نام کتاب: خطبۂ حجۃ الوداع
حقوقِ انسانی کا عالمی منشور
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد
سابق رئیس کلیہ فنون و صدر شعبہ اسلامی تاریخ ، جامعہ کراچی
صفحات : 256 قیمت 300روپے
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف سیرت اسٹڈیز۔ بیت الحکمت، لاہور
ڈسٹری بیوٹرز: کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمد مارکیٹ
غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور 042-3720318
فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار، کراچی 021-32212991
پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد حفظہ اللہ کی یہ عظیم الشان تحقیق سیرت النبویؐ کے ایک مقدس گوشے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ کتاب میں سات ضمیمے بھی دیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’نبیٔ رحمت، رسولِ اعظم، ہادیٔ عالم، پیغمبرِ انسانیت، تاجدارِ عرب، حضور سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ التسلیمات نے (اپنے پہلے اور آخری) حج کے موقع پر جبلِ رحمت (مکۃ المکرمہ) کے دامن میں وقوفِ عرفات فرماتے ہوئے سوا، ڈیڑھ لاکھ انسانوں کے عظیم الشان مجمع کے سامنے 9ذی الحجہ 10ھ/ 7مارچ 632ء کو جو خطبۂ مبارکہ ارشاد فرمایا تھا (یعنی خطبۂ حجۃ الوداع) اور جسے وہاں موجود ہر متنفس نے اس تاکید و تلقین کے ساتھ سنا تھا کہ خطبہ کا مضمون اور اس کا بیان ہر ایک دوسرے تک بھی پہنچائے۔ وہ خطبۂ جلیلہ اپنی نوعیت و حیثیت میں نہ صرف یہ کہ کارہائے نبوت و رسالت کے مرحلۂ اختتام اور تکمیلِ دین اسلام کا اعلان، امام الانبیاء کا الوداعی خطاب، سید الرسل کے آخری وصایا اور نجات دہندۂ انسانیت کا آخری جامع پیغام تھا، بلکہ اپنی حقیقت و اصلیت میں انسانی تاریخ کے پہلے ’’عالمی انسانی منشور‘‘ کا اجراء تھا جو اُسی وقت نافذالعمل ہوگیا اور دنیا کو فوز و فلاح اور حیات و نجات عطا کرگیا۔
تہذیب و تمدن، شرفِ آدمیت و انسانیت، قانون کی حکمرانی اور آزادی کا اجالا اُس وقت وہیں عرب میں تھا۔ یورپ اُس وقت سورہا تھا، تہذیبِ مغرب کی آنکھ نہ کھلی تھی، امریکہ معدوم تھا، افریقہ کا زیادہ حصہ اندھیرے میں تھا، مشرق میں سیاست کا غبار اور شعور کی چنگاریاں اُڑ رہی تھیں، لیکن انسانیت ہر جگہ مظلوم، ہر جگہ ذلیل و خوار اور سرنگوں تھی۔ آج شہرت پانے والے منشور ہائے انسانی اور اعلاناتِ آزادی، منشورِ نبوت کے صدیوں بعد وجود میں آئے۔ انگلستان کا منشوراعظم میگنا کارٹا 583سال بعد جاری ہوا، فرانس میں حقوقِ باشندگان کا اعلان 1157سال بعد ہوا، امریکہ میں نوشتۂ حقوق کا پرچم 1159سال بعد بلند ہوا، اور اقوامِ متحدہ کا عالمی منشور حقوقِ انسانی 1316سال بعد سندِ اعتبار سے سرفراز ہوا۔
