متحدہ مجلس عمل، ملّی یک جہتی کونسل، کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، جمعیت اتحاد العلماء، جماعۃ الدعوۃ، مجلس احرار اسلام اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے زیراہتمام ’’تحفظ ناموسِ رسالتؐ‘‘ ملین مارچ کا یہ دوسرا پڑاؤ تھا، اس سلسلے کا پہلا فقیدالمثال مارچ 8 نومبر کو کراچی میں کیا گیا، جب کہ 25 نومبر کو سکھر میں اگلے پڑاؤ کا اعلان کیا گیا ہے۔ 15 نومبر بروز جمعرات صوبائی دارالحکومت لاہور کی اہم ترین شاہراہ قائداعظم پر ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ عوام الناس، خصوصاً دینی مدارس کے علماء و طلبہ، اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں زیرتعلیم نوجوانوں، ان کے اساتذہ کرام اور شہر کے محنت کشوں کا ایک سمندر تھا جو پنجاب اسمبلی کے سامنے فیصل چوک اور مسجد شہداء کے درمیان امڈ آیا تھا، اور اس عزم کا اظہار کررہا تھا کہ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے پوری ملّتِ اسلامیہ متحد و متفق اور یک جان و یک آواز ہے۔ شاہراہ قائداعظم جیسی شہر کی اہم ترین جگہ پر اتنا بڑا ہجوم پُرجوش نعرے لگاتا رواں دواں تھا، مگر حیرت کی بات تھی کہ برقی ذرائع ابلاغ کو گویا خبر ہی نہیں تھی۔ اتنے بڑے پروگرام کو یوں نظرانداز کیا گیا، اس طرح سے بلیک آؤٹ کیا گیا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ غیرتِ ایمانی کے اس قدر بڑے مظاہرے کی ایک جھلک بھی برقی ذرائع ابلاغ کی اسکرینوں پر ناظرین کو دکھائی نہ گئی ہو۔ اس سے قبل بھی ان ذرائع ابلاغ کا دینی طبقات سے اسی قسم کا رویہ رہا ہے۔ تاہم ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے، آسیہ کی رہائی کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے، اور ان اقدامات پر زبردست عوامی ردعمل کا جس طرح ذرائع ابلاغ نے بلیک آؤٹ کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس کے برعکس سیکولر عناصر کی جانب سے دس افراد بھی شہر کے کسی کونے کھدرے میں دین بیزاری کا مظاہرہ کریں تو اسے ذرائع ابلاغ سے یوں اچھالا جاتا ہے جیسے کوئی طوفان برپا ہوگیا ہو، اور جیسے یہ چند لوگ پوری قوم کی نمائندگی کررہے ہوں۔ تاہم یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ ملتِ اسلامیہ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے دین سے تعلق اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کے لیے نہ تو ذرائع ابلاغ کی محتاج ہے اور نہ ہی ان کے تابع۔ یہ جیسا چاہیں مخالفانہ طرزعمل اپنائیں۔۔۔ اور جتنا چاہیں مفنی پروپیگنڈا کریں۔۔۔ اسلامیانِ پاکستان ان کی باتوں میں آنے والے نہیں، اور اپنے نبیِ مکرم و محترم حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کی خاطر ہر طرح کی قربانی پر آمادہ و تیار ہیں۔
’’تحفظ ناموسِ رسالتؐ ملین مارچ‘‘ کے شرکاء سے متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے قائم مقام امیر حافظ محمد ادریس، جمعیت اتحاد العلماء کے سرپرستِ اعلیٰ شیخ القرآن و الحدیث مولانا عبدالمالک، جمعیت اہلحدیث کے مرکزی امیر علامہ ساجد میر، مجلس عمل کے سیکریٹری اطلاعات اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے فرزند اویس نورانی، سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری، سابق وفاقی وزیر اکرم درانی، جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد، مجلس احرار اسلام کے ڈپٹی سیکریٹری میاں محمد اویس، جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا امیر حمزہ، مولانا امجد خان، رانا شفیق پسروری، مولانا اللہ وسایا، راشد محمود، علامہ محمد رمضان توقیر اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ عمران خان کو خصوصی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے ۔ عالمی استعمار اور حکمران مسلمانوں کے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت نکال نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے ٹیکنیکل بنیادوں پر فیصلہ دیا ہے تاکہ مغرب اور یورپ کو خوش کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ ہمارے چیف جسٹس کو خراجِ تحسین پیش کررہی ہیں۔ خاکے بناکر توہینِ رسالت کرنے والے اس فیصلے پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا جعلی حکمران یہودیوں اور مغرب کے ساتھ کھڑا ہے، جبکہ ہم نے بہت پہلے کہا تھاکہ یہ یہودی لابی کا ایجنٹ ہے جس کی تصدیق آج یہودیوں کے وزیر مشیر بھی کررہے ہیں۔ کیا نوجوان لڑکے لڑکیوں کے مخلوط رقص و سرود سے ریاست مدینہ بنائی جاسکتی ہے؟ تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اسے کشمیر کی آزادی کے مؤقف سے بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ پاکستان کے عوام فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت آئینِ پاکستان سے اسلامی دفعات کو ختم کرنے اور توہینِ رسالت کے قانون کو بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔ دینی مدارس پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ہم دینی مدارس کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان کو امریکہ یا اسرائیل کی گود میں نہیں ڈالنے دیں گے۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کی حیثیت سے قائم رہے گا۔
قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ محمد ادریس نے تحفظ ناموس رسالتؐ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکمران، ثاقب نثار اور عدلیہ کے جج سن لیں کہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے تمہیں نجات مل سکتی ہے۔ اگر آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کو برداشت کرتے رہے تو کل تمہاری نجات کیسے ہوگی؟ پاکستان کی شناخت لاالٰہ الااللہ سے ہے۔ قوم بیرونی ایجنڈے پر چلنے والوں کو برداشت نہیں کرے گی۔ حکمران اللہ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، یہاں ان کی من مرضی نہیں چل سکتی۔
امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث حافظ ساجد میر نے کہاکہ حرمتِ رسولؐ کا تحفظ کسی خاص مکتبہ فکر یا کسی خاص علاقے کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں کے لیے اپنی جان، خاندان اور عزت سے زیادہ اہم ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ختمِ نبوت اور حرمتِ رسول ؐ کے پروانے ہیں۔ حکمران اسلام پسندوں سے لڑائی مول نہ لیں، پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے ہم بڑی سے بڑی قربانی دے سکتے ہیں۔ تحفظ ناموسِ رسالتؐ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہاکہ پاکستان کو سیکولر اور لبرل ملک بنانے کے خواب دیکھنے والوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کی تحریک قیام پاکستان کی تحریک کا تسلسل ہے، جب تک پاکستان میں شریعت کا نظام نافذ نہیں ہوتا، پاکستان کے عوام چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایم ایم اے کے سیکریٹری اطلاعات شاہ اویس نورانی نے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم دھمکیاں دے کر ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں۔ ہم حکمرانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر ہماری مسجدوں، منبرو محراب اور خانقاہوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ شیخ القرآن والحدیث مولانا عبدالمالک نے اپنے خطاب میں کہا کہ خاتم الانبیا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے، اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کو تیارنہیں تو نہ اس کا ایمان معتبر ہے اور نہ وہ مسلمان ہوسکتا ہے۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ توہینِ رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کو ملک سے بھگانے والوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ملک سے بھاگنے کا موقع نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ثاقب نثار اپنی عدالت کی توہین برداشت نہیں کرتے، مگر توہینِ رسالت کرنے والوں کو رہا کرنے میں بڑی جلدی کرتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل پنجاب کے صدر میاں مقصود احمد نے کہا کہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کا امتحان ہے کہ وہ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کے حصول کے لیے یہود و ہنود کے ایجنڈے پر چلنے اور ملک میں فحاشی و عریانی کا سیلاب لانے والے پاکستانی عوام کے نمائندہ نہیں ہوسکتے۔ علامہ محمد رمضان توقیر نے کہاکہ آئینِ پاکستان کا تقاضا ہے کہ حرمتِ رسو ل ؐ کی حفاظت کی جائے۔ مجلسِ احرارِ اسلام کے مرکزی رہنما سید عطاء اللہ شاہ ثالث نے ریلی میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل میاں محمد اویس کی قیادت میں شرکت کی۔ سید عطاء اللہ شاہ ثالث نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو بیرونی استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت لایا گیا ہے۔ سب مسلمانوں کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی نے تجویز دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ یہ قادیانیوں اور اسرائیل کا مشترکہ ایجنڈا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل کی حمایت فلسطینی شہدا کے خون سے غداری ہے۔