مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام دو ہستیوں کی فکر و کاوش کا مرہونِ منت ہے، ایک تو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ ، جن کی قیادت میں مسلمانانِ برصغیر کی شب و روز کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں اس مملکت نے دنیا کے نقشے پر اپنا نقش جمایا۔ جب کہ دوسری ہستی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی ہے جنہوں نے اس جدوجہد کے آغاز سے بہت پہلے اس اسلامی مملکت کا خواب دیکھا اور 1930ء میں الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنے خطبہ میں اس کا تصور پیش کیا، اور صرف تصور پیش کرکے فارغ نہیں ہوگئے بلکہ محمد علی جناح کو اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے تحریک برپا کرنے اور اس کی قیادت سنبھالنے پر بھی آمادہ کیا۔ علامہ اقبالؒ خود تو 21 اپریل 1938ء کو راہیِ ملکِ عدم ہوگئے مگر مسلمانانِ ہند کو ایک ایسی راہ دکھا گئے اور ایک ایسا رہبر دے گئے کہ اس رہبر کی قیادت میں اس راہ پر چلتے ہوئے قوم نے 14 اگست 1947ء کو ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا، اور ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آگئی۔
زندہ قوموں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں، چنانچہ ہر طرح کی مشکلات میں گھری اس نئی مملکت کو جب ذرا دم لینے کا موقع ملا اور قدرے استحکام نصیب ہوا تو اہلِ فکر و نظر کی توجہ اپنے محسن و مربی علامہ اقبالؒ کی حیات و افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک مؤثر ادارے کی تشکیل کی جانب ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر جب پنجاب کے گورنر بنے تو انہوں نے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کے قیام کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا، انہوں نے صوبائی سیکریٹری تعلیم ایس ایم شریف کو اس ضمن میں ہدایات جاری کیں، جنہوں نے 23 مارچ 1950ء کو ان ہدایات کی روشنی میں ایک مسودۂ قانون تیار کرکے مشیر تعلیم شیخ نسیم حسن کو پیش کیا جس کے اہم نکات یہ تھے:
1۔ قائداعظم محمد علی جناح معمارِ پاکستان تھے، جبکہ علامہ اقبال مصورِ پاکستان تھے جنہوں نے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی اہمیت پر زور دے کر پاکستان کی ثقافتی و روحانی میراث سے اس کا رابطہ قائم کیا۔
2۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے سے یہ امر ازبس ضروری ہوگیا ہے کہ اقبال کے فرمودات و خیالات عام اور ان کی تصنیفات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ اس مقصد کی خاطر حکومتِ پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ دو لاکھ کی گرانٹ سے اقبال اکیڈمی قائم کی جائے۔
3۔ اکیڈمی کے کاموں کے سلسلے میں تفصیلی منصوبہ اس ادارے کا بورڈ آف گورنربنائے گا جو اس ادارے کا نظم ونسق چلائے گا ۔ بورڈ کا چیئرمین حکومت کا نامزد کردہ ہوگا ۔ گورنر پنجاب اکیڈمی کے سر پرست ہوں گے۔
مجلس منتظمہ کا پہلا اجلاس مشیر تعلیم کی صدارت میں دو ماہ بعد 25 مئی 1950ء کو ہوا، جس میں جسٹس ایس اے رحمن، مسٹر ایم۔ایم۔ شریف، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، میاں محمد حسین، سید نذیر نیازی، ڈاکٹر محمد جہانگیر خان (سیکریٹری) شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں اردو، انگریزی دو زبانوں میں سہ ماہی مجلہ کے اجراء کا فیصلہ ہوا۔ گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر کے ایما پر جسٹس ایس اے رحمن اقبال اکیڈمی کے پہلے چیئرمین مقررہوئے۔
