بھارت پوری طرح کشمیریوں کے ساتھ زورآزمائی کررہا ہے، المیہ یہ ہے کہ ایک طرف سرتاپا طاقت ہے اور دوسری طرف نہتا سماج۔ اس کشمکش میں اگر کسی ہاتھ میں کچھ ہے بھی تو وہ جدید ترین ہتھیار کے مقابلے میں صرف پتھر ہے۔ مکالمہ اور مذاکرہ چھوڑ کر بھارت کشمیریوں کو آزادی اور حقِ خودارادیت کے نعروں اور اپنی تمام بین الاقوامی سبکی اور خفت کی سزا دینے پر تلا ہوا ہے۔ طاقت آزمائی کی اس پالیسی نے کشمیر کو المیوں سے بھری ہوئی ایک کہانی بنادیا ہے جس کا ہر کردار اور ہر موڑ رنج والم سے عبارت ہے۔ ایک المناک واقعے کی گونج اور ماتمی بین ابھی فضائوں میں موجود ہوتے ہیں کہ ایک اور المیہ رونما ہوکر ساری توجہ اپنی جانب سمیٹ لیتا ہے۔ ماحول اور معاشرہ اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے کہ یہ آخری واقعہ نہیں، اگلا کوئی بھی لمحہ کسی اور سانحے کا پیغام لے کر جلوہ گر ہوسکتا ہے… اور یوں یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔
ایسا ہی ایک سانحہ کولگام میں دوطرفہ تصادم میں بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کی شہادت ہے جس نے ساری توجہ اپنی جانب سمیٹ لی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وستم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عالمی ادارہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے اقدامات کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے مقبوضہ کشمیر میں اس ظلم و استبداد کی مذمت کرتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک کی حمایت کا اعادہ کیا۔ حریت کانفرنس کے چیرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے بھی اپنے ٹوئٹ میں عمران خان کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ایک فریق کے طور پر پاکستان کو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ آزادکشمیر حکومت کی اپیل پر اس واقعے کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا اورمتحدہ جہاد کونسل نے ایک جلوس نکال کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔
مقبوضہ کشمیر کے کولگام ایریا میں بھارتی فوج نے دس افراد کو شہید کرکے اپنی خونیں پیاس بجھائی۔ شہدا میں دس سالہ لڑکا بھی شامل تھا۔ بھارتی فوج کو مخبرکے ذریعے شمالی کشمیر کے کولگام لارو علاقے میں جیش محمد تنظیم سے وابستہ تین مقامی حریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تو فوج نے رات کی تاریکی میں گھر کا محاصرہ کرلیا۔ دوطرفہ تصادم کے بعد بھارتی فوج نے گھر کو نذرِ آتش کردیا، جس کے
بعد علی الصبح علاقے کے عوام بڑی تعداد میں تباہ شدہ گھر کے گرد جمع ہوئے اور فوج پر پتھرائو شروع کردیا گیا۔ اس دوران فوج کی طرف سے فائرنگ میں سات افراد جاں بحق اور چالیس زخمی ہوئے۔ فوج کی طرف سے کہا گیا کہ دھماکا تباہ شدہ گھر کے ملبے میں پھٹنے والے بم سے ہوا جس سے قریب کھڑے افراد شہید اور زخمی ہوئے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں جاری تحریک میں دونئے رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان میں پہلا رجحان طلبہ کی مسلح تحریک میں تیز رفتار شمولیت ہے۔ برہان وانی کے اسٹائل اور مقبولیت نے عسکریت کو نوخیز ذہنوں کے لیے رومان پرور عمل بنایا ہے۔ وہ ایک ہیرو کی طرح چاہے جانے میں کشش محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ رجحان اسکول کے طلبہ سے پی ایچ ڈی اسکالرز تک دراز ہوا۔ حال ہی میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر منان بشیر وانی کی شہادت کے بعد متحدہ جہاد کونسل کو طلبہ پر مسلح تحریک میں شامل ہونے پر پابندی کا اعلان کرنا پڑا۔ پابندی کا یہ اعلان اپنی جگہ، مگر کشمیر کے حالات جو رخ اختیار کر گئے ہیں ان میں بھارت کے ظلم کے مقابلے میں پورا سماج دوسری انتہا پر کھڑا ہوچکا ہے، اور یہ سماج اپنی طاقت اور تگ وتاز کے اظہار کے نئے راستے ڈھونڈ رہا ہے، جس کا ایک ثبوت شادی بیاہ کے گیتوں میں کورس کی صورت بلند کیے جانے والے آزادی کے نعروں کا اضافہ ہے۔ گزشتہ دنوں کشمیر کی ایک ایسی ہی وڈیو وائرل ہوئی جس میں خواتین شادی کی ایک تقریب میں گیت گاتے ہوئے اس کے حصے کے طور پر ’’آئی آئی آزادی، گیلانی والی آزادی‘‘کے نعرے بلند کررہی ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا وہ بھارتی فوج اور حریت پسندوں کے درمیان مسلح تصادم کی جگہوں پر عوام کا جمع ہوکر فوج پر پتھرائو کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی معصوم اور عام شہری جن میں اکثر نوخیز ہوتے ہیں، شہید اور زخمی ہورہے ہیں۔ ظلم کے اس واقعے کے بعد وادی کشمیر اور چناب وادی میں بھرپور ہڑتال اور احتجاج کیا گیا۔ ہڑتال کے باعث بند دکانوں کے شٹر بھی کشمیریوں کے جذبات کی بھرپور عکاسی کررہے تھے۔ چار بند شٹرز پر انگریزی میں چار مختلف عبارتیں ’’ہم بھارت کے ساتھ نہیں، جائو انڈیا واپس جائو، جنگ فتح تک، آزادی یا موت‘‘ درج تھیں۔ وادی کے معروف اور سینئر اخبار نویس یوسف جمیل نے وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر ہڑتال کی منظرکشی کچھ یوں کی تھی:
’’مشترکہ مزاحمتی فورم کی ہڑتال کی حمایت کشمیر چیمبر آف کامرس اور کشمیری ہندوئوں کی تنظیم کشمیری پنڈت سنگھرش نے بھی کی تھی۔ ہڑتال کی وجہ سے وادیٔ کشمیر اور ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی چناب وادی میں بازار، بینک اور دوسرے کاروباری ادارے، بیشتر اسکول اور کئی سرکاری دفاتر بند رہے۔ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہی۔ وادی کے گرمائی صدر مقام سری نگر اور چناب وادی کے بانہال قصبے کے درمیان ٹرین سروس معطل کی گئی۔ جنوبی کشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات روک دی گئی تھیں‘‘۔
یوسف جمیل کی یہ منظرکشی کسی ایک دن کی بات نہیں، کشمیر میں روزکا معمول ہے۔ بھارتی حکومت اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بدترین قتل عام میں مصروف ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر معصوم افراد کو شہید کرنا بھارت کی سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ پنچایتی انتخابات کا عوام نے مکمل بائیکاٹ کرکے بھارت کی جمہوریت پر بھرپور طمانچہ رسید کیا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں بھارت کا سیکولرازم تو پہلے ہی ناکام ہوگیا تھا اور کشمیری عوام نے اس نام نہاد سیکولرازم کو اپنے لہو سے بے نقاب کردیا تھا، اب بھارت کی جمہوریت بھی وادی میں ناکام اور ڈھکوسلہ ثابت ہوگئی۔آج مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے۔ بھارت اس طرح اپنی جمہوریت کے بے نقاب ہونے پر تلملاہٹ کا شکار ہے۔ اس فرسٹریشن کا بدلہ عوام کے قتل عام کی صورت میں لیا جارہا ہے۔ بھارت نے معصوم عوام کو قتل کرنا اپنا وتیرہ بنالیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیری عوام کو اپنا تابع اور مطیع بنانے میں ناکام ہوچکا ہے، مگر حیرت عالمی برادری پر ہوتی ہے جو اس صورتِ حال میں تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم اب حد سے بڑھ چکا ہے۔ عوام کی قوتِ مزاحمت کی داد دینی چاہیے جو بدترین حالات کے باوجود سرِمیداں کھڑے ہیں اور انسانی سروں کی ایک طویل قطار مقتل کے باہر موجودہے۔ اُٹھتی ہوئی سجیلی جوانیاں آتی ہیں اور مقتل میں مردانہ وار داخل ہوتی ہیں۔ یوںکشمیر میں لہو کی فصلیں اُگ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پُررعونت انداز میں کہا تھا کہ کشمیر ہمارا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بھارت سے نہیں چھین سکتی۔ راج ناتھ سنگھ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کشمیر ہمارا تھا، ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔ راج ناتھ سنگھ نے یہ دعویٰ اُس وقت کیا تھا جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں پنچایتی الیکشن ہورہے تھے اور ان انتخابات کے انعقاد کے لیے کشمیر میں لاکھوں فوجیوں کو گھروں کے سامنے اور گلی کوچوں میں تعینات کیا گیا تھا۔ پوری وادی ایک قید خانے اور فوجی اسٹیٹ کا منظر پیش کررہی تھی۔ پولنگ اسٹیشنوں تک لوگوں کو فوج زبردستی لارہی تھی اور حریت پسندوں کے اتحاد ’مشترکہ مزاحمتی فورم‘ کی اپیل پر کاروبارِ حیات مکمل طور پر معطل تھا۔ لوگ رضاکارانہ طور پر گھروں میں بند ہوکر رہ گئے تھے اور سڑکوں پر فوجیوں کا راج تھا، یا زبردستی لائے گئے ووٹر ڈرے اور سہمے ہوئے آنے جانے میں مصروف تھے۔ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ فوج پوری قوت کے ساتھ سرگرم عمل ہے اور اس فوجی جمائو اور دبائو کا جواز یہ تلاش کیا گیا ہے کہ کشمیر میں ملیٹنسی ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کشمیر میں سرگرم حریت پسندوں کی تعداد کتنی ہے؟ تو جواب ملتا ہے: ایک سوسے دو ڈھائی سو۔ اس کے ساتھ ان چند سو حریت پسندوں کو چند ماہ میں کچلنے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ سو دوسو مسلح نوجوانوں کو کچلنے کے لیے ساڑھے سات لاکھ فوج کا جواز راج ناتھ سنگھ کے اس دعوے کو غلط ثابت کررہا ہے کہ کشمیر بھارت کا تھا، ہے اور رہے گا۔ ساڑھے سات لاکھ فوج کی موجودگی یہ بتارہی ہے کہ بھارت جس کشمیر کو اپنا سمجھ رہا ہے وہ اس کا نہیں، بلکہ وہ اس کے پنجۂ استبداد سے جان چھڑانے کے لیے ایک مجروح اور مذبوح پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے۔ اس پھڑپھڑاہٹ کا اظہار وہ لاکھوں لوگ ہیں جو کسی شہید کے جنازے میں نکل کر آزادی کی حمایت میں نعرے بلند کرکے دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ کشمیر نہ بھارت کا حصہ تھا، نہ ہے اور نہ رہے گا، بھلے سے کشمیر پر فوجی طاقت کے ذریعے اس وقت بھارت کا کنٹرول ہو۔ اور یہی زمینی حقیقت بھی ہے۔ مگر کشمیریوں کے ذہن ودل بھارت کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں اور وہ ذہنی اور دلی طور پر بھارت کے ساتھ نہیں، اور اس حقیقت کا اظہار کرنے کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ بھارت ایک اُبھرتی ہوئی طاقت سہی مگر انسانی آبادی کو اس کے جذبات کے علی الرغم تادیر غلام اور مقبوضہ بنائے نہیں رکھا جا سکتا۔ جبر کی طاقت کو عوام کی طاقت کے آگے، بندوق کو نعروں اور ہوا میں لہراتے ہاتھوں کے آگے آخرکار مات ہوجاتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کشمیریوں کی لاشوں اور گمنام قبروں پر کھڑے ہوکر ’’ہمارا تھا، ہمارا ہے اور رہے گا‘‘ جیسے احمقانہ اعلان کرکے خطے کو کشیدگی کے نہ ختم ہونے والے راستوں پر ڈال کر تاریخ کا منہ چڑا رہے ہیں۔