جیسے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ عربی میں ’مَحبت‘ کے میم پر زبر ہے جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ہے کہ ’’میں نے اپنی طرف سے تجھ (موسیٰ) پر مَحبت طاری کردی۔ ’’القَیتُ علیک مَحبۃً‘‘ (39) اسی طرح عربی کے اور بھی کئی الفاظ ہیں جو اردو میں آگئے ہیں مگر ان کا تلفظ بدل گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یُوسُف علیہ السلام کے تذکرے کے لیے قرآن کریم میں سورہ یُوسف ہے۔ عام مسلمان قرآن کریم پر ایک نظر ڈالتے ہیں، اور کچھ نہیں تو سورتوں کے نام ضرور پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن پنجاب میں ’یُوسُف‘ کا تلفظ عموماً غلط کیا جاتا ہے اور ’’یوسَف‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی سین پر زبر۔ ہم جب لاہور کے ایک اسکول میں پڑھتے تھے تو اپنے ہم جماعت سے یوسُف کا تذکرہ کررہے تھے جو اس کی سمجھ میں نہیں آیا، اور جب آیا تو جھلّا کر کہا ’’یوسَف‘‘ کیوں نہیں کہتا! گویا غلطی ہماری ہی تھی۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک چھوٹے سے شہر کرک سے ہمارے محبی، جو شاعری میں سالارؔ تخلص کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ خیبر پختون خوا کے عام لوگ بھی ’’یوسَف‘‘ (سین پر زبر) کہتے ہیں۔ اسی طرح ’طٰہٰ‘ ہے۔ لوگ اپنا نام بھی رکھتے ہیں مگر ’’طحہٰ‘‘ لکھتے ہیں۔ یہ بھی قرآن کریم کی سورت ہے۔ ہمیں کوئی اپنا نام طٰہٰ بتاتا ہے تو ہم فرمایش کرتے ہیں کہ لکھ کر دکھائو۔ 90 فیصد لوگ غلط لکھتے ہیں۔ اسے ’طاہا‘ بھی لکھا جاتا ہے جیسے ایک نعت میں کہا گیا ہے ’’وہی یٰسیں، وہی طاہا‘‘۔ لیکن صحیح املا طٰہٰ ہے۔
ایسے ہی ایک لفظ ’رضا‘ ہے۔ اردو میں اس کا استعمال عام ہے۔ لوگوں کا نام بھی ہوتا ہے۔ ایران گئے تو اندازہ ہوا کہ وہاں ہر تیسرے شخص کا نام رضا ہے۔ یہ امام رضا کے نام پر رکھا جاتا ہے جن کا مزار بھی ایران کے شہر مشہد میں ہے۔ اور مشہد کی وجہِ تسمیہ بھی یہ ہے کہ امام رضا کو اسی شہر میں شہید کیا گیا تھا۔ گویا مشہد شہرِ شہید ہے۔ جہاں تک رضا کا تعلق ہے تو عربی میں را بالکسر ہے یعنی ’رِضا‘۔ مطلب ہے خوشنودی۔ تاہم بفتح اول ’رَضا‘ کا مطلب ہے خوشنود ہونا۔ اردو میں ’رَضا‘ یعنی را پر زبر ہی زبانوں پر ہے۔ ’راضی بر رضا‘ عام ہے۔ یعنی اللہ کی رضا میں راضی رہنا۔ ایک لفظ ’رَجاء‘ ہے۔ عربی کا ہے اور اس میں را پر زبر ہے، مگر فارسیوں نے ’رِجا‘ کردیا، یعنی حرفِ اول بالکسر۔ امید کے معنوں میں آتا ہے۔ ’بیم و رجا‘ تو سنا ہی ہوگا، یعنی ناامیدی اور امید۔ ہمیشہ اچھی امید رکھنے کو رجائیت کہتے ہیں، جسے انگریزی میں Optimistic کہا جاتا ہے۔
بزرگ صحافی اور زبان شناس حضرتِ رضا علی عابدی کا ایک کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا جس کا عنوان ہے ’’اردو کی شکل بگڑ رہی ہے‘‘۔ رضا علی عابدی اُن لوگوں میں سے ہیں جو بی بی سی لندن سے ایک پروگرام کرتے تھے جسے سن کر لوگ اپنا تلفظ ٹھیک کرلیتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’برصغیر کی تقسیم کے بے شمار فائدے ہوں گے مگر جو دوچار نقصان ہوئے ہیں وہ دل پر برچھی کی طرح لگتے ہیں۔ ان میں ایک گھاٹا یہ ہوا کہ ہماری زبان اردو بری طرح رُل گئی، اس کا کوئی علاقہ نہیں رہا۔ جس زبان کا سارا حسن اس سے وابستہ تہذیب سے ہو، جب وہ تہذیب ہی دربدر ہوجائے تو اردو کا پرسانِ حال کون ہو گا۔ جب کہ شہر شہر اور نگر نگر اردو کانفرنسیں، ادبی میلے، ثقافتی اجتماع اور بڑے بڑے کتاب میلے اور طرح طرح کے جشن اور فیض میلے جیسی تقریبات ہورہی ہیں۔ مانتا ہوں کہ ان کارروائیوں میں اردو کا نام نمایاں ہے، لیکن کبھی ان کانفرنسوں کی تفصیل اٹھا کر دیکھیے۔ چند عنوان یوں ہیں: جدیدیت، کلاسیکیت، بعد، مابعد، تخلیقی جہات… غرض یہ کہ ایسے ہی عنوان چلتے ہیں۔ زبان پر جو اصل افتاد پڑی ہے اس کی طرف اشارے تو ہیں لیکن جو بات کھل کر اور صاف صاف کرنی ہے اس کا ذکر نہیں ہے‘‘۔
