ایک عرصے سے نجی ہائوسنگ فرم ’بحریہ ٹائون‘ گرم پانی میں ہے۔ یہ مشکلات اس لیے بھی بڑھ گئی ہیں کہ وہ وقت گزر گیا جب حکومتیں ملک ریاض کو بازوئوں میں بھینچتی اور سینے سے لگایا کرتی تھیں۔ اب عدالت نے سارا حساب مانگ لیا ہے۔
بحریہ ٹائون کی ابتدا 1990ء کی دہائی میں ہوئی جب ملک ریاض نے پاک بحریہ کے ملازمین کے لیے رہائشی منصوبہ بنایا اور اسے بحریہ ٹائون کا نام دیا۔ اُس وقت کے پاک بحریہ کے سربراہ نے اس کام کی بخوشی اجازت دی۔ تاہم سپریم کورٹ کے معروف وکیل وہاب الخیری اس کے خلاف مقدمہ لے کر سپریم کورٹ پہنچے، تاہم پاک بحریہ کی جانب سے فخرالدین جی ابراہیم پیش ہوئے اور فیصلہ بحریہ ٹائون کے حق میں ہوا۔ تب سے لے کر آج تک یہ رہائشی منصوبہ راولپنڈی سے لاہور پہنچا اور پھر پھیلتے پھیلتے کراچی تک پہنچ گیا۔ کراچی میں بھتے کی پرچی سے محفوظ رہنے کے لیے ملک ریاض نے الطاف حسین یونیورسٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔ تاہم جب وقت بدلا تو گرم ہوائیں اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ سپریم کورٹ تقاضا کررہی ہے کہ تین ہزار ارب روپے دیے جائیں۔ ملک ریاض نے پیش کش کی ہے کہ پنجاب میں دو ڈیم بناکر دینے کو تیار ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈڈوچھہ ڈیم (مری اور کہوٹہ کے درمیان برساتی نالے پر)کی تعمیر پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ تین ہفتوں میں بتایا جائے کہ ڈیم بحریہ ٹاؤن سے بنوانا ہے یا پنجاب حکومت کو خود بنانا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتزاز احسننے بتایا کہ پنجاب حکومت نے مجوزہ زمین پر ڈیم تعمیر کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سیکریٹری آب پاشی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے فیصلے کے لیے کمیٹی بنائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کو کابینہ میں بھیجا جائے۔ اس کیس کی حالیہ سماعت کے دوران بحریہ ٹائون کو بہت ٹف ٹائم ملا۔ معاملہ جنگلات کی اراضی کے غیر قانونی استعمال کا ہے، سپریم کورٹ میں یہ کیس واقعی قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ سماعت آگے بڑھی تو چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ ساتھ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا کردار بھی سامنے آئے گا۔ چودھری نثار علی خان نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کے ذریعے جنگلات کی زمین اور شاملات کی بہت وسیع اراضی ملک ریاض سے واپس بھی نکلوائی تھی۔
اس کیس کی تازہ سماعت کی روداد کچھ اس طرح سے ہے کہ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون راولپنڈی نظرثانی درخواست پر سماعت میں ملک ریاض کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق جنگلات کی 1741 ایکڑ اراضی بحریہ ٹائون کو اُس وقت کے وزیراعلیٰ کی منظوری سے دی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ وزیراعلیٰ کیسے اس معاملے کی منظوری دے سکتا ہے؟ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کون تھا؟ وکیل نے بتایا کہ اُس وقت چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا تو کوئی کردار نہیں، اس معاملے میں انہوں نے کیسے منظوری دی؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسی زمین میں سے 270 کنال وزیراعلیٰ کے خاندان کے لوگوں کو دے دی گئی، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب کیا یہ ریفرنس کا فٹ کیس نہیں ہے! چیف جسٹس نے کہا کہ تمام چودھری خاندان کو نوٹس جاری کردیتے ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیسے زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چند کنال زمین خرید کر کئی ایکڑ شاملات لپیٹ لی جاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ کئی چیزیں پہلے اخذ کرکے رائے بنا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل میں رائے اخذ کرلیتا ہوں جب ہر چیز عیاں ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بات واضح کردوں، اگر کچھ غیر قانونی ثابت ہوگئی تو ایک انچ زمین بھی نہیں بخشوں گا۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ میں بخشوانے آیا بھی نہیں ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک انچ زمین پر قبضے کو برداشت نہیں کریں گے، لوگوں کو مار کر یا چھین کر زمین پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ حد بندی کی منظوری سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے دی۔ جسٹس آصف سعید نے پوچھا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے حدبندی کے معاملے میں کیوں مداخلت کی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چودھری برادران کے اہلِ خانہ کو نوٹس دے دیتے ہیں کیونکہ عدالت کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ280کنال اراضی چودھری پرویزالٰہی کے خاندان کے افراد کو الاٹ کی گئی، چودھری شجاعت حسین کی بیٹی کو بھی زمین الاٹ کی گئی، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی کے خاندان کو حصہ دیا گیا، یہ اراضی خدمات کے عوض دی گئی۔ چیف جسٹس نے ملک ریاض سے کہا کہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، آپ کی حیثیت ایک عام سائل جیسی ہے، عدالتی کارروائی میں مداخلت پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیتا ہوں، اب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی، اگر اپنے وکیل پر بھروسہ نہیں ہے تو خود دلائل دیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بڑی اراضی چودھری منیر کو بھی الاٹ کی گئی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا کیس سن رہے تھے تو کہا گیا: بنا تو غیر قانونی ہے مگر ہے بڑا عالیشان۔ اب جنگلات کیس میں کہا جارہا ہے کہ دس ہزار درخت کاٹے لیکن جنگل میں منگل کردیا گیا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ آپ اس دور کی بات کررہے ہیں جب قانون گھر کی لونڈی ہوا کرتا تھا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اعتزاز احسن اب وقت بدل چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت محتسب اعلیٰ کون تھے ہمیں معلوم ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، سب سے مساوی سلوک ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کو واشنگٹن میں ایک کھوکھا الاٹ کرنے کا بھی اختیار نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب کون ہوتا ہے مداخلت کرنے والا! چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات ہوں تو سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
کیا معاملات عمران خان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں ؟
حکومت کے پہلے سو دن تو مکمل ہوگئے، لیکن اس دوران کوئی قابل ذکر کارکردگی نظر نہیں آئی۔ اب وزیراعظم نے کہا ہے کہ یوٹرن لینا ضروری ہے، بلکہ کہا کہ جو نہیں لیتا وہ بے وقوف ہے۔ اس بیان کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان مستقبل میں کہاں کہاں یوٹرن لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی اور پارلیمنٹ میں اس کے غیر ضروری جارحانہ رویّے نے بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں اور معاملات تیزی سے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک بار اسمبلی میں براہِ راست ارکان کے سوالوں کے جواب دیا کریں گے، لیکن وزیراعظم بن جانے کے بعد عمران خان بمشکل دو تین روز ہی قومی اسمبلی میں آئے اور ایک روز سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہوچکے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹیاں ابھی تک نہیں بن سکیں، پبلک اکائونٹس کمیٹی تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہے، اس معاملے پر حکومت دو حصوں میں بٹ گئی ہے، وزیر دفاع پرویز خٹک اور ان کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن کے بغیر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں تشکیل نہیں دینی چاہئیں، جب کہ وزیر اطلاعات سمیت ایک بڑا گروپ چاہتا ہے کہ اپوزیشن کے بغیر ہی قائمہ کمیٹیاں بنا دی جائیں۔ یہ غیر پارلیمانی اور غیر سیاسی رویہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو جمہوری آمروں کی صف میں کھڑا کردے گا۔ گزشتہ دو پارلیمنٹس کی یہ روایت رہی کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے پاس رہی، لیکن تحریک انصاف شہبازشریف کو اس کمیٹی کی سربراہی دینے پر آمادہ نہیں، اور جواب میں اپوزیشن قومی اسمبلی کی دیگر کمیٹیوں میں نمائندگی پر آمادہ نہیں ہورہی۔ امکان ہے کہ رواں ہفتے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس بارے میں کچھ پیش رفت ہوگی۔ صدر عارف علوی نے بھی کچھ معاملات میں حکومت کو بالواسطہ مشورے دیے ہیں، لیکن حکومت میں عقاب صفت وزراء عمران خان کے کیمپ میں کھڑے ہیں۔ تحریک انصاف کی فاختائوں کی ایک بھی نہیں سنی جاتی۔ تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والی رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ سمیت تحریک انصاف کے بہت سے رہنما اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہونے والے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو عمران خان خود براہِ راست ہدایات دیا کرتے تھے، اور اس حد تک کہا جاتا تھا کہ ٹی وی ٹاک شوز میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مدعو مہمانوںکو بولنے نہیں دینا، کرپٹ کہہ کر انہیں دبا کر رکھنا ہے۔ حکومت میں آجانے کے بعد بھی تحریک انصاف کی وہی حکمت عملی ہے جس کا اسے مسلسل نقصان ہورہا ہے، مگر وزیراعظم کو شاید اس کا ادراک نہیں ہے۔