صبر، اپنے وسیع معنی میں:
’’اور ان [نیک لوگوں] کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔‘‘ (الدھر:12-76)
یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اور قابلیتیں، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کردینا، ہر اُس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے، ہر اُس خطرے اور تکلیف کو برداشت کرلینا جو راہِ راست پر چلنے میں پیش آئے، ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہوجانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کرجانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویّے کے ثمرات اِس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے، ایک ایسا طرزِعمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے، دائمی صبر ہے، ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے۔ (تفہیم القرآن، ششم، ص 198، الدہر، حاشیہ 16)
قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے، اور ایمان کے راستے پر قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہوسکتا ہے۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات، تکالیف، مصائب اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے، اور اس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخیریت نہیں گزر سکتا۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، اپنے معاشرے، اپنے ملک و قوم، اور دنیا بھر کے شیاطینِ جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ راہِ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید امتحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہوگا اور مشکل ہی سے کامیاب ہوسکے گا۔ بخلاف اس کے اگر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اس ہمہ گیر امتحان میں سہارا بھی دے رہے ہوں تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہوجائے گی۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار ہوجائے گا۔ (تفہیم القرآن، ششم، ص 344، البلد، حاشیہ 14)
[تفہیم احکام القرآن، جلد اول]
حضرت عبداللہ بن سَرجِس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسنِ کردار، بردباری اور اعتدال و میانہ روی، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ (ترمذی)
یعنی یہ اوصاف معمولی اور کم درجے کے نہیں ہیں۔ ان اوصاف کو انبیا علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ جو شخص جس قدر اپنی سیرت و کردار میں ان اوصاف کو جگہ دے گا، وہ اسی قدر فیضانِ نبوت سے فیض یاب سمجھا جائے گا۔
اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب ہے۔ دانش مند وہی ہے جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجائے معتدل طرزِعمل اختیار کرے۔