زیرِ نظر کتاب محسن انسانیت علیہ الصلوٰۃ والتحیۃ کے اُسی خطبۂ حجۃ الوداع کے مکمل متن، ترجمہ، توضیحات اور دوسرے متعلقات (مآخذ، موقع و محل، نوعیت، منظر و پس منظر، اثرات وغیرہ) کے مفصل مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس میں یہ عاجزانہ کوشش بھی غالباً پہلی مرتبہ کی گئی ہے کہ خطبہ ٔ جلیلہ کو عالمی انسانی منشورکی حیثیت سے (باقاعدہ دفعات کے تعین اور دیباچہ و اختتامیہ کے ساتھ) پیش کیا جائے۔ (اس حیثیت سے خطبۂ حجۃ الوداع کا تعارف مشہور مسلمان محقق و عالم ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم و مغفور 1950ء میں، اور دوسرے علماء و فضلاء وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے۔ لیکن یہ کام ابھی باقی تھا۔)
ان تمام پہلوئوں کا احاطہ خاکسار نے ایک مفصل مقالہ کی صورت میں کیا تھا، جو ایک عرصے کی تعویق کے بعد ششماہی مجلہ ’’السیرۃ عالمی‘‘ کے نائب مدیر جناب عزیز الرحمن کی خواہش پر ’’السیرۃ عالمی‘‘ کے تین شماروں (شمارہ 9 ربیع الاول 1424ھ ؍ مئی2003ء، شمارہ 10رمضان المبارک 1424ھ؍ اکتوبر 2003ء، اور شمارہ 11ربیع الاول 1425ھ ؍ اپریل 2004ء) میں شائع ہوا۔ علمی حلقوں میں اسے بفضلہٖ تعالیٰ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، جبکہ قدردان احباب و اصحاب نے مفید مشوروں سے بھی نوازا اور اصرار بھی کیا کہ اسے کتابی شکل میں ضرور شائع کیا جائے۔ یہ فلیبلغ الشاہد الغائب کا تقاضا بھی تھا۔ چنانچہ عزیزم عزیزالرحمن صاحب کی ہی وساطت سے اس کا اہتمام ہوا۔ علم دوست اور معارف پرور، پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب (ڈائریکٹر بیت الحکمت، لاہور) اپنی مساعی جمیلہ سے اسے منصۂ شہود پر لارہے ہیں اور پیغامِ رحمۃ للعالمین کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیتے ہوئے اسے زیورِ طبع سے آراستہ کررہے ہیں۔ راقم الحروف ذاتی طور پر اس عنایت کے لیے موصوف کا تہ دل سے شکر گزار ہے۔ وہ حضرت مولانا حکیم سید محمود احمد صاحب برکاتی کا بھی ممنونِ کرم ہے کہ آنجناب نے اس کا بالاستیعاب مطالعہ فرما کر اپنی قیمتی رائے سے مشرف فرمایا۔‘‘
حضرت مولانا حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید (ڈاکٹر آف سائنس فاضل الطب والجراحت) نے اپنی تقریظ میں لکھا تھا:
’’جناب ڈاکٹر نثار احمد صاحب (سابق صدر شعبہ اسلامی تاریخ و رئیس کلیۂ فنون، جامعہ کراچی) کا مقالۂ غرّا، جو اَب کتابی شکل میں منظرعام پر آرہا ہے، میں نے شوق اور توجہ سے پڑھا، اور پڑھ کر متاثر اور مستفید ہوا۔ حضرت حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبۂ حجۃ الوداع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وصایا و احکام پر مشتمل ہے اور بجا طور پر تاریخ انسانیت میں پہلا اور آج تک آخری اور مکمل عالمی انسانی منشور ہے، اور خود سرکار والاصلی اللہ علیہ وسلمنے اس کی تبلیغ کی وصیت فرمائی ہے، اور اس کے معاً بعد بلکہ بعض روایات کے مطابق اسی روز آیۂ کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم …(6:3) نازل ہوئی جو تکمیل دین کا اعلان ہے، مگر حیرت ہے کہ بقول مولانا سید سلیمان ندویؒ کسی حدیث میں یکجا نہیں ہے، اور مکمل خطبہ جو تقریباً 47دفعات پر مشتمل ہے صحیح البخاری میں اس کے صرف سات جملے ملتے ہیں، اسی طرح دوسری کتبِ حدیث و سیرت میں متفرق طور پر خطبے کے اجزاء ملتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے تمام مآخذ کا غائر مطالعہ فرما کر اس کا مکمل متن جمع و ترتیب دیا ہے، ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کا حق اَدا کیا ہے اور مآخذ سے استفادہ کرکے مکمل حوالوں کے اہتمام کے ساتھ یہ مقالہ تحریر فرمایا ہے۔ میری نظر سے آج تک اس اہم خطبے کا اتنا مکمل اور مستند متن نہیں گزرا۔
اس کا باب اوّل بھی وزنی، وقیع اور معلومات افزا ہے۔ اس میں انھوں نے اردو اور عربی میں سیرت اور متعلقاتِ سیرت کی اہم کتابوں کا جائزہ لیا ہے اور خطے کے سلسلے میں ان کی ایک ایک کمی اور کوتاہی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اردو میں تو ادبیاتِ سیرت کی ہر قابلِ ذکر کتاب ڈاکٹر صاحب نے ملاحظہ فرمائی ہے اور اس پر تبصرہ کیا ہے۔ عربی کی کتابوں میں صحاح ستہ، سنن و مسانید، شمائل و سیر و مغازی، رجال و تاریخ کی 48کتابوں سے لوازمہ اخذ کیا ہے، ایک باب میں سفر (نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بغرضِ حجۃ الوداع) کے مقامات و منازل پر گفتگو کی ہے اور بیانات کے اختلافات پر ایک نظر ڈال کر ایک جدول ترتیب دیا ہے۔ اندازِ تحریر عالمانہ اور محققانہ ہے، ساتھ ہی زبان و بیان کی شفتگی بھی دامن کش توجہ ہے۔
میری نظر میں خطبۂ حجۃ الوداع پر مشتمل یہ کتاب اردو کی ادبیاتِ سیرت میں ایک اہم اضافہ ہے، خوش نصیب ہیں وہ اصحابِ علم و اہلِ قلم جنہیں جانِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے کسی ایک گوشے پر بھی عطف توجہ اور صرفِ وقت کی توفیق و سعادت ارزانی ہوئی ہو۔‘‘
حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید جیسے بلند پایہ عالم دین اور فلسفی کا یہ فرمانا بہت ہی اہم ہے ’’میں نے شوق اور توجہ سے پڑھا اور پڑھ کر متاثر اور مستفید ہوا‘‘ کیونکہ حکیم صاحب تعریف کرنے میں بہت ہی محتاط تھے جس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ کتاب کے عنوانات درج ذیل ہیں:
باب اوّل۔ خطبۂ حجۃ الوداع۔ مطالعات و مآخذپر ایک نظر
مبادیات،ابتدائی مطالعات،قیام پاکستان کے بعد ،مآخذ پر ایک نظر ،اسناد ، حوالے، حواشی،ضمیمہ1:فہرست مآخذ ضمیمہ2 : فہرست رواۃ
باب دوم۔ موقع محل، نوعیت، منظر و پس منظر
ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمگیر مشن ،موقع محل، منظر و پیش منظر،سفرِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم برائے حجۃ الوداع،اسناد، حوالے، حواشی ،ضمیمہ3: سفر حجۃ الوداع، راستہ اور منزلیں اسناد، حوالے، حواشی
باب سوم۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی نوعیت و ماہیت
ابلاغِ حق کا نقطۂ کمال،تعمیر حیات کا عملی خاکہ ،بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور،انسانیت کے نام آخری پیغام ،زبانِ رسالت کی اعجاز آفرینی کا نادر نمونہ ،اسناد، حوالے، حواشی
