نعتیہ شاعری کے فروغ میں ’نعت رنگ ‘کی خدمات

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب کا نام:نعتیہ شاعری کے فروغ میں نعت رنگ کی خدمات
مقالہ نگار: حلیمہ سعدیہ منگلوری
ناشر: نعت ریسرچ سینٹر کراچی
صفحات: 368، قیمت: 500روپے
رابطہ: بی۔306، بلاک 14، گلستان جوہر، کراچی
فون نمبر:2332-2668266
ای میل: sabeehrehmani@gmail.com
بیسویں صدی کے آخری ربع کو نعت کے تخلیقی امکانات کا عہد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس عہد میں نہ صرف تخلیقی امکانات کو فروغ حاصل ہوا بلکہ نعت کے تنقیدی رجحان اور مطالعاتی منہج نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا ہے۔ خصوصاً نعت کی فنی و فکری پرکھ کے لیے برسوں سے مروّج تنقیدی اصولوں کی جگہ نئے تنقیدی نظریات کے تناظر میں مطالعۂ نعت کی ضرورت واہمیت کا احساس اجاگر ہوا ہے۔
نعت کے فروغ و ارتقا اور نعت کے اظہار و ابلاغ کے ضمن میں اُن رسائل و جرائد کے کردار سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا جنھوںنے اپنی اشاعتی سرگرمیوں کو نعت کے فروغ اور ارتقا کے لیے مخصوص کیا، اور نعت نگاروں کے ساتھ ساتھ نعت پر تاریخی اور تحقیقی کام کرنے والے اصحابِ تحقیق سے بھی اہلِ ادب کو روشناس کرایا۔ اس حوالے سے کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘‘ کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔
گزشتہ دو عشروں سے’’نعت رنگ‘‘، نعت کے ادبی فروغ کے لیے ہمہ جہت خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ نعت رنگ کی تحریک کے نتیجے میں صنفِ نعت کی تنقید و تحقیق اور تدوین و تخلیق کے حوالے سے جو وقیع کام ہوا ہے وہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں عقیدت نگاری کے باب میں اب تک کی جانے والی متفرق کوششوں کو ایک واضح اور منفرد جہت عطا کرتا ہے۔
’’نعت رنگ‘‘ ہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ نعت کو نہ صرف ایک باقاعدہ صنفِ سخن تسلیم کیا گیا بلکہ اہلِ علم و دانش نے اس کا اعتراف بھی کیا۔ 19اکتوبر 2014ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیراہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار نعت پر بطور صنفِ سخن ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’’اردو زبان اور نعتیہ ادب‘‘ تھا۔ جب کہ 17جنوری 2015ء کو انجمن ترقی اردو، کراچی نے پہلی مرتبہ ایک مذاکرہ بعنوان ’’صنفِ نعت، ادبی اور ثقافتی ورثہ‘‘ منعقد کیا۔
مدیر نعت رنگ سید صبیح الدین صبیح رحمانی رقم طراز ہیں:
’’نعت رنگ میں تنقیدی مباحثوں اور مکالموں کے روشن ہونے سے آدابِ نعت گوئی کے باب میں شعرا کا احساسِ ذمے داری بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے میں جو اندیشے مانع تھے وہ دور ہوئے ہیں اور علمی، لسانی، عروضی اور تنقیدی زاویوں سے بے لاگ گفتگوکی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس سے ادبی سطح پر نعت کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ نعت کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کرنے والے حلقوں میں بھی اس کو بطورِ صنفِ سخن دیکھنے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔‘‘
اس انقلاب میں بہت حد تک نہ صرف ’’نعت رنگ‘‘ کے مقالات اور ان کے مباحث، بلکہ صبیح رحمانی کی ذہانت، صلاحیت اور جدوجہد کا بھی حصہ ہے۔ اردو تنقید کے معتبر ناموں کا اس کارواں میں شامل ہونا یقیناً ’’نعت رنگ‘‘ کے سفر کو اعتبار عطا کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت رنگ کا دائرۂ عمل برصغیر پاک و ہند تک محدود نہ رہا، نعت رنگ کی اثرآفرینی نے اکنافِ عالم میں اردو کی نئی بستیوں میں بسنے والے اہلِ علم و قلم کو بھی اس تحریک سے وابستہ کردیا۔
