کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبدالمالک
حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے روز ہر معروف (نیکی) اور ہر منکر (برائی) ایک مخلوق کی شکل میں انسانوں کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ معروفات اپنے اوپر عمل پیرا ہونے والوں کو خوش خبریاں دیں گی اور جنت کے وعدے یاد دلائیں گی، اور منکرات اپنے اوپر عمل پیرا ہونے والوں کو دھکے دیں گی لیکن وہ ان سے چمٹیں گے (ان سے عشق کا مظاہرہ کریں گے)۔ برائی اپنے ساتھ لے کر انہیں دوزخ میں پھینک دے گی اور عشق کا مزا چکھائے گی۔ (مجمع الزوائد، ج 7، ص 362، بحوالہ مسند احمد، بزاز)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور بدی دونوں کا انجام کھول کر بیان فرما دیا ہے، اتمامِ حجت کردیا ہے۔ کل قیامت کے روز کوئی یہ عذر نہیں کرسکے گا کہ مجھے تو برائی کے اس ہولناک انجام کا پتا نہ تھا، ورنہ میں برائی سے عشق نہ کرتا۔ آج موقع ہے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے، باز آنے والے باز آسکتے ہیں۔ کل پکڑ ہوگی، کسی بھی قسم کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ ہے کوئی جو اس بات پر کان دھرے!
……٭٭٭……
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن اور رات میں ضروریات اور حاجات پیش آتی رہتی تھیں۔ اس لیے ہم میں سے کم از کم چار پانچ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے۔ کبھی بھی آپ ؐ کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ کہتے ہیں، میں آپؐ کے پاس آیا، اس حال میں کہ آپ ؐ گھر سے باہر نکل گئے۔ میں آپ ؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ انصار کے سرداروں میں سے ایک سردار کے باغ میں داخل ہوئے، نماز پڑھی، سجدہ کیا جو بہت طویل ہوگیا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؐ کی روحِ مبارک قبض کرلی گئی ہو، اس ڈر سے میں رو پڑا۔ کہتے ہیں، پھر آپ ؐ نے سر اٹھایا اور مجھے بلایا اور فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: یارسول ؐ اللہ! آپ ؐ نے سجدہ طویل فرمادیا تو مجھے ڈر ہوگیا کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روحِ مبارک قبض کرلی ہو، اور اس کے بعد میں کبھی بھی آپؐ کا دیدار نہ کرسکوں، اس لیے میں رو پڑا۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنی امت پر اس انعام کے سبب سجدۂ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے آپؐ پر ایک دفعہ درود پڑھا میں اُس پر درود بھیجوں گا، اور جس نے آپؐ پر سلام بھیجا میں اُس پر سلام بھیجوں گا۔
(مجمع الزوائد، ج 10، ص 161، بحوالہ سند ابویعلی ابن ابی الدنیا، ایضاً الترغیب، ج 3، ص 155)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ اُمتی کو انعام ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے سبب اللہ تعالیٰ اس پر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایسے شفیق و کریم نبی کے ساتھ محبت، اطاعت اور عشق کس قدر ہونا چاہیے؟ ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپؐ کی محبت، آپؐ کی اطاعت، آپؐ کے دین و نظام سے لگائو ماں باپ اور اولاد، اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، اولاد اور اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا فرائض کا پابند، منکرات سے اجتناب کرنے اور دین کو غالب کرنے والا ہوگا، لیکن وہ شخص جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت نہ ہو، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھولا ہوا ہو، آپؐ پر درود و سلام نہ پیش کرتا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے دین اور اللہ والوں کو بھی بھولا ہوا ہوگا، اور اسی لیے خائب و خاسر ہوگا۔
……٭٭٭……
حضرت ابوقتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کے تمام لوگوں کو معافی مل جائے گی مگر مجاہرین (اعلان کرنے والے) کو معافی نہیں ملے گی۔ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہرین کون لوگ ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا: وہ آدمی جو رات کو گناہ کرتا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے۔ صبح کے وقت وہ اٹھے اور خود ہی اپنا پردہ فاش کر دے، کہے اے فلاں آدمی! میں نے گزشتہ رات یہ برا کام کیا۔ (مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی فی الاوسط)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سچائی کا مشاہدہ سر کی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے۔آج بہت سے ایسے لوگ جو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں، اپنے گناہوں پر سے خود پردہ اٹھاتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔ اس میں اپنے ماں باپ، دادا نانی کی بے حیائیوں کا تذکرہ، عالمی سطح پر دنیا بھر کے اصحابِ شان و شوکت اور عوام و خواص کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کتابوں پر رائلٹی لیتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک ایسا دور آئے گا جب قوم کا لیڈر رذیل ترین اور قبیلے کا قائد فاسق ہوگا (مشکوٰۃ)۔ آج وہی دور ہے۔
جو مسلمان بے حیائی کی اشاعت پر خاموش تماشائی ہوں، وہ بے حیائی کی اشاعت میں مددگار شمار ہوں گے۔ جب بے حیائی کی اشاعت کرنے والوں پر عذاب آئے گا تو اس کی لپیٹ میں خاموش تماشائی بھی آجائیں گے۔ خاموشی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ہر ہر گھر، بستی بستی تک پہنچ کر موجودہ نازک صورتِ حال سے اہلِ وطن کو آگاہ کیا جائے اور بے حیائی کو حکومتی سطح پر فروغ دینے کے سلسلے کو روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!