اکرام الحق
اے اترتی ہوئی شب، آج یہ کون اپنے خون میں نہا گیا۔
تجھے خبر بھی ہے، یہ لاشہ کس کا ہے؟ قاتلوں نے کس کے خون کو زمین کا رزق بنا دیا؟ کسے یتیم، کس کو بیوہ بنا دیا؟ ایک چراغ گل کرکے کتنے گھروں سے روشنی چھین لی۔ ایک دوست، ہمدرد باپ، ایک غم گسار کو خاک میں ملا دیا۔
اے قاتلو! تمہیں خبر بھی ہے، تم نے کس کو قتل کیا ہے؟ ایک باضمیر، ایمان دار، غم خوار، با اخلاق، شفاف کردار، روشنی تقسیم کرنے والا، عظمتِ قرآن کا داعی، عظمتِ اسلام کا فدائی، محبت کا خوگر، سستی شہرت سے دور، اپنے عزیزو اقرباء کی آنکھوں کا سرور
ہو گیا رخصت ہمارے شہر سے
عظمتِ آدم کا آئینہ تھا جو
قاتلوں کے شہر میں فروغِ قرآن فہمی کے لیے کوشاں، جس کے لیے اپنے شب و روز کو وقف کردینے والا۔ درسِ قرآن کی محفلیں سجانا اور دوسروں کو اس طرف راغب کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ فرعونوں کے درمیان موسیٰ کا کردار ادا کرنے والا شخص اپنی ذات میں انجمن تو نہیں تھا، مگر ایثار واخوت کا پیکر ضرور تھا۔ جس کے حُسنِ سلوک کے اپنے ہی نہیں دشمن بھی قائل ہیں۔
قاتلو! تم نے دیکھا، تمہارے چہرے تو خوف سے سیاہ پڑ گئے مگر شہید کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھل اٹھا۔ بقول فیض
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
شہید تو اپنی لحد میں محوِ خواب ہے اور تم گھر سے بے گھر ہوگئے۔ شہید تو جنت کے باغوں میں محوِ خرام ہے اور تم دربدر ہوگئے ہو۔ شہید تو بارگاہ میں مقبول ہوگیا اور تم موت کی دہلیز پر خوف سے لرزاں ہو، نشے کے عارضی سہارے پر ہو۔ جب یہ نشہ اترے گا تو تم اپنی جہنم کے سامنے ہوگے۔
شہید تو اپنی شہادت کی آرزو کی آغوش میں اپنے ابدی سفر پر ہے، اُن نعمتوں کی طرف جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔اللہ انہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے (آمین)