گذشتہ دنوں اینڈرائیڈ ڈیو کانفرنس کے دوران کمپنی نے تسلیم کیا کہ آپریٹنگ سسٹمز اور ایپس میں ڈارک موڈ کی موجودگی بیٹری لائف کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے ۔ڈارک موڈ ایسا آپشن ہے جو کہ کسی آپریٹنگ سسٹم یا ایپ کی کلر اسکیم کو بلیک سے بدل دیتا ہے۔ ایسا عرصے سے سوچا جارہا تھا کہ ڈارک موڈ ڈیوائسز خصوصاً موبائل فونز کی بیٹری لائف بہتر بناتا ہے اور اب گوگل نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔گوگل کی جانب سے جاری ایک تصویر میں بتایا گیا کہ ڈارک موڈ کا استعمال نارمل موڈ کے مقابلے میں یوٹیوب ایپ کو استعمال کرنے پر 43 فیصد کم بیٹری پاور استعمال کرتا ہے ، نارمل موڈ میں اسکرین بہت زیادہ سفیدی استعمال کرکے بیٹری جلد خرچ کرتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گوگل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے کہ اس نے ایپ ڈویلپرز میں ایپس کے لیے سفید رنگ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔اب اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم (اینڈرائیڈ پائی) اور متعدد ایپس کو ڈارک موڈ پر استعمال کرسکتے ہیں مگر متعدد ایسی اپلیکشنز بھی ہیں جن میں یہ آپشن موجود نہیں اور وہ مین کلر تھیم کے طور پر سفید رنگ کو ہی استعمال کررہی ہیں۔ڈارک موڈ سے او ایل ای ڈی ڈسپلے والے فونز میں بیٹری لائف میں اضافہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے ، جو کہ آج کل بیشتر فونز میں استعمال ہورہا ہے ۔او ایل ای ڈی ڈسپلے اس وقت اپنے پکسلز جگمگاتے نہیں جب سیاہ رنگ ڈسپلے ہورہا ہو اور بیٹری بہت کم پاور استعمال کرتی ہے ۔ڈارک موڈ کا استعمال اسمارٹ فون سے خارج ہونے والی روشنی سے آنکھوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
نمونیا سے 2030 تک ایک کروڑ سے زائد بچوں کی اموات کا خطرہ،تحقیق
پاکستان میں ہرسال 92 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہوکر انتقال کرجاتے ہیں ۔نمونیا نظام تنفس میں شدید نوعیت کا انفیکشن ہوتا ہے جس سے پھیپھڑے متاثر ہوجاتے ہیں اورسانس لینے میں شدید تکلیف اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، بالخصوص 5 سال سے کم عمر بچوں پر کپکپی ، بے ہوشی ، ہائیپو تھرمیا اورغنودگی طاری ہوجاتی ہے اور انھیں دودھ پینے میں بھی دشواری ہوتی ہے ۔نمونیا 2030 تک ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کی اموات کا باعث بن سکتا ہے خصوصاً غربت کے شکار طبقے سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہوں گے ۔سیو دی چلڈرن اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کی جاری کردہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگلے 12 برسوں میں نمونیا ایک کروڑ 8 لاکھ کے قریب بچوں کی اموات کا باعث بن سکتا ہے ۔تاہم کم از کم ایک تہائی یا 40 لاکھ کے قریب اموات کی روک تھام ممکن ہے۔
جامعہ کراچی اور چین کے تحقیقی اداروں کے درمیان وائرل امراض کی تحقیق پرمعاہدہ
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (ا?ئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی اور چین کے تحقیقی ادارے وہان انسٹی ٹیوٹ ا?ف وائرو لوجی، چائنیز اکیڈمی ا?ف سائنسز کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف ’’وائرو لوجی‘‘ بلکہ تحقیقی و تعلیمی تعاون کو مزید بڑھانا ہے ملک میں ’’وائرو لوجی‘‘ کا کوئی قومی ادارہ موجود نہیں ہے جبکہ پاکستان وائرل مرض ہیپا ٹائٹس میں دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے ۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان سائنس دانوں اور ٹیکنیشنز کا باہمی تبادلہ بھی کیا جائے گا تاکہ ماہرین کو سائنسی، تربیتی اور تحقیقی مواقع فراہم ہوسکیں، دونوں تعلیمی و تحقیقی ادارے ہر سال متعلقہ موضوعات پر مشترکہ ورکشاپ اور سیمینار کا انعقاد بھی کریں گے اس معاہدے کی مدت 5 سال ہے ۔ جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری جبکہ چینی ادارے وہان انسٹی ٹیوٹ ا?ف وائرولوجی کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر چن زنوین نے وہان انسٹی ٹیوٹ ا?ف وائرولوجی کے کیمپس میں حال ہی میں منعقدہ تقریب کے دوران اس معاہدے پر دستخط کیے۔
دبئی میں پانی کی صفائی کے لیے آبی روبوٹ کا استعمال
پوری دنیا میں آبی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جسے تلف کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جارہی ہے۔ اس ضمن میں دبئی نے اپنے پانی کے ذخائر صاف کرنے کے لیے خودکار روبوٹ استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں جو ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد مسلسل 16 گھنٹے تک پانی پر تیرتے ہوئے کچرے کو ٹھکانے لگاتے ہیں۔
اس روبوٹ کو ویسٹ شارک کا نام دیا گیا ہے جسے ہالینڈ کی رین میرین ٹیکنالوجی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ مسلسل کامیاب آزمائش کے بعد اب اسے دبئی میں استعمال کیا جائے گا۔ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد واٹرشارک روبوٹ مسلسل 16 گھنٹے تک کام کرتا رہتا ہے۔ یہ پلاسٹک کے ٹکڑے، کوڑا کرکٹ اور دیگر اقسام کا کچرا اپنے اندر جمع کرتا رہتا ہے اور اس میں 1100 پونڈ پلاسٹک اور کوڑا جمع کرنے کی گنجائش ہے۔
واٹرشارک کی اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک فٹ گہرائی میں موجود کچرے کو بھی اچک لیتا ہے۔
ویسٹ شارک خودکار انداز میں بھی آگے بڑھتا ہے اور اسے ریموٹ کنٹرول سے بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔ جی پی ایس کی مدد سے یہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور کسی بھی قسم کی رکاوٹ سے ٹکرائے بغیر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کے جانوروں یا بحری ماحول کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
اسے ایپ انسٹال کرکے اسمارٹ فون کے ذریعے بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔ ویسٹ شارک میں کئی طرح کے سینسر نصب ہیں جو پانی میں آلودگی، درجہ حرارت اور دیگر معلومات پر نظر رکھتےہیں۔