خالد ابراہیم، جرأت اور اصول پسندی کا کردار

آزادکشمیر کے بانی صدر اور تحریکِ آزادی کے راہنما غازیٔ ملت سردار محمد ابراہیم خان کے صاحبزادے سردار خالد ابراہیم 71 سال کی عمر میں اچانک انتقال کرگئے۔ تدفین کے روز اُن کی 71ویں سالگرہ بھی تھی۔ ان کی تدفین میں پورا آزادکشمیر اُمڈ آیا۔ ان کے جنازے کو آزادکشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا گیا۔ یہ خالد ابراہیم کے کردار کو سلامِ عقیدت تھا۔ خالد ابراہیم کی وفات سے آزاد کشمیر کی کتابِ سیاست میں اصول پسندی، جرأ ت مندی اور حق گوئی کا ایک باب بند ہوگیا۔
سردار خالد ابراہیم کا تعلق آزادکشمیر کی خوبصورت وادیٔ پرل راولاکوٹ اور پشتونوں کی سدوزئی شاخ سے تھا جنہیں آزادکشمیر میں سدھن کہا جاتا ہے۔ سردار خالد ابراہیم خان اس وقت آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اپنی قائم کردہ جماعت جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے سربراہ تھے۔ یوں تو سردار خالد ابراہیم نے سردار ابراہیم خان کے زیر سایہ سیاسی میدان میں قدم رکھا، مگر اپنی جرأت مندی، اصول پسندی اور دیانت داری کے باعث انہوں نے آزادکشمیر کی سیاست میں اپنی الگ شناخت اور پہچان بنا لی۔ سردار خالد ابراہیم نے اپنی سیاست کا آغاز پی ایس ایف اور پیپلزیوتھ آرگنائزیشن سے کیا، اوراپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر وہ آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ 1980ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئیں اور انہوں نے پارٹی کو نئے انداز سے نئے حالات کے مطابق منظم کرنا شروع کیا۔ بے نظیر کے آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے دورے کے دوران راستے میں ایک ہجوم استقبال کے لیے کھڑا تھا اور ان کی ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔ اس ہجوم میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جو صبح سے اپنے گھریلو کام چھوڑ کر بے نظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کی تمنائی تھیں۔ بے نظیر بھٹو چونکہ پہاڑی سفر سے تھک چکی تھیں اس لیے وہ اس مقام پر رکنے اور ان کی دلجوئی کے لیے دو جملے بولنے پر بھی آمادہ نہ ہوئیں۔ سردار خالد ابراہیم کے اصرار کے باوجود بے نظیر بھٹو نے خطاب کرنے سے معذرت کی۔ سردار خالد ابراہیم خان ان کی گاڑی ڈرائیو کررہے تھے۔ خوددار اور عوام دوست خالد ابراہیم نے اسے گھنٹوں سے استقبال کے منتظر عوام کی توہین جان کر گاڑی چلانے سے انکار کیا، اور یوں پیپلزپارٹی کی مستقبل کی اُبھرتی ہوئی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔ بیس سالہ سیاسی رفاقت کا چاند گہناتا چلا گیا۔ اس کا اثر سردار خالد ابراہیم خان کی سیاست پر بھی مرتب ہوا جو اُس وقت پیپلزپارٹی میں نمبر ون قیادت اور مستقبل میں آزادکشمیر کے وزیراعظم سمجھے جاتے تھے۔ اس سیاسی قربانی اور بظاہر خسارے کی وجہ ان کی اصول پسندی اور عوام دوستی تھی۔ اس کے بعد وہ سود وزیاں سے عاری ہوکر اپنی متعین کردہ راہ پر چلتے چلے گئے، یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلی کی جو رکنیت جان جوکھوں میں ڈال کر حاصل کی جاتی ہے، اصول پسندی کے باعث وہ دوبار اسے لات مارکر عوام میں آتے رہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں سردار عبدالقیوم خان کے دور میں پبلک سروس کمیشن سے بالا بالا ملازمین کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو خالد ابراہیم بطور احتجاج اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے۔ یوں وہ آزادکشمیر کی سیاست میں ایک منفرد کردار کے حامل سیاست دان تھے۔ ان کی اصول پسند طبیعت کو اس لیے ضدی رویہ قرار دیا جاتا تھاکہ اب سیاست کے بازار میں اصول پسندی اور دیانت داری کے سکے کلی طور پر متروک قرار پاچکے ہیں۔ سردار خالد ابراہیم اپنے رویّے پر نازاں رہتے اور آزادکشمیر کے عوام میں بھی ان کی اس خو اور وضع کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہ کرسکتے تھے۔ یوں وہ ایک درویش منش اور سادہ طبع انسان تھے۔ ایک پرانی سی جیپ میں سفر کرتے۔ یہ جیپ انہوں نے خود تیار کروائی تھی۔
خالد ابراہیم کی شادی فیلڈ مارشل ایوب خان کے گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کی بھاوج سندھ سے تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں سردار خالد ابراہیم خان نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی تھی اور یہ الیکشن بھی انہوں نے نون لیگ کی حمایت سے جیتا تھا۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ سردار خالد ابراہیم کو آزادکشمیر کا صدر بنایا جائے گا، مگر قرعہ فال انہی کے ایک عزیز اور قرابت دار سابق سفارت کار سردار مسعود خان کے نام نکلا۔ سردار خالد ابراہیم ذاتی طور پر کسی منصب اور عہدے کے امیدوار نہیں تھے، مگر یہ بے اعتنائی انہیں کسی حد تک دلبرداشتہ کرنے کا باعث بنی۔ قانون ساز اسمبلی میں ایک تقریر کی پاداش میں وہ توہینِ عدالت کے ایک مقدمے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کررکھے تھے جبکہ خالد ابراہیم رضاکارانہ گرفتاری سے مسلسل انکاری تھے۔ وہ اس جنگ کو پوری قوت سے لڑنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھے۔ یہی ذہنی دبائو برین ہیمبرج کا باعث بن کر انہیں موت کی آغوش میں لے گیا۔ وفات سے ایک ماہ قبل پی ٹی وی کے ایک علاقائی سینٹر میں اپنے پروگرام ’’کشمیر افیئرز‘‘ میں ان کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال، پاکستان کی سیاسی تبدیلی اور کشمیر پالیسی پر تفصیل سے گفتگو کی۔ گاڑی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے اس طرح کی گاڑیوں کا شوق ہے اور یہ میں نے خود تیار کرائی ہے۔
سردار خالد ابراہیم پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور برملا خود کو پاکستانی قرار دیتے تھے۔ وہ عقیدے کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کا خوش حال اور باوقار مستقبل پاکستان کے ساتھ اور تعلق میں پنہاں ہے۔ ان کی ناگہانی وفات سے آزادکشمیر ایک قدآور قائد، اور پاکستان ایک محب وطن اور مخلص شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاست نے ایک ایسے گوہرِ نایاب کو کھو دیا جو نفسانفسی اور بدعنوانی کے اس عہد ِستم میں اقدار اور اصولوں کا علَم بردار تھا، اور اپنے اس کردار کی وجہ سے سردار خالد ابراہیم تادیر اپنے چاہنے والوں کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں زندہ رہیں گے۔