پنجاب کے جواں سال وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے مالی سال 2018-19ء کے بقیہ 8 ماہ کے لیے بجٹ منگل 16 اکتوبر کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جسے وزیر خزانہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں ’اصلاحی بجٹ‘ کا نام دیا، جب کہ صوبے کی مالی مشکلات کا سبب خادم اعلیٰ شہبازشریف کی سابق صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت جس بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومت کی غیر ذمے دارانہ پالیسیاں ہیں، میگا پراجیکٹس کے نام پر ایسے منصوبے تشکیل دیئے گئے جن کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی خودنمائی تھی، اورنج ٹرین منصوبے کی مالیت تقریباً165 ارب روپے بتائی گئی مگر اب یہ منصوبہ 250 ارب روپے سے بھی زیادہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اسٹیٹ بینک سے 41 ارب روپے کا اوور ڈرافٹ لیا گیا، اس کے باوجود ٹھیکے داروں کے 57 ارب روپے کے بل ادا نہ کیے جا سکے، حکومتی قرضہ مالی سال کے اختتام تک 1100 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔ 2017-18ء کے بجٹ میں 635 ارب کے ترقیاتی بجٹ کا اعلان کیا گیا لیکن صرف 411 ارب روپے خرچ کیے گئے، موجودہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی درخواست پر 148 ارب روپے کی خطیر رقم بجٹ سرپلس کے طور پر مختص کی جا رہی ہے، یہ رقم رواں مالی سال میں ترقیاتی اخراجات کا حصہ ہوگی، بجٹ میں کسان بھائیوں کے لیے آسان قرضوں اور ون ونڈو آپریشن کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
نئی حکومت کے رواں مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 2026 ارب 51 کروڑ روپے ہوگا، محصولات کا تخمینہ 1652 ارب روپے ہے، وفاق سے پنجاب کو 1276 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، صوبائی ریونیو کی مد میں 376 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے جس میں 276 ارب روپے ٹیکس اور 100 ارب روپے نان ٹیکس آمدن شامل ہے۔ اخراجاتِ جاریہ کا کل تخمینہ 1264 ارب روپے ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ تنخواہوں کی مد میں 313 ارب روپے، مقامی حکومتوں کے لیے 438 ارب روپے، سروس ڈیلیوری اخراجات کے لیے 305 ارب روپے، سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 238 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں اور مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں کمی ناگزیر تھی۔ رواں مالی سال میں تعلیم کے لیے 373 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے جو گزشتہ سے 28 ارب روپے زیادہ ہے۔ 500 ملین کی لاگت سے کچی آبادیوں کے بچوں کے لیے پری پرائمری اسکولنگ شروع کی جائے گی، ہائی اسکولز میں ووکیشنل و ٹیکنیکل تعلیم کا ایک نیا ٹریک متعارف کروایا جا رہا ہے۔ شمالی، جنوبی اور وسطی پنجاب میں تین نئی اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیوں کی فزیبلٹی اسٹڈی کروائی جارہی ہے، اساتذہ کو ٹیبلیٹ کمپیوٹر فراہم کیے جائیں گے، صحت کے لیے 284 ارب روپے، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لیے 20 ارب 50 کروڑ روپے، زرعی پروڈکشن سیکٹر کے لیے 93 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ کسان بھائیوں کی خوشحالی کے لیے 2 لاکھ 50 ہزاربلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، 6 ارب روپے سے ڈاڈھوچا ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے گی جو راولپنڈی، اسلام آباد کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے گا، پنجند بیراج کی بحالی اور جلال پور کینال سسٹم کی تعمیر کا آغاز بھی رواں سال کیا جائے گا، انفرااسٹرکچر کے لیے 149 ارب، روڈ سیکٹر کے لیے 68 ارب، ٹرانسپورٹ کے لیے 35 ارب 50 کروڑ، اورنج لائن ٹرین کے لیے 33 ارب، جب کہ آلودگی سے نمٹنے کے لیے 6 ارب 30 کروڑ روپے کی لاگت سے انوائرنمنٹ انڈومنٹ فنڈ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے فروغ کے لیے 4 ارب روپے، اور 4 ارب روپے فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لا رہے، ہماری ترجیح ٹیکس وصولیوں کے نظام میں بہتری ہوگی، نظام میں بہتری کے تحت 376 ارب روپے صوبائی محاصل سے اکٹھے کریں گے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہوں گے۔
