بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ کرنے پر غور

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور اس کی قابض افواج کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غم وغصے کے باوجود بھارتی حکومت 19دسمبر کو گورنر راج کی مدت پوری ہونے پر وہاں نام نہاد منتخب نمائندوں کو موقع دینے کے بجائے صدارتی راج نافذ کرنے پر غور کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جموں وکشمیر کے آئین کے مطابق گورنر راج میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مقبوضہ علاقے19جون سے براہ راست دہلی کی عملداری میں ہیں جب بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی مخلوط حکومت کی حمایت واپس لی اور علاقے میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ 19دسمبر کو گورنر راج کی 6 ماہ کی مدت پوری ہو جائے گی۔
ذرائع ابلاغ کی خبروں میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں دہلی کی عملداری کو جاری رکھنے کیلیے صدارتی راج کا نفاذ لازمی ہے۔
گورنر ستیاپال ملک نے گزشتہ ماہ صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جلد انتخابات کے حق میں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ ایوان سے مقبول عام حکومت نہیں بنائی جا سکتی، 87 رکنی اسمبلی میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں، اس میں پی ڈی پی کے 28 بی جے پی کے 25 اور نیشنل کانفرنس کے 15ارکان ہیں، صدارتی راج اسی صورت میں نافذ ہو سکتا ہے جب گورنر کی رپورٹ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ صدر سے اس کی سفارش کرے گی، اگر صدارتی راج نافذ ہو جاتا ہے تو یہ موجودہ گورنر راج میں توسیع کی طرح ہی ہوگا تاہم یہ دہلی کی براہ راست حکومت کا آغاز تصور کیا جائے گا۔

نیا دورِ حکومت اور پُرانا روس

دوسرا واقعہ کمیونزم کے دور میں روس میں اسلام پر سخت پابندیوں کے بارے میں ہے۔ مجھے واٹس ایپ پر یہ معلومات موصول ہوئی ہیں اور یہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ تقریباً30,35 سال پہلے تک یہی حال چینی ترکستان میں تھا، مساجد بند تھیں اور صرف جمعہ کو گھنٹے، دو گھنٹے کے لیے کھول دی جاتی تھیں۔ اب وہاں (اور روس میں بھی) سب کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔
روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھابلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا- 1973ء میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنادیا گیا ہے، ایک دو مساجد کو سیاحوں کی قیام گاہ بنادیا گیا ہے، صرف دو ہی مساجد اس شہر میں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلی ہوتی ہیں۔ میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتا بتادیں، میں وہیں چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے۔ پتا لے کر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس مسجد کی چابی تھی۔ میں نے اُس آدمی کو کہا کہ مسجد کا دروازہ کھول دو، مجھے نماز پڑھنی ہے۔ اُس نے کہا دروازہ تو میں کھول دوں گا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمے دار نہیں ہوں گا۔ میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اُس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا۔ میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے اذان دی۔ اذان کی آواز سن کر بوڑھے، بچے، مرد، عورت، جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی۔ لیکن مسجد کے اندر کوئی بھی نہیں آیا۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا، بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا۔ جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکے باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کوئی نیا کام متعارف کروا کر مسجد سے نکلا ہوں۔ ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چائے پینے آئیں۔ اُس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ میں اُس کے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پر سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے کھانا کھایا، چائے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں نے اُس سے پوچھا: آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے کہا: جی بالکل، قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے۔ میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسخہ نکالا اور کہا: یہ پڑھ کر سنائو۔ بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ میں نے کہا: بیٹا یہ دیکھو۔ اور میں نے قرآن کی ایک آیت پر انگلی رکھی تو وہ فرفر پڑھنے لگا بنا قرآن کو دیکھے۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا۔ میں نے اُس کے والدین سے کہا: حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے مسکرا کر کہا:”دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں، کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ٹکڑا بھی مل جائے تو پورےخاندان کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے، اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں“۔ ”تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا؟ کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں“! میں نے مزید حیران ہو کر کہا۔ ”ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار، کوئی سبزی فروش، کوئی کسان۔ ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے۔ وہ ان کو الحمدللہ سے لے کر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں، اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظِ قرآن بن جاتے ہیں، کسی کے پاس قرآن کا نسخہ ہے نہیں، اس لیے ہماری نئی نسل کو ناظرہ نہیں آتا، بلکہ اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہیں۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اس کو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکے، لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فرفر پڑھنے لگا، اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا“۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے: (ترجمہ)”بےشک یہ ذکر (قرآن) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
(ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ جنگ، 18 ستمبر 2018ء)