتال پہنچے تو بیٹے علی ہاشمی کے بقول بے ہوش ہوچکے تھے۔ ڈاکٹروں نے چیک کیا تو بتایاکہ دل کا شدید دورہ پڑا ہے۔ چنانچہ وینٹی لیٹر پر ڈالنا طبی مجبوری بن گئی۔ صبح کے وقت دوبارہ اٹیک ہوا تو ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر ہٹا دیا۔ یوں چند گھنٹوں کے اندر اللہ کا یہ مخلص بندہ کسی پر بوجھ بنے بغیر اپنے مالک کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ ہاشمی صاحب کی مسلسل دعا ہوتی تھی کہ اے اللہ! اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہ بنانا۔ اللہ نے اپنے بندے کی دعا قبول فرما لی۔
ہر دل عزیز شخضیت
مسجد فاروق اعظم میں آج اسی طرح ہاشمی صاحب کا جنازہ لایا گیا، جس طرح ایک روز قبل سید خالد شاہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔ آج پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمازی جنازے کے لیے موجود تھے۔ ہر شخص غم زدہ اور ایک دوسرے سے تعزیت کررہا تھا۔ جانے والے کا ہر شخص کے ساتھ ایسا محبت بھرا تعلق تھا کہ ہر ایک نے یہ جانا کہ اس سے مرحوم کو جیسی
محبت تھی، کسی اور سے ایسی نہ ہوگی۔ نماز جنازہ میں لوگوں کا ہجوم تھا اور جانے والے کی خوش قسمتی تھی کہ قافلۂ سید مودودیؒ کے انمول ہیرے، مخلص داعیِ اسلام، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سیدمنور حسن جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ منور صاحب نے اس موقع پر مختصر خطاب بھی فرمایا، جس سے تمام شرکا پر عجیب ایمانی کیفیت طاری ہوئی۔ منور صاحب کا فرمانا تھا کہ ہاشمی صاحب مرحوم از اول تا آخر اللہ کے دین کے سپاہی اور حق کے علَم بردار تھے۔ پھر فرمایا کہ میرا مرحوم کے ساتھ ساٹھ سال سے تعلق تھا۔ میں نے گرم وسرد اور خوشی وغم ہر حال میں اللہ کے اس بندے کو صابر وشاکر پایا۔ اللہ اس کی اگلی منزلوں کو آسان فرمائے۔
دعا
اس سال عید الفطرکی نماز اپنے محلے کی عید گاہ میں ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوکر اپنے والدین کی قبر پر فاتحہ پڑھنے پاپوش نگر قبر ستا ن گئے۔ فاتحہ سے فارغ ہوکر خاصی دیر وہاں بیٹھے رہے اور قبر کے رکھوالے عبدل سے کہا: ’’عبدل میرے لیے میرے والدین کے قریب جگہ رکھنا ،اب میری باری ہے۔‘‘ شاید اللہ کے نیک بندوں کو اپنے جانے کا پہلے علم ہوجاتا ہے ۔ ہاشمی صاحب کو صرف دو دن بعد ان کے والد کے پہلو میں سپر ِد خاک کردیا گیا۔ اس ولی اللہ کے یہ تاثرات اور دعا یقینا مرحوم کے لیے ایک ایسی گواہی ہے جو اللہ کے ہاں ان شاء اللہ مقبول ہوگی۔ ہم جہاں اپنے مرحوم بھائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے طلب گار ہیں وہیں ان کے جملہ پسماندگان کے لیے صبرواجر کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو آخر دم تک اپنے دینِ حق پر چلنے کی توفیق دے اور زندگی بھر اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہ کرے۔ آمین یارب العالمین!