شورش کاشمیری
سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انسان کو جو افتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمائیے جس ذاتِ اقدس کی تعریف و ثنا خود رب ذوالجلال نے کی ہو، کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو، فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں، اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مخلتف گوشوں میں زندہ جاوید ہوگئے ہوں، اس رحمۃ للعالمینؐ کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے، اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہے، یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے، جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی! جن لوگوں نے، اور ان کی تعداد لامحدود ہے، جس جس واسطے سے سردارِ انبیاؐ کے دربار میں حاضری دی ہے، وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے دل و دماغ یا روح و نظر کا نذرانہ پیش کرتے وقت اس دربار کی رونق میں کوئی اضافہ کیا ہے۔ اس نہج پر سوچنا بھی سوء ادب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظہورِ قدسیؐ سے لے کر آج تک بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے والا ہر شخص اپنے ہی مقام و مرتبے کی تعمیر و تشکیل کرتا رہا ہے۔
کتنے انسان اس ایک خیرالبشرؐ کی بدولت کیا سے کیا ہوگئے! پھر یہ سلسلہ چودہ سو برس سے رُکا نہیں، جاری ہے۔ آندھیاں آتی رہیں، طوفان اُٹھتے رہے، سیلاب موجزن ہوئے، بادلوں نے گرجنا شروع کیا، بجلیاں کوندتی رہیں، صرصر نے صبا کو روکا، خزاں نے بہار کا نشیمن لوٹا، پھول بادِ سموم کا لقمہ ہوگئے، لیل و نہار کی گردشیں رُک گئیں، زمانہ ٹھیرتا رہا، صبح کا چہرہ بارہا اُداس ہوا، شام لہولہان ہوگئی، رات کے دل میں خنجر ترازو ہوئے، تاریخ نے پلٹے کھائے، سلطنتیں بن بن کر بگڑیں، حکومتیں تہس نہس ہوگئیں، عروج و زوال کے سینکڑوں نقشے سامنے آئے، تخت و تاج اُچھلتے رہے، انقلاب کا سیل بہتا رہا، سورج نے طلوع و غروب کی ہزاروں پستیاں اور بلندیاں دیکھیں، لیکن سرورِ کائناتؐ سے نوعِ انسانی کی حلقہ بگوشی کا سلسلہ منقطع نہ ہوا۔ تاریخ اُٹھائیے اور ورق پہ ورق پلٹیے، معلوم ہوگا کہ ایک ذات نے چودہ صدیوں میں کروڑوں انسانوں کو نشوونما دی، بالا و بلند کیا، دوام بخشا، اور صرف ایک نسبت کی بدولت قیامت تک زندہ کرڈالا۔ پھر یہ محض عقیدت کی بات نہیں، ارادت کا تذکرہ نہیں، اخلاص کا افسانہ نہیں، شوق کی دھن نہیں، عشق کا راگ نہیں، حسن کی ثنا نہیں، تعریف کا لہجہ یا ثنا کا زمزمہ نہیں… ہر ایک بات نپی تلی، صاف ستھری اور بولتی چالتی شہادت کے ساتھ موجود ہے!
