زندگی کے چند خوشگوار لمحات جو مچھ جیل کی نذر ہوگئے!
معروف صحابی و تجزیہ نگار و سابق طالب علم رہنما امان اللہ شادیزائی نے ایک سیاسی کارکن کی یاداشتیں جو جیل کی کہانی پر مبنی ہے قلم بند کرنا شروع کی ہے جس کی پہلی قسط 13اپریل، دوسری قسط 25مئی اور تیسری قسط 1جون کو بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سلگتا باب کے عنوان سے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوچکی ہیں اور اب چوتھی قسط نذر قارئین ہے۔
کوئٹہ جیل میں بنگالی قیدیوں کی حمایت کا نتیجہ بڑی جلدی نکل آیا۔ اب جون کا مہینہ کوئٹہ جیل میں شروع ہوچکا تھا موسم خوشگوار تھا ایسی ابتداء تھی کہ صبح ناشتہ کے بعد چکر جمعدار نے مجھ سے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے بچوں کو پڑھاتا تھا اس لیے خیال ہوا کہ وہ اس سلسلہ میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے چکر جمعدار کے ساتھ روانہ ہوا جب بڑے دروازے سے گزر کر جیل سپرنٹنڈنٹ سے ملنے کے لیے احاطہ میں داخل ہوا تو چکر جمعدار نے کہا کہ آپ کا تبادلہ مچ جیل ہوگیا ہے۔ اس سے کہا کہ میرا سامان؟ تو اس نے کہا وہ بھی آجائے گا کچھ دیر بعد سید حسام الدین آگئے۔ یہ پشتون زلمے کے کمانڈر تھے جب اسے بتلایا یہ مچ جیل جارہے ہیں تو وہ پریشان ہوگیا اور مجھ سے کہا کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے نہ آپ بنگالیوں کے حق میں تقریر کرتے اور نہ ہمارا تبادلہ ہوتا۔ اب اس پر گھبراہٹ طاری ہوگئی اور اس کے چہرہ زرد ہوگیا اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ مچ جیل تبادلہ ہوگیا ہے اس نے کہا کہ یہ ہمیں پنجاب کے کسی جیل میں لے جارہے ہیں۔ پنجاب میں بھٹو سیاسی قیدیوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں پر بدترین تشدد رہا تھا۔ اس نے کہا کہ امان صاحب میرے پاس نیند کی گولیاں ہیں یہ اگر تم چاہو تو تمہیں بھی دے دیتا ہوں تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے نہیں چاہیے۔ سید حسام الدین انتہائی نفیس انسان تھا اور کوئٹہ ڈگری کالج کی طلبہ یونین کا جنرل سیکرٹری رہ چکا تھا۔ نام کے لحاظ سے تو وہ کمانڈر تھا مگر بھٹو کے وحشیانہ جبرو استبداد نے کمانڈر کو خوف زدہ کردیا تھا اسے میری بات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ہمین مچ جیل بھیجا جارہا ہے۔ جب حسام الدین کو احاطہ میں لایا گیا تو اندازہ ہوگیا کہ اب جیل میں طالب علم لیڈروں اور متحرک سرگرم نوجوانوں کا تبادلہ کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں کو ہتھکڑیاں لگادی گئیں اور جیل کی بس میں بٹھادیا گیا اور کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچادیا گیا۔ کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو ہتھکڑیاں کھول دی گئیں اور بولان میل روانہ ہوگئی۔ پشتون زلمے کا کمانڈر سارے راستہ پریشان اور خوف زدہ ہی رہا۔ جب ریل مچ اسٹیشن پہنچی تو اس کو اطمینان ہوگیا کہ ہم پنجاب نہیں جارہے ہیں تو اس کے چہرے پر شادمانی کے آثار نظر آئے اور کچھ مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی اور ہمیں پیدل ہی مچ جیل پہنچادیا گیا۔ کاغذات جیل سپرنٹنڈنٹ کے حوالے ہوئے اور ہم دونوں کو مختلف بیرکوں میں روانہ کردیا گیا۔ مجھے 9 نمبر میں لے جایا گیا، خودسر قیدیوں کو پہلے چند دن اس بیرک میں رکھتے تھے۔ کوئٹہ کی خوشگوار فضا سے مچ جیل کی گرمی سے تپتی ہوئی بیرکوں کی طرف روانہ کردیا گیا۔ 9 نمبر بیرک ویرانہ سی نظر آئی۔ چکر جمعدار کا نام آدم خان تھا یہ انگریزوں کے دور کا سپاہی تھا۔ قد اس کا 6 فٹ ہوگا، انتہائی وجہیہ شخصیت کا انسان تھا، آواز بڑی گونج دار تھی جب وہ میرے احاطہ میں داخل ہوا تو اس کا لہجہ بڑا کرخت تھا جس لہجہ میں وہ مخاطب تھا تو اس سے کہا چاچا میں سیاسی قیدی ہوں کوئی قاتل اور بدمعاش نہیں ہوں مجھ سے نرمی اور اخلاق سے بات کرو۔ اس کو اندازہ ہوگیا کہ یہ قیدی کوئی سرپھرا نوجوان ہے تو اس کا لہجہ نرم ہوگیا اور میرے قریب آگیا، مجھے سے پوچھا بچہ صبح آپ چائے پئیں گے یا چنے کھائیں گے۔ اور مجھے ایک پیتل کا کٹورا تھمادیا اور چند لمحوں کے بعد ایک سپاہی موٹا سا کمبل بھی لے آیا اور مجھے دے دیا۔ آدم خان سے کہا چاچا اس گرمی میں یہ گرم اونی کمبل اور تکیہ کہاں ہے؟ اس نے کہا بچہ یہ کمبل ہی تمہارا تکیہ ہے، یہ جیل ہے، یہاں تکیہ نہیں ملتا۔ اس سے پوچھا کہ اس پیالہ کا کیا استعمال ہے اس نے کہا اس میں آپ کو چائے دی جائے گی اور یہ پیالی ہی تمہارا گلاس ہے اور واش روم میں یہ تمہارے لوٹے کا کام دے گا۔ اس سے کہا کہ یہ کیا یہ قانون ہے؟ آدم خان نے کہا بچہ یہ انگریز کے دور کا قانون ہے اور اس کو کسی نے تبدیل نہیں کیا اور یہ جو نیپ کی حکومت تھی اس کو بھی احساس نہیں ہوا اور انہوں نے بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور مجھے بتلایا کہ جس احاطہ میں تمہیں رکھا گیا ہے اسی احاطہ میں گل خان نصیر سابق وزیر خوراک تھے۔ شاید جب اسے کمبل اور پیتل کا پیالہ دیا تو اس نے بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس سے کہا کہ میر صاحب آپ حکومت میں تھے تو آپ نے ان قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو وہ چپ ہوگئے۔ مجھ سے پوچھا کہ نوجوان چائے لائوں یا چنے۔ اس سے پوچھا کہ ان دونوں میں کون سی چیز بہتر ہوگی۔ آدم خان نے کہا بچہ چنے کا فائدہ یہ ہے کہ ایک ایک چن کر کھائو اس طرح تمہارا ٹائم پاس ہوجائے گا اور اگر چائے پیو گے تو جلدی ختم ہوجائے گی۔ اس سے کہا کہ چنے بہتر ہیں۔ اور مجھے چنے لا دیے،کے عصر کے وقت مجھے کمرے میں جانے کو کہا اور تالا لگادیا پورے احاطہ میں 9 کمرے تھے اور دیواریں پتھر کی تھیں، ایک ویرانہ تھا اور وحشت تھی تلخ اور ناخوشگوار لمحات کا اندازہ نہ تھا کہ یہ بھی زندگی میں آئیں گے۔ مچ جون میں سخت گرم ہوتا اور جیل کے کمرے کی چھت ٹین کی تھی اور برآمدہ بھی ٹین ہی کا تھا، چھت زیادہ اونچی نہ تھی اور برآمدہ اس سے بھی نیچے تھا۔ کمرہ بند ہوا تو کچھ دیر بعد ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ تشریف لے آئے ان کے ساتھ ان کا عملہ تھا یہ جوان تھے۔ کمرے کے سامنے کھڑے ہوگئے اور گفتگو شروع کردی اور کہا کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں اس سیاست کی کیا ضرورت ہے اس میں نہ پڑیں۔ اس نے نصیحت کی اور اس کو خاموشی سے سنتا رہا جب وہ خاموش ہوگئے تو اب میری باری تھی۔ اُن سے کہا کہ میری ڈگری سیاست کی ہے اور ایم اے سیاسیات ہی میں کیا ہے اور مجھ جیسا تعلیم یافتہ شخص اپنی قوم کی رہنمائی نہیں کرے گا تو پھر کون کرے گا، کیا ایک ریڑی والا یہ کام کرے گا، آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ میں بھٹو کے ظلم اور ظالمانہ حکومت پر خاموش رہوں گا۔