ایک سال بعد 30 مئی 1951ء کو مجلس منتظمہ کا اجلاس زیر صدارت مسٹر جسٹس ایس اے رحمان ہوا، جس میں ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کا نام ’’بزم اقبال‘‘ تجویز ہوا اور بور ڈ آف گورنر نے اتفاقِ رائے سے اسے منظور کرلیا۔ اس تبدیلی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وفاقی حکومت نے ملک گیر سطح پر ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے نام سے ادارہ وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
بزم اقبال کے سہ ماہی مجلہ کے اجراء کا فیصلہ شروع میں ہی کرلیا گیا تھا، اس اہم منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی موزوں شخصیت کی تلاش کا مسئلہ درپیش تھا، یہ مسئلہ پروفیسر ایم ایم شریف کے مکتوب محررہ یکم دسمبر 1951ء نے حل کردیا۔ انہوں نے مدیر کے طور پر اپنی خدمات کی پیشکش کی تھی۔ بزم اقبال نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ پروفیسر ایم ایم شریف اپنی وفات (دسمبر1965ء) تک مجلہ ’’اقبال‘‘ کے مدیر اعزازی رہے۔ ان کی ادارت میں اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والے مجلہ ’’اقبال‘‘ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
اپنی فعالیت کے دنوں میں ’’بزم اقبال‘‘ نے پیغام اقبال کو عام کرنے اور نئی نسل کو اس سے روشناس کرانے کے لیے نہایت مفید اور مؤثر کردار ادا کیا اور سہ ماہی مجلہ ’’اقبال‘‘ کی اشاعت کے علاوہ حیات و افکارِ اقبال کے مختلف پہلوؤں پر ڈھائی سو سے زائد معیاری کتب بھی شائع کیں۔ بزم نے علامہ اقبال کی تصانیف، خطبات اور شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروانے کا بھی اہتمام کیا، اور یوں اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، پنجابی زبان میں بھی کتب شائع کیں جن کی اہلِ فکر و دانش نے خاصی پذیرائی بھی کی اور علمی، ادبی اور فکری حلقوں میں بزم اقبال کی خدمات کو سراہا گیا۔
اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ ملک کے عمومی حالات نے علمی و ادبی اداروں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ خصوصاً 1970-71ء کے بعد ’’بزم اقبال‘‘ سمیت ایسے اکثر اداروں کی کارکردگی انحطاط کا شکار ہوئی، تاہم جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں اُس وقت کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے اپریل 1982ء میں بزم اقبال سمیت مختلف علمی و ادبی اداروں کی کارکردگی اور حالاتِ کار کا جائزہ لینے کا اہتمام کیا، اور اس جائزے کے نتیجے میں ’’بزم اقبال‘‘ کو محکمہ تعلیم سے محکمہ اطلاعات و ثقافت و امورِ نوجوانان پنجاب کو منتقل کردیا گیا جس سے حالات قدرے بہترہوئے، مگر آج کل یہ قومی ادارہ اربابِ اقتدار کی عدم توجہی کے سبب ایک بار پھر زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کے لوگ اپنی تقاریر میں علامہ اقبال کے اشعار پڑھتے اور ہر سال ’’یوم اقبال‘‘ پر علامہ اقبال کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے، مگر افکارِ اقبال کی ترویج و اشاعت کے لیے قائم کیے گئے اداروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے ان کے اخلاص کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ 1950ء میں دگرگوں ملکی معاشی حالات میں جس ادارے کے قیام کی خاطر دو لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی تھی، آج جب کہ دیگر سرکاری منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ’’بزم اقبال‘‘ کی سالانہ گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم محض دس لاکھ روپے سالانہ ہے، جب کہ کسی بھی علمی و ادبی منصوبے کو زیر عمل لائے بغیر ’’بزم اقبال‘‘ کے صرف چند مستقل ملازمین کے سالانہ مشاہرے کی ادائیگی کے لیے 35 لاکھ روپے کی رقم درکار ہے۔ گزشتہ برس صوبائی سیکریٹری اطلاعات و ثقافت نے اس ناگفتہ بہ حالت کا احساس کرتے ہوئے گرانٹ دس لاکھ سے بڑھا کر بیس لاکھ روپے سالانہ کردی تھی، مگر اِس سال یہ پھر کم کرکے دس لاکھ روپے کردی گئی ہے، جس کا مطلب واضح ہے کہ اربابِ اقتدار کی خواہش ہے کہ یہ ادارہ اپنی موت آپ مر جائے۔
