اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورۂ منافقون میں آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منافقین کہتے ہیں کہ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناًاللہ کے رسول ہیں۔ ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں۔‘‘ (سورۃ المنافقون، آیت نمبر1)
یہ فرمانِ الٰہی موجودہ دور کے طاقتور بالخصوص حکمراں طبقات پر صادق آتا ہے۔ یہ لوگ اپنے عوام کے سامنے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، اطاعت اور وفاداری کا اعلان کرتے ہیں، لیکن دنیا کی محبت نے ان کو عالمی طاقتوں کا تابعدار اور وفادار بنادیا ہے۔ ان طاقتوں کی اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ دشمنی کھل چکی ہے، اور اس کا سب سے بڑا مظہر توہینِ رسالت کے قانون کے خلاف عالمی طاقتوں اور مغرب کی تابعداری ہے۔ عہدِ رسالت میں منافقین مسلمانوں کے اجتماعی ردعمل سے ڈر کر اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناًاللہ کے رسول ہیں‘‘۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو سچ پر مبنی ہے، لیکن نفاق کی وجہ سے ایک سچا اور حق جملہ کہنے والوں کو اللہ کی بابرکت ذات نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ طویل عرصے سے عالمِ کفر امریکہ کی قیادت میں پاکستان اور پورے عالمِ اسلام کو مجبور کررہا ہے کہ ’’آزادئ اظہار‘‘ کے نام پر توہینِ رسالت کی آزادی دے دی جائے۔ جو بھی لوگ اس پستی پر اتر آئے ہیں اُن کا دعویٰ ایمان مشکوک ہوچکا ہے۔ منافقین کے بارے میں قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان مسلمانوں کے سامنے اپنے ایمان کا اقرارکرتے ہیں لیکن جب اپنے ’’شیطانوں‘‘ یعنی یہود سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ، اللہ کے رسولؐ اور اہلِ ایمان کو دھوکا دیتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔ اپنے دل کی اصل بات کو جماعت المسلمین سے تو پوشیدہ رکھا جاسکتا ہے، لیکن وہ ذات جو سینوں کے رازوں سے بھی واقف ہے اُس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ اصل میں اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ یہ جھوٹے اور دھوکے باز ہیں، لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو عقیدے اور فکر کی نسبت اہلِ ایمان، اہلِ کفر اور اہلِ نفاق میں تقسیم کیا ہے، اور منافقوں کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ جہنم کے نچلے گڑھوں میں ہوں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جن باتوں سے پناہ طلب کرنے کی تعلیم دی ہے اُن میں کفر اور فسق کے ساتھ نفاق بھی شامل ہے۔ مسلمان بے عمل ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، وہ گناہ گار ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتا۔ ماضی میں قوموں پر اللہ کے عذاب کا اصل سبب اللہ کے نبیوں کی تکذیب اور توہین ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ یعنی وہ پوری انساینت کے لیے اس کائنات کے مالک و حاکم کے مستند نمائندے ہیں۔ عالمِ کفر کے حقیقی حکمراں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ جس طرح عہدِ رسالت میں مدینہ کے علمائے یہود اور عیسائی راہب اچھی جانتے تھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آج کے علمائے مغرب نے بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر اچھی طرح تحقیق کی ہوئی ہے۔ مدینہ کے یہود امتِ مسلمہ میں منافقین کے وجود کا سبب بنے تھے، اسی طرح آج بھی مسلمان نام رکھنے والے، یہودی و عیسائی مغربی دنیا کے آلۂ کار بن گئے ہیں اور انہوں نے مختلف ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے خلاف جنگ کا اعلان کررکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ کسی بھی مسلمان ملک میں اصلی اسلامی حکومت قائم نہیں ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کررہے ہیں، عالم اسلام کی رائے عامہ کا جائزہ لینے کے باوجود اپنے آلۂ کار حکمران طبقات کو مجبور کررہے ہیں کہ امتِ مسلمہ ’’آزادئ اظہار‘‘ اور ’’رواداری‘‘ کے نام پر توہینِ رسالت جیسی غلیظ وارداتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ لیکن کوئی گناہ گار اور بے عمل مسلمان بھی اس خباثت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ مسلمان اس بات سے واقف ہیں کہ مغربی دنیا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ مبارک کو بھی نکال لے جانے کی ناپاک سازش کی تھی، اُس وقت وہ آج کی طرح طاقت ور نہیں تھے۔ آج عملی طور پر مسلم دنیا عالمِ کفر کی غلام بنی ہوئی ہے۔ اپنی کمزوریوں کے باوجود امتِ مسلمہ کا ضمیر توہینِ رسالت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن پاکستان کے بدعنوان، دولت پرست منافق عالم کفر کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی صفوں میں موجود منافقوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا تو ان کی تباہ کردی گئی ہے، ایمان پر استقامت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی قربانی نجات کا سبب ہے۔ کیا عدالتِ عظمیٰ کے موجودہ متنازع فیصلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشانی ہے کہ اس کے لیے اس دن کا انتخاب ہوا ہے یعنی 31 اکتوبر۔ اس دن جناب غازی علم دین شہید نے حرمتِ رسولؐ کے لیے پھانسی کو قبول کیا تھا اس فرق کے ساتھ کہ اُس وقت انگریزوں کی براہِ راست حکومت تھی، اب انگریزوں کے غلام پاکستان کے اوپر حکمران ہیں۔ کیا اسلام کی محبت کے دعویدار حکمران طبقات کو اللہ کی عدالت میں پرسش کا کوئی خوف نہیں ہے؟