امریکی جیل سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کرب انگیز خط

قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے قوم کے حاکم جناب عمران خان کے نام ایک خط تحریر کیا ہے۔ ایک مضحکہ خیز مقدمے میں 86 برس قید کی سزا یافتہ ڈاکٹر عافیہ نے یہ خط ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل کو اُس وقت دیا جب وہ جیل میں اُن سے ملاقات کے لیے آئے۔ خط کا مکمل متن تو ابھی منظرعام پر نہیں آیا تاہم ذرائع ابلاغ سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق ڈاکٹر عافیہ نے واضح کیا ہے کہ امریکہ میں ان کو سنائی گئی سزا غیر قانونی ہے، انہیں اغوا کرکے امریکہ لایا گیا تھا، وہ قید سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان نے ماضی میں ان کی بہت حمایت کی ہے، وہ ہمیشہ سے ان کے ہیرو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ان کی رہائی میں مدد کریں۔
خط سے بخوبی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکی جیل میں طویل عرصے سے جرم بے گناہی کی سزا بھگتنے والی قوم کی یہ ہونہار بیٹی کس ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار ہے، اور اس نے اپنی قوم کے حاکم کے نام یہ خط کس کرب کے عالم میں لکھا ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم، حافظۂ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کی جیل میں پندرہ برس بیت چکے ہیں، ان میں سے پانچ برس تو جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کے تھے، ان سے تو عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ کرنے کی توقع رکھنا عبث تھا کہ ان کی قوم فروشی اور بے غیرتی کا عالم یہ تھا کہ وہ خود بڑے فخر سے یہ اعتراف کرتے تھے کہ انہوں نے قوم کی اس بیٹی اور بہت سے دوسرے بیٹوں کو پانچ پانچ ہزار ڈالر فی کس وصول کرکے ظالم و جابر اور حملہ آور امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ بڑھاپے کے عالم میں غیروں کے ٹکڑوں پر بیرونِ ملک پلنے والے اس بھگوڑے جرنیل کے بعد یہاں عوام خصوصاً خواتین کے حقوق کی علَم بردار پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، مگر اسے بھی ملک کی اس بہادر خاتون کی رہائی کے لیے کوئی قدم اٹھانے کی توفیق نہیں ملی۔ پھر پانچ سال تک یہاں نواز لیگ کی حکمرانی رہی جس کے سربراہ میاں نوازشریف اقتدار میں آنے سے پہلے تک تو ڈاکٹر عافیہ سے بہت زیادہ ہمدردی کا اظہار کرتے رہے، بلکہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے پہلے سو دن کے اندر ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا، مگر جب اقتدار ملا اور کچھ کرنے کا وقت آیا تو ثابت ہوا کہ ان کی تمام باتیں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اپنے پانچ برس کے دورِ اقتدار میں ان سے یہ تک نہ ہوسکا کہ ایک خط ہی بطور وزیراعظم پاکستان امریکی صدر کے نام لکھ دیتے یا کسی سرکاری سطح پر امریکی حکومت سے رابطہ کرکے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی پیش رفت کرتے، حالانکہ ان کے دورِِ حکمرانی میں اپریل 2015ء میں خود امریکہ کے ممتاز اور معروف وکلاء اسٹیفن ڈاؤنز اور کیتھی میلے نے پاکستان کے مختلف بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد وغیرہ میں ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ باقاعدہ پریس کانفرنسوں میں یہ اعتراف کیا کہ ڈاکٹر عافیہ نہایت قابلِ احترام سیاسی قیدی ہیں اور ان کے ساتھ جو ناانصافی اور زیادتی کی گئی ہے اس نے روح کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا اور اسے ناقابلِ فہم قرار دیا کہ آخر پاکستان نے اب تک ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے لیے کوشش کیوں نہیں کی۔۔۔؟ امریکہ کے ان دو ممتاز وکلاء نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی راستے سمجھانے کے لیے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے ملاقات کی بھی کوشش کی، مگر ہمارے وزیراعظم نے ان کو وقت دینے سے انکار کردیا۔
جہاں تک موجودہ وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے، تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانوی صحافی یوآن ریڈلے، جب افغانستان سے رہائی کے بعد جب وہ پاکستان آئیں اور جس تہلکہ خیز پریس کانفرنس میں انہوں نے لاپتا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بگرام میں امریکی قید میں ہونے کا انکشاف کیا تھا اُس پریس کانفرنس میں ہمارے محترم وزیراعظم عمران خان بنفسِ نفیس تشریف فرما تھے۔
دیکھنا یہ ہے کہ معصوم اور مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وزیراعظم پاکستان کے نام تازہ خط کے بعد جناب عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کی حکومت کا طرزِعمل کیا ہوتا ہے؟ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور خود امریکہ کے انصاف پسند حلقے اسے برملا تسلیم کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی انتظامیہ اور ایجنسیوں کے بنائے ہوئے مصنوعی اور سراسر ناانصافی پر مبنی حفظِ ماتقدم کے جن قوانین کے تحت قائم کردہ جس جعلی مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے وہ نہایت شرمناک ہے۔ امریکی تنظیم ’’سپورٹ اینڈ لیگل ایڈووکیسی فار مسلمز۔۔۔ ’’سلام‘‘ اور نیشنل کولیشن ٹو پروٹیکٹ فریڈم کے زیراہتمام ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں 9/11 کے بعد بنائے گئے حفظ ماتقدم کے قوانین اور احتیاطی تدابیر کے تحت بنائے مقدمات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا گیا، اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والے بھیانک نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کہ قوانین کے تحت امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بغیر کسی ثبوت کے اُن افراد اور تنظیموں کو نشانہ بنایا جن کے نظریات، فکر اور مذہبی رجحانات ان کے اندازے کے مطابق ممکنہ طور پر ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان قوانین کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ امریکی ماہرینِ قانون نے کہا کہ امریکی حکومت نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس ریسرچ کے تحت انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے 2001ء سے اب تک دہشت گردی کے حوالے سے بنائے جانے والے 399 مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کے نتیجے میں حفظ ماتقدم (Preemptive Prosecution) کے طور پر بنائے گئے غیر منصفانہ قوانین کی تبدیلی پر زور دیا۔ ان 399 مقدمات کے جائزے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ 94 فیصد مقدمات صرف احتیاطی تدابیر یا پھر معمولی نوعیت کی غلطیوں کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں جن کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں۔ صرف 6 فیصد ایسے مقدمات ہیں جن کو دہشت گردی سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ اس ناانصافی کی سب سے بڑی مثال سیاسی قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہے۔ عافیہ کے علاوہ بے شمار مقدمات ناانصافی اور عدم ثبوت کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں، لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سب سے اہم سیاسی قیدی ہیں، جن کے کیس میں نہ صرف قانون بلکہ اخلاق کی بھی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ عافیہ کے کیس میں ان کے معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی بھی لمحۂ فکریہ ہے۔