ملک کے سینئر ترین صحافیوں میں شمار ہونے والے ریاض احمد چودھری آج کل اس ادارے کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں تحریکِ پاکستان کے کارکن رہے ہیں اور آج بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں جو اس تحریک کا خاصا تھا۔ 65 برس تک مختلف اردو اور انگریزی اخبارات میں خدمات انجام دینے کے بعد اب جب ’’بزمِ اقبال‘‘ کی ذمے داری ان کے سپرد کی گئی ہے تو پیرانہ سالی کے باوجود وہ نہایت خلوص اور محنت سے ادارے کو سنبھالا دینے اور اسے اس کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جاں فشانی سے کوشاں ہیں تاکہ نوجوان نسل کو فکرِ اقبال سے روشناس کرایا جا سکے۔
ایک ملاقات میں ریاض احمد چودھری نے بتایا کہ اس وقت بزم اقبال صرف ڈھائی مرلے کے ایک دفتر تک محدود ہے جہاں بزم کی شائع کردہ کتب کو بحفاظت ذخیرہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ بزم اقبال کے پاس اپنا رقبہ موجود ہے جس میں سے چار کنال پر محیط علامہ اقبال سے منسوب لائبریری اور بزم کا سیکریٹریٹ قائم کرنا ان کے عزائم میں شامل ہے۔ بزم اس لائبریری میں علامہ اقبال سے متعلق ساری دنیا میں چھپنے والی تمام مطبوعات رکھنا چاہتی ہے تاکہ علامہ اقبال پر تحقیق کرنے والوں کو ایک چھت کے نیچے تمام سہولیات میسر ہوں۔ ڈپارٹمنٹ آف لائبریریز اینڈ آرکائیوز، حکومتِ پنجاب اس لائبریری کے لیے کتب خرید کر فراہم کر سکتا ہے، جب کہ لائبریری اور سیکریٹریٹ کی تعمیر کا کام بھی مذکورہ ڈپارٹمنٹ کے سپرد ہوگا۔ اس لائبریری کے قیام کے بعد پاکستان بلکہ دنیا بھر سے لوگ اقبال پر تحقیق کے لیے آئیں گے اور بزمِ اقبال آگے چل کر اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کرے گی، جس میں اقبال آگہی پروگرام اور درس و تدریس اس نوعیت کی ہوگی کہ حکومتی منظوری سے اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ طالب علموں کو ڈگری جاری کرے گا۔ علامہ اقبال کی شخصیت کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر لکھا نہ گیا ہو، اندرون ملک اور بیرون ملک علامہ اقبال پر بے تحاشا لٹریچر موجود ہے جس میں ایسا لٹریچر بھی ہے جسے کتابی صورت میں ڈھالا جانا ضروری ہے۔ ملک بھر کی تمام جامعات میں علامہ اقبال پر متعدد مقالہ جات اور ریسرچ پیپرز لکھے گئے ہیں، ان مقالہ جات اور ریسرچ پیپرز کو کتابی صورت میں مرتب کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ماہرینِ اقبالیات، ریسرچرز اور اسکالرز سے اقبال کی شاعری کے مختلف موضوعات پر پیپرز لکھوا کر انہیں بھی مرتب کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تعلیماتِ اقبال کا عہدِ حاضر میں اطلاق، تصورِ خودی، تصورِ امامت، نظریہ فوق البشر، اقبال اور نوجوان نسل، پیغام وحدتِ امت، اقبالی فکر کی آفاقیت، عسکری و جہادی افکار، غیر ملکی ثقافتی یلغار وغیرہ کے موضوعات پر کتابیں بزم اقبال کے سالانہ طباعتی منصوبے کے ساتھ تالیف کی جائیں گی۔ اقبالیات پر اعلیٰ کتب لکھنے والے مصنفین کو انعامات دیئے جائیں گے، اس سلسلے میں ججوں کا پینل بنایا جائے گا اور پورے پنجاب کے مصنفین کی کتب اس مقابلے میں شامل کی جائیں گی۔
جو بلند عزائم ریاض احمد چودھری کے پیش نظر ہیں اُن کی تکمیل کے لیے بورڈ آف گورنر بزم اقبال کی طرف سے لگایا جانے والا کُل مالی تخمینہ 60645000 روپے ہے۔ تبدیلی کے علَم بردار حکمرانوں سے استدعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ’’بزم اقبال‘‘ جیسے اہم علمی و ادبی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت پر خصوصی توجہ فرمائیں، تاکہ اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے یہ ادارے فعال کردار ادا کر سکیں اور ملک و قوم کو فکرِ اقبال سے آگاہی اور رہنمائی میسر آسکے، کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