حکومت کے 100دن، آسیہ کیس میں حکومت اور حزب اختلاف “ایک صفحہ” پر

رواں ہفتہ گزرتے ہی تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہونے جارہے ہیں۔ اپوزیشن ان سو دنوں کے حوالے سے ایک قرطاس ابیض شائع کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ان سو دنوں میں جو جو اہداف طے کیے گئے تھے وہ پورے ہوئے یا نہیں، اس بحث کے آغاز سے قبل یہ اہم ترین سوال ہے کہ اب سو دنوں کے بعد حکومت کیا کرے گی؟ حکومت کے پہلے سودنوں کے پروگرام کے چھے کلیدی نکات یہ تھے کہ تحریک انصاف حکومت میں آنے کے بعد طرزِ حکومت کی تبدیلی، وفاق پاکستان کے استحکام، معیشت کی بحالی، زرعی ترقی اور پانی کے تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب اور پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت کی فراہمی کے لیے کام کرے گی۔ احتساب کے لیے نیب کو مکمل خودمختاری دی جائے گی۔ ٹاسک فورس بنائی جائے گی جو بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گی۔ نیا بلدیاتی نظام لایا جائے گا۔ پولیس سیاسی مداخلت سے پاک کی جائے گی۔ فوری انصاف کے لیے جوڈیشل ریفارم پروگرام شروع کیا جائے گا۔ فاٹا کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت شروع کی جائے گی۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جائے گا۔ ملک کے تمام پسماندہ اضلاع میں غربت ختم کی جائے گی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول کی طرز پر وزیراعظم کی سربراہی میں کلی سیکورٹی آرگنائزیشن قائم کی جائے گی اور ملک میں داخلی سیکورٹی نظام نافذ کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کے بیان کردہ ان سودنوں کے چھے بنیادی اور کلیدی نکات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا جائے تو سو فی صد رعایت دیے جانے کے باوجود حکومت ہر لحاظ سے ناکام نظر آتی ہے کہ بیان کردہ نکات میں سے ایک بھی ہدف پورا نہیں کیا جاسکا۔ پہلے سو دن یوں بیان کیے جاسکتے ہیں کہ

حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تحریک انصاف حکومتی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعت معلوم ہورہی ہے۔ گڈ گورننس کہاں ہے؟ اپوزیشن کی تو بات ہی نہ کریں، خود اتحادی جماعتیں تحریک انصاف سے کس قدر مطمئن ہیں اس بات کی نشاندہی جہانگیر ترین اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے ہوچکی ہے۔ ابھی تو اتحادی جماعت قاف لیگ نے انگڑائی لی ہے، جی ڈی اے اور اختر مینگل کی جماعت بھی قاف لیگ کی طرح اپنی نذر پوری کرنے کی منتظر ہیں۔ حکومت کے پہلے سو دنوں کے لیے اہداف کیا تھے اور کتنے حاصل ہوئے ہیں، یہ بحث کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکے گی۔ امورِ خارجہ اور معیشت کے شعبوں میں کتنی بہتری لائی گئی؟ ان دونوں محاذوں پر حکومت نئے قرضوں اور آسیہ کیس کے باعث ایک سو اسّی ڈگری کے زاویے کے ساتھ جھکی ہوئی دکھائی دی۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان نے ہمیشہ خودمختاری اور قوم کو دنیا بھر میں عزت کا مقام دلانے کا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دعویٰ کیا۔ تعلیم، صحت، سماجی بہبود کے شعبے نظرانداز رہے۔ این ایف سی ایوارڈ کی کوئی خبر نہیں۔ فاٹا کا ادغام دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کراچی میں جاری ہے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں روک دیا گیا کہ کہیں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک بڑھ نہ جائے گا۔ یہ آپریشن ویسے بھی عوامی غصے کو جنم دے رہا تھا، اور عوامی غصے کی کوئی سمت نہیں ہوتی، یہ بپھر جائیں تو دھرنا بن جاتے ہیں اور حکومت کے اختیارات کی بستیاں تاراج ہوجاتی ہیں۔ حکومت کے پہلے سو دنوں کے حوالے سے تحریک انصاف کا دعویٰ جو بھی ہو، بہرحال عمران خان کا فوکس پنجاب ہی رہا ہے، جہاں آج بھی مسلم لیگ (ن) کا سیاسی کلہ قائم ہے اور نوازشریف کا بیانیہ عوام میں پسند کیا جاتا ہے۔ حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارگزاری کے بعد تحریک انصاف کے حامی سیاسی تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ قرضوں کا کشکول تھامنے کی پالیسی اور آسیہ ملعونہ کیس میں دھمکی آمیز خطاب نے پاکستان کے نظریے کے بجائے مغرب کو خوش کرنے کے لیے عمران خان کے اندر کے انسان کو عوام کے سامنے باہر لاکھڑا کیا ہے۔ عمران خان کی حکومت یہ بتانے کی ہمت نہیں رکھتی کہ آسیہ ملک کے اندر ہے یا اسے بیرون ملک بھجوا دیا گیا ہے؟ ملک میں جس ریاست مدینہ کا نظام لانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تحریک انصاف اور اس کی قیادت میں تو اس ریاست مدینہ کی گرد تک پہنچنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پہلے سودنوں میں ملک کے صرف دو شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکی، ایک سینیٹر اعظم سواتی اور دوسری آسیہ بی بی۔ حکومت کا یہ طرزعمل تقاضا کرتا ہے کہ وہ ریاست مدینہ کا ماڈل لانے کے دعوے سے خود ہی دستبردار ہوجائے۔
یہ سو دن اصل میں جہاں حکومت کا امتحان تھے وہیں اپوزیشن کا بھی امتحان ثابت ہوئے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن بھی حکومت کے فیڈر میں دودھ پیتی رہی، آسیہ کیس میں حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر تھیں، وزارتِ مذہبی امور میں تحفظِ ناموس رسالت سیل بند ہوا، اس کے ملازمین فارغ کردیے گئے، مگر اپوزیشن پوری طرح حکومت کے ساتھ کھڑی رہی۔ اب حکومت اور اپوزیشن مل کر نیا احتساب قانون لارہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) قرطاس ابیض لانے کی تیاری کررہی ہے۔ وہ یہ کام کرنے کے بجائے نیب کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں عدلیہ کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کرکے صاف کرے تو بہتر ہوگا۔
پہلے سو دنوں میں تو کم از کم یہی محسوس ہوا کہ حکومت میں اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ ذمے داری صرف فواد چودھری کے کاندھوں پر لاد دی گئی ہے۔ اسی لیے وہی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے جملوں میں بڑی کاٹ ہے، مگر ہو یہ رہا ہے کہ وہ اتنی قوت سے اپنے سیاسی حریفوں پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ کھلبلی اُن کی اپنی صفوں میں مچ جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے کہا کہ فسادیوں کو خلا میں بھیج دینا چاہیے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ نے بڑا بلیغ طنز کیا ہے کہ تب تو حکمران بینچوں پر ایک شخص بھی نظر نہیں آئے گا۔ چند روز پہلے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے دو ارکان گتھم گتھا ہوئے، یہ محض دو ارکان کی دھینگا مشتی نہیں تھی بلکہ ماضیِ قریب کے اتحادیوں کا غیر ضروری دنگل تھا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے خاموش اتحاد نے مل کر بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت گرائی تھی اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے صادق سنجرانی کا انتخاب کیا تھا۔ ماضی کے اتحادیوں میں تصادم نیک شگون نہیں ہے، یہ منظر ارکانِ اسمبلی پر پارٹی قیادت کی کمزور گرفت کی نشان دہی کرتا ہے۔ تحریک انصاف جس طرح ’اناالحق‘ کا نعرہ لگا رہی ہے یہ خود جلد پریشان دکھائی دے گی۔ حکومت کا یہ طرزعمل بکھری ہوئی اپوزیشن کو کُل جماعتی کانفرنس کے لیے سازگار ماحول فراہم کرکے رہے گا۔ ابھی حال ہی میں چودھری پرویزالٰہی ویڈیو لیکس نے اندر کا سارا ماحول کھول کر رکھ دیا ہے۔ لگتا ہے کھیل وقت سے پہلے شروع ہوگیا ہے۔ اصول یہی ہے کہ ایک میان میں تین نہیں ایک تلوار ہی رکھی جاسکتی ہے۔ پنجاب تحریک انصاف کے لیے بہت سخت امتحان والا میدان ہے، جس میں اب اختیارات کی جنگ بہت کچھ بھسم کرسکتی ہے۔ اگرچہ وضاحتوں کے بعد بات دب چکی ہے، تاہم گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے مابین اختیارات کی جنگ مزید تیز ہونے جارہی ہے۔