راقم الحروف کی معلومات کے مطابق نعت کے موضوع پر ایم۔ اے، ایم۔فل اور پی ایچ۔ ڈی کی سطح کے ساٹھ سے زائد تحقیقی مقالات ہندوستان و پاکستان کی جامعات میں لکھے جاچکے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی کتب کی تعداد سات ہے، جبکہ نعت رنگ میں شائع ہونے والے لوازمے پر مشتمل کتابوں کی تعداد پندرہ سے زائد ہے۔ اب نعت رنگ کا شعری، ادبی، تخلیقی اور تنقیدی اثاثہ اس اہمیت کا حامل ہوگیا ہے کہ آئندہ صنفِ نعت پر کسی بھی کام کے لیے اسے لازمی حوالے کی حیثیت حاصل رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب نعتیہ ادب کے حوالے سے خود ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی خدمات کو مختلف جامعات میں موضوعِ تحقیق بنایا جارہا ہے۔
اس وقت ہمارے پیش ِ نظر حلیمہ سعدیہ منگلوری کا مقالہ ’’نعتیہ شاعری کے فروغ میں ’نعت رنگ‘ کی خدمات‘‘ ہے جس پر انھیں شعبۂ اردو، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ نے ایم۔ فل کی سند عطا کی ہے۔ حلیمہ سعدیہ کا یہ مقالہ چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل میں مقالہ نگار نے ادبی رسائل کی روایت و ارتقا، افادیت اور ادبی رسائل کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نعتیہ شاعری، پاکستان میں نعت کے فروغ، نعتیہ ادب میں نعت نمبروں، میلاد نگاری کی روایت، نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت، نعتیہ گل دستوں اور انتخابِ نعت کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے ’’نعت رنگ‘‘ کے اجراء کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
دوسرے، تیسرے اور چوتھے باب میں بالترتیب نعت رنگ کے اداریوں، تنقیدی اورتحقیقی مقالات کا شمارہ وار مطالعہ کیا گیا ہے۔ جب کہ پانچویں باب میں نعت رنگ میں شائع ہونے والے شخصی و تعارفی مضامین، کتابوں پر تبصرے، حمدیہ و نعتیہ کلام اور نعت رنگ کے حمد و نعت گو شعراء، وفیات، مکاتیب، شخصی خاکوں اور نعت رنگ میں شائع ہونے والے مذاکروں کا شمارہ وار مطالعہ کیا گیا ہے۔ آخری باب میں حاصلاتِ تحقیق کو بیان کیا گیا ہے۔ حلیمہ سعدیہ لکھتی ہیں:
’’نعت رنگ کے بحیثیتِ مجموعی تنقیدی، تحقیقی، تخلیقی اور دیگر شعری و ادبی معیارات اور میراث نے نعتیہ ادب کے خزانے میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ نعت رنگ نے تنقید ِ نعت کو ایک باوقار سمت عطا کی ہے۔ اس کی اشاعت سے نعت کے فن کو بطورِ خاص ایک ثروت مند اور تنقیدی تسلسل حاصل ہوا، جسے بجا طور پر ’تنقیدی دبستان‘ کہا جاسکتا ہے۔ نعتیہ مباحث پر تنقیدی و تحقیقی مضامین کے تسلسل کی سعادت نعت رنگ ہی کا مقدر ٹھیری ہے۔ نعت رنگ کے اجرا کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند میں نعتیہ تنقید نگاری کی جو فضا پیدا ہوئی اور نعت نگاری کے ماحول پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ بہت حوصلہ افزا اورلائقِ تقلید و تحسین ہیں۔‘‘
حلیمہ سعدیہ کا یہ مقالہ نعت رنگ کی ہمہ جہت خدمات کا ایک جامع مطالعہ پیش کرتا ہے۔ یہ مقالہ نعت رنگ کے 24 شماروںکا احاطہ کرتا ہے اور صنف ِ نعت اور نعتیہ ادب کے فروغ کے باب میں بجا طور پر ’’نعت رنگ‘‘ کی خدمات کا اعتراف ہے۔
مقالہ نگار حلیمہ سعدیہ کا تعلق خیبر پختون خوا کے ایک گائوں منگلور سے ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر ممتاز منگلوری جیسے اہل ِ علم و دانش کا تعلق اسی گائوں سے تھا۔ منگلور کی شرحِ خواندگی تقریباً سو فیصد ہے۔ اسی گہوارۂ علم و عرفاں سے تعلق رکھنے والی حلیمہ سعدیہ منگلوری بھی زمانۂ طالب علمی ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ 1998ء سے حلیمہ سعدیہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ 2011ء میں ترکی کی سلجوق یونیورسٹی ( قونیہ) کے شعبۂ اردو میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ایم۔ اے اردوکرنے کے بعد ہزارہ یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد سفیان صفی کی زیر نگرانی ’’نعتیہ شاعری کے فروغ میں ’ نعت رنگ‘ کی خدمات‘‘ کے موضوع پر ایم۔ فل کیا۔
بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نعت میں، نظم و نثر کی صورت میں ادبِ رسالت کے مختلف پہلوئوں پر جو سرمایۂ عظیم اردو میں جمع ہورہا ہے اس پر اسی طرح تحقیقی مقالات لکھے جاتے رہیں گے، کہ یہ ہماری ادبی و تہذیبی ضرورت بھی ہے۔