اگرہم تعلیم یافتہ نوجوان یہ کام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ کیا اَن پڑھ لوگ یہ فریضہ سرانجام دے سکیں گے، میری تقریر خاموشی سے سنتا رہا اور اس کا عملہ میری پرجوش گفتگو پر مسکراتے رہے اور کبھی مجھے دیکھتے اور کبھی اپنے جیل آفیسر کو۔ ان سے کہا کہ آپ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ سیاہ کو سفید کہوں، ایک ظالمانہ حکومت اور فاشسٹ حکمران کو جمہوری انسان کہوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا قوم کی رہنمائی کرنا میرا فرض بنتا ہے اس فرض کو نبھائوں گا اور اس وجہ سے آج جیل میں ہوں۔ اس کو اندازہ ہوگیا کہ یہ نوجوان کوئی سرپھرا لگتا ہے اس نے میری ساری گفتگو بڑے آرام سے سنی اور جب میرا خطاب ختم ہوگیا تو وہ اپنے عملہ کے ساتھ روانہ ہوا اور مجھ سے کہا کوئی تکلیف ہو تو بتانا۔ دن تو جیسے بھی تھا کٹ گیا اب رات شروع ہوگئی۔ کمرے میں ایک بلب تھا جو ساری رات جلتا تھا، گرمی بلا کی تھی۔ ٹین کی چھت سے آگ برس رہی تھی، قمیض اتار دیا، جسم پسینے سے شرابور ہوگیا، سیمنٹ کا چبوترہ تھا اس پر لیٹ گیا وہ بھی گرم تھا کمبل کو تکیہ بنالیا تو چہرہ کمبل کی گرمی سے جلنے لگا، ہاتھ کو چہرے کے نیچے رکھا تو گرمی سے ہاتھ جلنے لگا اُٹھ کر بیٹھ گیا، کبھی کمبل کو دیکھتا اور کبھی چھت کو دیکھتا اور کبھی چبوترے کو۔ زندگی میںایسے گرم دن اور رات نہیں دیکھی تھی اب یہ دونوں میرا مقدر بن گئی تھی، ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا بلدیہ کی محفلیں یاد آرہی تھیں۔ دوست یاد آرہے تھے، کوئٹہ کی سر شام محفلیں اداس کر رہی تھیں۔ جسم پسینہ سے شرابور ہوگیا تھا۔ یہ 1973ء اور جون کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے جوبن پر تھی لیکن اس تکلیف دہ مرحلہ کے باوجود کوئی ملال نہ تھا نہ کوئی شرمندگی تھی نہ افسوس تھا جو کچھ کیا تھا وہ باعث اطمینان تھا ضمیر مطمئن تھا بس یہ میرے لیے کافی تھا اور انہیں خیالوں میں سیاہ رات گزر رہی تھی۔ یہ رات بڑی بھاری تھی ایک ہی رات میں جسم دانوں سے بھر گیا، اس کی تکلیف علیحدہ تھی آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ان لمحوں کو گزرے 45 سال گزر چکے ہیں اور اس وقت 8 بج کر 10 منٹ ہوئے ہیں۔ ایک خوشگوار اور آزاد ماحول میں نومبر کی سردی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، تلخ لمحات کو قلمبند کررہا ہوں، کمرے میں گیس ہیٹر جل رہا ہے اور مچ جیل کے کمرے کی داستان لکھ رہا ہوں۔ معلوم نہیں رات کیسے گزر گئی صبح ہوئی کمرہ کھولا گیا تو ساتھ والی بیرک میں شور زیادہ تھا جب میرے کمرے کا دروازہ کھلا تو ساتھ والے بیرک سے ایک نوجوان کی آواز آئی کہ قیدی کون ہے اور نام کیا ہے، نام بتایا شادیزئی۔ نام سنتے ہی شور بلند ہوا، اور نعرہ بلند ہوا، شادیزئی زندہ باد کچھ نام جاننے والے تھے اور کچھ میرے تھے اجنبی تھے لیکن میں ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ ایک نے پوچھا کہ آپ کے پاس کچھ ہے اُن سے کہا کہ نہیں تو انہوں نے کہا کہ صبح آپ کو چائے بھجودیں گے اور بسکٹ بھی ہوں گے۔ ان سے کہا یہ کیسے دو گے۔ اس نے کہا کہ آپ یہ نالی دیکھ رہے ہیں جو دیوار کے ساتھ ہے اُن سے کہا کہ نظرآ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صبح آواز دیں گے تو آپ اس نالی کے قریب آجانا اور چائے لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ میر گل خان نصیر کو بھی مم نے اس نالی کے ذریعہ چائے دی تھی۔ یہ نالی ٹوائلیٹ کے گندے پانی کے نکاسی کے لیے بنوائی گئی تھی، انہوں نے آواز دی اور اس نالی کے قریب چلا گیا انہوں نے چائے کا کپ بڑے احتیاط سے میری طرف بڑھادیا اور مجھے بھی احتیاط سے چائے کا کپ اپنی طرف لے لیا کچھ بسکٹ بھی طشتری میں رکھ کر دیے۔ یوں چائے کا لطف آگیا اور کہا کہ جس چیز کی ضرورت ہو تو بتادینا ہم دیوار سے آپ کی طرف پھینک دیں گے۔ اب یہ یاد نہیں کہ جیل کا تیسرا دن تھا یا چوتھا دن تھا مجھے اس بیرک سے بیرک 8 میں تبدیل کردیا گیا۔ ایک دلچسپ واقعہ اس بیرک کی تبدیلی سے پہلے کا ہے صبح کوئی 10 بجے کا وقت تھا یا 11 کا۔ بیرک کے سامنے کچھ فاصلہ پر ایک بچھو نظر آیا، ایک ٹوٹی ہوئی اینٹ تھی اس کو زمین سے نکالا اور بچھو کو مار دیا۔ ڈپٹی صاحب کچھ دیر بعد آئے تو اکھڑی ہوئی اینٹ دیکھی تو مجھ سے پوچھا کہ یہ اینٹ آپ نے نکالی، اُن سے کہا کہ ہاں تو، موصوف نے کہا جیل کے قوانین کے تحت یہ اقدام غیر قانونی ہے، ان سے کہا کہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ بچھو کو مارنا میرے لیے لازمی تھا اگر وہ کاٹ لیتا تو کون ذمہ دار تھا۔ بس اس طرح تلخ لہجوں کا تبادلہ ہوا۔ پھر وہ چلے گئے۔ تبادلہ کے دن آدم خان آئے اور مجھ سے کہا کہ ساتھ والے بیرک میں آپ کا تبادلہ ہوا گیا ہے۔ ساتھ والے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ دوست میرے واقف تھے عبدالحمید کرد، گل بلوچ، ایک ہندو نوجوان بھی تھا اس کا تعلق BSO سے تھا ان سب کا تعلق نیپ اور طالب علم تنظیم BSO سے تھا۔ ان میں سب سے سینئر نیپ خضدار کے صدر غوث بخش عالجاہ تھے۔ مجھے کمرہ نمبر ایک الاٹ ہوا میرے کمرے میں نوجوان گل بلوچ تھا جو میرا واقف تھا، یہ سب مجھے جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ میری تقریر حکومت کے خلاف تھی بھٹو اور گورنر نواب بگٹی کے خلاف تھی اور نیپ کی حمایت میں تھی۔
اب غوث بخش عالجاہ نے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور کچھ فاصلہ پر ان کا اجلاس شروع ہوگیا اور یہ میرے حوالے سے تھا، براہوی زبان میں بات ہورہی تھی۔ زبان سمجھ میں آرہی تھی، عالجاہ غوث بخش نے کہا کہ شادیزئی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور یہ ہماری خاطر جیل میں آیا ہے اس کا خاص خیال رکھنا ہے اس کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور ہمارے لیے جو کھانا گھروں سے آتا ہے وہ شادیزئی کو دیں اور ہمارے ساتھی جیل کا کھانا کھائیں گے اس محبت بھری مجلس کی گفتگو سن رہا تھا جب اُن کی مجلس ختم ہوگئی، غوث بخش عالجاہ کے قریب گیا اور اُن سے کہا کہ آپ کا شکریہ۔ میں مہمان نہیں ہوں آپ کی طرح کا ایک قیدی ہوں، آپ پر ظلم ہوا تھا اس کے خلاف احتجاج کیا، ایک سچ بات کہی اور اس کی سزا بھگتنے کے لیے جیل آگیا ہوں۔ آپ کے ساتھ مل کر کھائوں گا، میرے لیے تکلیف نہ کریں۔ اب اپنے ان جیل کے ساتھیوں کا ذکر کروں گا جو میرے ساتھ تھے ان میں سے کئی دوست اس دنیا سے چلے گئے ہیں بس اب اُن کی یادیں رہ گئی ہیں ان دوستوں کی تاریخی جدوجہد تھی جو ایک فاشسٹ حکمراں کے خلاف تھی اور انہوں نے اس میں اپنا کردار ادا کیا اب ان تاریخی لمحات کو قلمبند کررہا ہوں تا کہ ان دوستوں کو فراموش نہ کردیا جائے۔
(جاری ہے)