پنجاب کے بعد دوسرا محاذ بلوچستان ہے، جہاں اب کسی نئے وزیراعلیٰ کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال سے جو امیدیں باندھی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ عمران خان اس گمان میں ہیں کہ حالیہ مینڈیٹ انہیں بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کی صورت میں ملا، جب کہ حقائق یہ ہیں کہ انہیں سیاست کے بہت سارے ذائقے چکھنے والے الیکٹ ایبلز عنایت کیے گئے ہیں۔ یہ کسی بھی جمہوری عمل کے غیر پسندیدہ عناصر ہیں۔ اخلاقی اور سیاسی طور پر مفلس، مگر دولت سے مالامال ہیں۔ عمران خان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ وہ عوام کے اندر اسی وقت تک مقبول رہیں گے جب تک وہ ماضی کے حکمرانوں کی ایک بھیانک تصویر کھینچتے اور یہ راگ الاپتے رہیں گے کہ اُنہیں خزانہ خالی ملا ہے اور معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ملی ہے۔ وہ ماضی کا ماتم ملک کے اندر کرتے رہتے تو شاید قابلِ برداشت رہتا، مگر اُنہوں نے یہ رام کہانی سعودی عرب میں بھی سنائی اور بعد میں چین جاکر بھی دہرائی، جہاں وہ سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اِس کانفرنس میں متعدد عالمی کمپنیوں کے سربراہان اور سرمایہ کاروں نے حصہ لیا، اور اس سے 150کے لگ بھگ مقررین نے خطاب کیا۔ وہاں وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کے امکانات واضح کرنے کا موقع ملا، مگر وہاں بھی وہ اپنے وطن کی خرابیاں گنواتے رہے۔ چین جانے سے قبل وزیراعظم نے آسیہ مسیح کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے اور عوام کے ردعمل پر جو تقریر کی اس نے بھی نقصان پہنچایا۔ اب فیصلہ یہی ہوا ہے کہ انہیں صرف لکھی ہوئی تقریر پڑھنی چاہیے۔ انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اب وہ اپوزیشن مائنڈسیٹ سے نکل کر حکومت کی ذمے داریوں کا پورا پورا احساس کرنے کا مظاہرہ کریں۔
حکومت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے مناسب اقدام اٹھا رہی ہے، لیکن حقائق یہ ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملکی معیشت کے لیے بھی بیک ڈور چینل کے ساتھ حکومت سے زیادہ کام کررہے ہیں۔ ملکی معیشت پر حکومت کی نسبت اُن کی گہری معلومات ہیں۔ وہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے ملکی معیشت کی اصل صورتِ حال مسلسل معلوم کرتے رہتے ہیں، بلکہ اخبارات میں کاروباری خبروں کا صفحہ پڑھنا اُن کا معمول ہے۔ ابھی حال ہی میں اُن کاروباری حضرات کو بھی نوٹس بھجوائے گئے جنہوں نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت اپنے اثاثے ظاہر کیے۔ ان نوٹسز کے بارے میں اطلاع ہے کہ آرمی چیف مداخلت کرنے والے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایمنسٹی اسکیم کو تو سپریم کورٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔
حکومت کی سو روز کی کارکردگی اور ملکی معیشت کی زبوں حالی، اور حکومت کے بطور انتظامیہ کردار میں کمزوریوں کے باعث ایک نئی آئینی اور سیاسی بحث بھی چھڑنے والی ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تجربے کے نتائج دیکھ چکے ہیں، لہٰذا ملک میں اب صدارتی نظام لانے کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ اس سوچ کو تقویت اس لیے بھی مل رہی ہے کہ وفاق صوبوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، اور فاٹا کے لیے کے پی کے اور سندھ دونوں صوبے اپنا حصہ کم کرکے فاٹا کو دینے پر رضامند نہیں ہورہے۔ یوں این ایف سی ایوارڈ مزید تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ختم کی جائے، جس کے بعد ملک میں صدارتی نظام لانے کی ایک نئی بحث شروع کی جاسکتی ہے۔ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ ملک کا پارلیمانی نظام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی کمزوریوں کے باعث ملک میں بہتر نتائج نہیں دے رہا۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخری بار اسے آزمانے کی کوشش کی گئی اور عمران خان اقتدار میں آئے، لیکن ان کی کارکردگی ماضی میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی مضبوط گرفت اور تحریک انصاف کی اپنی نااہلی کے باعث اپنا جوہر نہیں دکھا رہی۔
اب حال ہی میں پارلیمنٹ میں 30 رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو انتخابی عمل میں دھاندلی کی مختلف شکلوں پر بحث کرے گی اور انتخابی عمل شفاف بنانے کی تجاویز مرتب کرے گی۔ گزشتہ حکومت کے دوران میں ایک ایسی ہی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے کُل 86 اجلاس ہوئے، اور ہر اجلاس پر تقریباً بیس لاکھ اخراجات اٹھے۔ اس کمیٹی کی سفارش پر الیکشن کمیشن میں اصلاحات ہوئیں، انتخابی قوانین تبدیل ہوئے، انتخابی امیدواروں کی اہلیت کے لیے نئے سرے سے معیار مقرر کیے گئے۔ انتخابات کو ہر لحاظ سے مداخلت سے پاک کرنے کے اقدامات کے باوجود پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل شفاف بنانے کی ضرورت ہے، اور اسی کے مطالبے پر ایک بار پھر پارلیمنٹ کی تیس رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس کا پہلا اجلاس ہوچکا ہے اور اب کمیٹی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز طے کرے گی۔ وزیر دفاع پرویز خٹک اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان شامل ہیں۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے۔ یہ کمیٹی کس طرح کی سفارشات لائے گی یہ تو معلوم نہیں، تاہم خیال یہی ہے کہ اسی کی پسلی سے ملک میں صدارتی نظام لائے جانے کی آوازیں جنم لیں گی۔
اب آخر میں اہم بات کہ حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف 3 روزہ دھرنے کے دوران مبینہ طور پر تشدد میں شامل تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 19 مقامی رہنمائوں کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے احکامات واپس لے لیے ہیں۔ آسیہ مسیح کا معاملہ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھا کہ توہینِ رسالت کا ایک اور مقدمہ عدالتِ عظمیٰ کے روبرو پیش ہونے والا ہے۔ یہ مقدمہ انور کینتھ کا ہے۔ ملزم انور کینتھ 1977ء میں اٹامک انرجی میں بطور سائنٹفک اسسٹنٹ بھرتی ہوا اور 1978ء میں فشریز ڈپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ کام شروع کیا۔ اس نے 1999ء میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز ڈپارٹمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا، ایڈووکیٹ غلام مصطفی کے مطابق نوکری چھوڑنے کے بعد ملزم نے مختلف مذاہب پر تحقیق شروع کردی،2001ء میں ملزم انور کینتھ کے خلاف تھانہ گوالمنڈی لاہور میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا، یہ مقدمہ ایس ایچ او نصراللہ خان نیازی کی مدعیت میں درج ہوا تھا، ملزم نے ایس ایچ اوگوالمنڈی کو توہین رسالت پر مبنی ایک خط لکھا جس کی بنیاد پر 14ستمبر 2001ء کو مقدمہ درج کیا گیا اور 25 ستمبر2001ء کو پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا۔ ٹرائل کورٹ میں دو علمائے دین نے ملزم کے خلاف گواہی دی، ملزم نے اعترافِ جرم بھی کیا جس پر اسے سزائے موت کے ساتھ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ ہائی کورٹ نے بھی 30 جون 2014ء کو ملزم کی سزا برقرار رکھی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملزم انور کینتھ نے سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