رضا علی عابدی لکھتے ہیں ’’پندرہ بیس برس اُدھر کی بات ہے ہم نے اپنے بی بی سی کے زمانے میں ایک سروے کیا اور زبان کے اکابرین سے پوچھا کہ آپ کو اردو کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے؟ غازی صلاح الدین نے کہا کہ اب تو پنجاب طے کرے گا کہ اردو کا مستقبل کیا ہوگا۔ 21 ویں صدی شروع ہوئے 20 برس ہونے کو ہیں، آج میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان کے مستقبل کا فیصلہ آج کے ماحول پر چھا جانے والا ٹیلی ویژن کرے گا۔ اخبار ختم ہونے کو ہیں، رسالے بند ہوئے جاتے ہیں، ریڈیو چپ سادھ رہا ہے۔ لے دے کر جو کچھ ہے وہ ٹیلی ویژن ہے جو صبح، دوپہر، رات بولے چلے جارہا ہے… اردو کا چہرہ مسخ ہورہا ہے، زبان کا بگاڑ زور پکڑ رہا ہے، لوگ خدا جانے کہاں کہاں سے کیسی کیسی ترکیبیں اور روزمرہ اور محاورے اٹھا کر لا رہے ہیں کہ یوں لگے جیسے ریل گاڑی اپنی پٹری سے اتر جائے مگر پھر بھی چلتی رہے۔‘‘
رضا علی عابدی کے اس شکوے میں اُن کا دردِ دل نمایاں ہے۔ تاہم انہوں نے غازی صلاح الدین کے جس جملے کا حوالہ دیا ہے اس سے نہایت ادب کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اردو نے گنگا، جمنا کی وادیوں میں جنم لیا اور یہ الہڑ دوشیزہ وہیں کھیل، کود کر جوان ہوئی۔ لیکن اس الہڑ دوشیزہ کے سر پر آنچل دکن اور پنجاب نے ڈالا جہاں یہ پیدا نہیں ہوئی تھی۔ تقسیم برعظیم سے پہلے یہ دونوں علاقے اردو کی ترویج، اشاعت اور سرپرستی میں سب سے آگے تھے۔ اردو کی بیشتر کتابیں انہی دو مراکز سے شائع ہوتی تھی۔ گنگ و جمن کی وادی میں تو آج بھی اردو کسمپرسی میں ہے۔ وسیم بریلوی لاکھ کہتے رہیں کہ ’’اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی‘‘۔ اور یوپی میں اردو ایک پہیلی ہی بن کر رہ گئی ہے، کیونکہ بھارت میں روزی، روٹی سے جڑی زبان کا نعرہ لگا، یعنی وہ زبان سیکھو جس سے روزگار ملے۔ لیکن آج بھی حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی اشاعت یو پی، دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات سے زیادہ ہے۔ ایسے ہی پنجاب پر نظر ڈالیں جس نے اردو کے بڑے بڑے شعرا اور نثر نگار پیدا کیے۔ علامہ اقبال، حفیظ جالندھری، حفیظ ہوشیارپوری جیسے مستند شعراء کی طویل فہرست ہے۔ نثر میں آج بھی پشاور کے پطرس بخاری اور ان کے بھائی ذوالفقار علی بخاری کا نام جگمگا رہا ہے۔ شورش کاشمیری جیسا شاعر اور نثر نگار اردو کا عاشق تھا۔ پٹھانوں میں احمد فراز اور قتیل شفائی شاعری میں بڑے نام ہیں۔ چنانچہ یہ طنز مناسب نہیں کہ اب تو پنجاب ہی طے کرے گا کہ اردو کا مستقبل کیا ہے۔ خود اردو بولنے والے جو خودکو اہلِ زبان کہتے ہیں، ان کی زبان اظہر من الشمس ہے۔ اردو بولنے والوں کو تو فخر کرنا چاہیے کہ دوسری زبانیں بولنے والے اردو بولتے، سمجھتے اور اس زبان میں نظم و نثر کے شاہکار تخلیق کردیتے ہیں۔ بے شک اردو کی شکل بگڑ رہی ہے، لیکن یہ سروے بھی کرا دیکھیے کہ اس بگاڑ میں اردو بولنے والوں کا کتنا حصہ ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے تلفظ بگاڑنے والے کیا سب پنجاب کے ہیں؟
جب ذوالفقار علی بخاری ریڈیو پاکستان کے سربراہ تھے تو اُن کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ ریڈیو سے کوئی غلط تلفظ یا غلط محاورہ ہوائوں میں نہ جائے۔ اس کے لیے انہوں نے تابش دہلوی اور دیگر ماہرینِ اردو کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اب یہ کروڑوں، اربوں روپے کمانے والے ٹی وی چینلز بھی کیا یہ کام نہیں کرسکتے؟ بہرحال، جب تک رضا علی عابدی جیسے لوگ موجود ہیں جنہیں اردو کی شکل بگڑنے پر تشویش ہے، تب تک پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ پروفیسر رئوف پاریکھ بھی اردو کی زلفیں سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