کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبدالمالک
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں (خواب کی حالت میں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بھی وحی ہوتا ہے)، تو میں نے ایک آدمی کو قرأت کرتے ہوئے سنا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے، نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ دو مرتبہ فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ اپنی ماں کا سب سے بڑھ کر فرماں بردار اور اطاعت گزار تھا۔ (شرح السنۃ، بیہقی فی الایمان، مشکوٰۃ، باب البر والصّلۃ)
حضرت حارثہ بن نعمانؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوۂ بدر، اُحد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی ماں کے بھی فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ان کی نیکی کی طرف بڑے جذبے سے متوجہ فرمایا کہ نیکی ہو تو ایسی جیسے حارثہ بن نعمانؓ کی نیکی تھی کہ جہاد میں بھی آگے آگے اور ماں کی خدمت میں بھی پیش پیش۔ بڑا خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں نعمتیں نصیب ہوں۔ زندگی میں یہ اعتدال مطلوب ہے۔ فرائض بھی ادا کیے جائیں اور حقوق بھی!
حضرت ابی بکرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس پر دنیا میں بھی سزا ملے اور آخرت میں سزا کے لیے بھی وہ گناہ باقی رہے، سوائے ظلم اور قطع رحمی کے۔ (ترمذی، ابوداؤد، مشکوٰۃ، باب البر والصّلۃ)
صلۂ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے بڑے اجر اور برکت بتائی گئی ہے۔ قطع رحمی، یعنی عزیز و اقارب کے حقوق ادا نہ کرنا، عام سا گناہ نہیں، دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ ظلم سے مراد حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ عزیز و اقارب کے بھی، دوسرے احباب اور معاشرے کے بھی۔
حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتیوں کو آواز دینے والا آواز دے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے، کبھی تم پر بیماری نہیں آئے گی۔ اب تمھارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، تم پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی تم پر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ اب تم ہمیشہ عیش و عشرت میں رہو گے، کبھی فقر و فاقہ نہیں آئے گا۔ (مسلم، مشکوٰۃ)
جنت کی زندگی اصل زندگی ہے۔ اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی دائمی زندگی کے لیے سب سے اُونچا سودا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ، جو اللہ کی بندگی کے ذریعے جنت کی بے نظیر اور بے مثال نعمتوں سے سرفراز ہوں۔ جنت کا یہ تصور اور اس کی وہ نعمتیں جن کے ذکر سے قرآن بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہیں، تو آدمی دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر جنت کی زندگی کا موقع ضائع ہرگز نہ کرے گا۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o(’’اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں گر پڑے تو زمین والوں کی زندگی تباہ ہوجائے، ان کا تمام سامانِ عیش خراب ہوجائے، تب ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا کھانا زقوم ہوگا۔ (ترمذی ، مشکوٰۃ)
آیت کی تلاوت کرنے کے بعد، دوزخ کی سزا کے بیان کے ذریعے بتایاگیا کہ تقویٰ کی روش اور وہ بھی تاحیات اختیار نہ کرنے والے آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے، یعنی زقوم کا کھانا ہوگا۔ آج وہ لوگ جو اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس دنیا میں کتنے ہی عیش وعشرت کرلیں، ان کے سب مزوں کی سزا دوزخ کی آگ اور زقوم کا کھانا ہوگا جو سب مزوں کو بھلا دے گا۔ آج وقت ہے کہ وہ کفر سے باز آجائیں، اور دنیاوی مزوں اور بڑائیوں کی خاطر اسلام اور ملتِ اسلامیہ پر حملہ آور ہونے سے باز آجائیں ورنہ کل قیامت کے روز افسوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کچھ بیان کرکے اتمامِ حجت فرمادیا ہے۔ راہِ راست واضح ہے، جو آنا چاہے، اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کی دعوت پر مشتمل آیت کے بعد جہنم اور اس کے عذاب کی ہولناکی کا بیان اسی غرض کے لیے ہے کہ اسلام اس عذاب سے بچاؤ کا سامان ہے، اسے غنیمت جانو۔