اس وقت کرۂ ارضی پر مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو ازروئے قرآن تمام انبیاء و مرسلین پر عقیدہ و ایمان رکھتی ہے۔ وہ مختلف قوموں کے اُن پیغمبروں کی بھی تصدیق کرتی ہے جن کے بارے میں ان کی پیروکار قومیں صرف قیاسی تذکروں اور ظنی روایتوں پر یقین رکھتی ہیں، جن کی مقدس کتابیں خود ان کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور جن کی اصلیتوں میں حک و اضافہ ہوا ہے۔ جن کے مذاہب زمانہ قبل از تاریخ کی نذر ہوگئے۔ لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام واحد دین ہے جس نے تاریخ کی بھی حفاظت کی ہے اور جس کی ایک ایک ادا تاریخ نے محفوظ کررکھی ہے۔ کوئی دین اور کوئی پیغمبر تاریخ کی شاہراہ سے اس طرح نہیں گزرا جس طرح ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم گزرے ہیں۔ تاریخ نے ان کی رکاب تھامی اور علم نے ان کے قدم چومے ہیں۔ یہ محض دعویٰ نہیں، حقیقت ہے۔ ختم المرسلینؐ اور خاتم النبیینؐ کی سیرتِ اقدس کا اقتضا یہی تھا کہ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف، ایک ایک شوشہ، ایک ایک نقطہ محفوظ ہوجاتا… اور یہ سب کچھ محفوظ ہوگیا۔ پھر یہ التزام ان کے بارے ہی میں نہیں، بلکہ جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا، جو ان کے ساتھ رہے مثلاً ان کے ساتھی، ان کے اہلِ بیت، ان کی بیویاں اور ہماری مائیں، ان کے جانثار، ان کے خادم اور ہمارے مخدوم، حتیٰ کہ ان کے دشمن بھی اپنی تمام کارگزاریوں کے باعث تاریخ کے تذکروں میں موجود ہیں۔ پھر یہ قافلہ آج تک چل رہا ہے۔ اس قافلے میں جلیل المرتبت صحابہؓ بھی ہیں کہ تاریخ ان کے پائوں کو بوسہ دے کر نکلتی ہے۔ تابعین بھی ہیں کہ تذکرے ان کی روایتوں سے جگمگاتے ہیں۔ تبع تابعین بھی ہیں کہ عقل ان سے عشق کی بھیک مانگتی ہے۔ ائمہ بھی ہیں کہ شہادت ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ فقیہ بھی ہیں کہ آستانۂ رسالت پر کشکول لے کر کھڑے ہیں… محدث بھی ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ہونٹوں کی صدائیں چنتے ہیں۔ عالم بھی ہیں کہ نقوشِ قدم کے تعاقب میں چلے جاتے ہیں۔ مشائخ کی بھیڑ ہے، اہل اللہ کا ہجوم ہے، صوفیوں کی جماعت ہے، زاہدوں کی ڈار ہے، عابدوں کا حلقہ ہے۔ پھر اسی پر اکتفا نہ کیجیے، بڑھتے چلیے… فاتحین کا لائو لشکر ہے، جانبازوں کی فوجِ ظفر موج ہے، سپہ سالاروں کا انبوہ ہے، شہنشاہوں کا غول ہے… کیسے کیسے لوگ خانہ زادوں میں ہیں اور کس کس عجز سے جھکتے چلے جاتے ہیں۔ زبانوں میں تاثیر ہے تو اس نام سے، قلم میں ولولہ ہے تو اس ذکر سے، زبان میں بانکپن ہے تو اس خیال سے، دل میں سرور ہے تو اس تصور سے، دماغ میں حسن ہے تو اس جمال سے، آنکھوں میں نور ہے تو اس ظہور سے۔
یہ آج کی دنیا… جو سائنس کی بدولت کہاں سے کہاں نکل گئی ہے اور تمام ملکوں کی زمین سمٹ کر ایک ذہنی وفاق بن گئی ہے… بزعم خویش ترقی کی اس منزل میں ہے کہ فکر و نظر کے معیار ہی بدل گئے ہیں۔ لیکن بڑا انسان بننے کے لیے جن عالم گیر سچائیوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ علم و فلسفہ کی تمام منزلیں قطع کرنے کے باوجود ابھی پرانی ہیں اور اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ یہ کائنات پرانی ہے۔ ہمارے زمانے کے عظیم ترین مغربی مؤرخ فلپ حتی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ’’تمام دنیا کی مائیں ہر روز جتنے بچے پیدا کرتی ہیں اُن میں ایک بہت بڑی تعداد اُن بچوں کی ہوتی ہے جن کے والدین ان کا نام پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام پر رکھتے، اور اس اٹکائو سے رکھتے ہیں کہ اس میں حلقہ بگوشی کا ناز پایا جاتا ہے، یا پھر یہ نام اس عالیشان پیغمبر کے ان اعزہ و اقربا کے نام پر ہوتے ہیں جو ان کے پیروکار تھے اور ان کی بدولت مختلف رشتوں کے باعث زندہ جاوید ہوگئے۔‘‘ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی پیغمبر کو یہ خصوصیت حاصل نہیں، اور نہ کوئی امت کرۂ ارضی پر ایسی موجود ہے جو اپنے پیغمبر اور ان کی آل پر شب و روز کے ہر حصے میں تواتر و تسلسل کے ساتھ درود و سلام بھیجتی ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس کج مج بیان کی گنہگار زبان سے اس آستانۂ حسن و جمال پر ایک فقیرانہ صدا ہے۔ عجب نہیں یہی توشۂ آخرت ہو ؎
سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا اَجْمَلَکَ مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکْمَلَکَ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
(بشکریہ ریڈیو پاکستان، ہفت روزہ چٹان۔ 25اگست 1966ء)