ضمیمہ 4: عالمی منشور حقوقِ انسانی ،ضمیمہ5: میگنا کارٹا، منشور اعظم، انگلستان،ضمیمہ6: اعلانِ حقوقِ انسانی و باشندگانِ فرانس 1789ء،ضمیمہ7: نوشتۂ حقوق امریکہ 1791ء
باب چہارم۔ خطبۂ حجۃ الوداع، عالمی انسانی منشور
عربی متن خطبہ ،حصہ الف (دیباچہ)،حصہ ب (اساسیات)
حصہ ج (اجتماعیات)،حصہ د (دینیات، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات)،حصہ ر (اختتامیہ)،عربی متن کا اردو ترجمہ ،اسناد، حوالے، حواشی
باب پنجم۔ توضیحات
شانِ خطبہ و خطیب عالم ،عالم انسانیت کے لیے فلاح کی راہ اجتماعی زندگی کی انسانی بنیادیں ،تکمیلِ دین ِانسانیت اساسیات ِدین ِاسلامی ،عدلِ اجتماعی کے محرکات،حقوقِ انسانی کا عالمی منشور،حواشی ،حاصلِ مطالعہ ،اسناد، حوالے، حواشی
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’حجۃ الوداع کا واقعہ تاریخ کی رو سے کوئی چودہ سو برس پہلے ذی الحجہ 10ھ/ مارچ 632ء میں اُس وقت پیش آیا جبکہ سید الانبیائو المرسلین، محبوب ِرب العالمین، حضور رحمۃ للعالمین ، علیہ التحیۃ الی یوم الدین، اتمامِ دعوتِ حق اور اِکمال تبلیغِ دین کی منزل پر مکہ معظمہ میں جلوہ افروز ہوئے اور اپنا پہلا اور آخری حج ادا فرمایا ،جسے حجۃ الوداع، حجۃ البلاغ، حجۃ الاسلام اور حجۃ التمام بھی کہتے ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف یہ کہ اسلامی تاریخ و سیرت کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، بلکہ تاریخِ عالم کے حوالے سے بھی اس کا شمار اُن نمایاں ترین واقعات میں کرنا چاہیے جن کا بعد کی عالمی تاریخ پر بہت گہرا اثر پڑا۔
حجۃ الوداع کا واقعہ بجائے خود متعدد واقعات کا مجموعہ ہے اور اس کا ہر واقعہ، اور ہر واقعے کا ہر جز علمی اور عملی دونوں اعتبار سے اہم اور قابلِ ذکر ہے۔ (مثلاً حجۃ الوداع کے لیے اعلان عام، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی 25 ذی قعدہ 10ھ؍ 22 فروری 632ء بروز ہفتہ، سنیچر؍ یوم السبت کو مدینہ طیبہ سے روانگی، ایک ہفتے سے زائد تقریباً 9دن کا مقدس سفر، راستہ، منزلیں، مکہ معظمہ میں ورود اور پھر مناسکِ حج کی تعلیم و اَدائیگی کے دوران عرفات و منیٰ کے خطبات وغیرہ)۔ تاہم حجۃ الوداع کے پورے واقعے میں ہمارے نزدیک اس کا نقطۂ کمال وہ ’’خطبۂ عظیم‘‘ ہے جسے اس حج کے دوران وادیٔ عرفات میں جمعہ 9 ذی الحجہ 10ھ؍ 7مارچ 632ء کو ہادیٔ اعظم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں ارشاد فرمایا۔
مجملاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ خطبۂ حجۃ الوداع نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر مبلغانہ مساعی کا ماحصل، مسلمانوں کے لیے آخری پیغمبرانہ وصیت اور تکمیلِ دین کا اعلانِ عام تھا، بلکہ عصرِ حاضر کے حوالے سے در اصل یہی خطبہ عالمی انسانی منشور کی حیثیت بھی رکھتا ہے جس کے ذریعے چار دانگ عالم کو امن و عافیت، تہذیب و معاشرت، صلح و آشتی کے ساتھ ساتھ حقوقِ آدمیت و انسانیت سے بھی سرفراز کیا گیا۔‘‘
کتاب نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