حکومت نے مالیاتی بل میں درآمد شدہ 1300 سے 1500 سی سی تک کی گاڑیوں پر لگژری ٹیکس کی شرح 70 ہزار روپے سے کم کرکے 15 ہزار روپے، 1500 سے لے کر 2000 سی سی تک گاڑی پر سوا لاکھ روپے سے کم کرکے 25 ہزار روپے، 2000 سے لے کر 2500 سی سی تک درآمد شدہ گاڑیوں پر عائد لگژری ٹیکس کا ریٹ دو لاکھ روپے سے کم کرکے ایک لاکھ روپے، جب کہ 2500 سی سی سے اوپر گاڑیوں پر لگژری ٹیکس ریٹ 3 لاکھ روپے برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی کا دائرۂ کار بڑھاتے ہوئے انشورنس سروس، کوریئر سروسز، آن لائن بزنس/ کیش آن ڈیلیوری ایونٹ سینٹرز، کرایہ کی آمدن، پارکنگ سروس پر 16 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ انشورنس کے شعبے میں ہیلتھ انشورنس، لائف انشورنس اور میرین سروس پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے اور ان پر ٹیکس کی شرح 16 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت نے مالیاتی بل میں مختلف سرکاری دستاویزات پر اسٹیمپ ڈیوٹی میں دس روپے سے دس ہزار روپے تک اضافے کی تجویز دی ہے۔ اسی طرح موٹر وہیکل ٹیکسیشن ایکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک ہزار سی سی گاڑی کی لائف ٹائم ٹوکن فیس 10 ہزار روپے سے بڑھا کر 15 ہزار روپے، موٹر سائیکل کی لائف ٹائم ٹوکن فیس 1200 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اعداد و شمار کو معمولی آگے پیچھے کرکے اپنی جانب سے ایک نئی دستاویز صوبائی اسمبلی میں پیش کردی ہے، ورنہ تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جن انقلابی عزائم کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی ہے ان کی کوئی جھلک آئندہ آٹھ ماہ کے اس بجٹ میں نظر نہیں آتی، البتہ وزیر خزانہ نے اصلاحی بجٹ کی ایک نئی اصطلاح ضرور متعارف کرائی ہے، مگر عملاً بجٹ کے تمام اعداد و شمار میں کوئی ایک بھی اقدام ایسا سامنے نہیں لایا گیا جسے حقیقی معنوں میں اصلاحی تسلیم کیا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے صوبے کی تمام معاشی مشکلات کی ذمے داری سابق حکومت پر تو عائد کردی ہے مگر نئے بجٹ میں ایسا کوئی اقدام تجویز نہیں کیا جس سے سابق حکومت کی پیدا کردہ خرابیوں کی اصلاح ممکن ہوسکے۔ پنجاب بلکہ پورا پاکستان جن معاشی مشکلات کا شکار ہے، ڈالر کی قیمت تیزی سے اوپر جارہی ہے، جب کہ روپیہ ردی کے کاغذ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور برآمدات بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے، مگر معلوم نہیں کیوں یہ پالیسی اپنائی جارہی ہے کہ درآمدی گاڑیوں پر پہلے سے عائد لگژری ٹیکس میں اضافے کے بجائے خاطر خواہ کمی کردی گئی ہے۔ یوں گاڑیوں کی درآمدات میں اضافے کا سامان کیا گیا ہے جس کا ملکی خزانے پر منفی اثر پڑے گا۔
انتخابات سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل عوام کی تکالیف کم کرکے انہیں ریلیف دینے کے دعوے کرتی چلی آرہی ہے، مگر بجٹ تجاویز میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جسے اس دعوے کی روشنی میں مثبت اور غریب دوست قرار دیا جا سکے۔ اس کے برعکس موٹر سائیکل جیسی عوامی سواری پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرکے عام آدمی کی مشکلات کا سامان ضرور کیا گیا ہے، جب کہ موٹر سائیکل چلانے اور پیچھے بیٹھی سواری کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دے کر اور خلاف ورزی کی صورت میں لازمی چالان اور بھاری جرمانوں کے ذریعے حکومت پہلے ہی عام آدمی کا ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ بھی تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا اہم حصہ رہا ہے تاہم صوبائی وزیر خزانہ کی پوری بجٹ تقریرمیں کوئی ایک جملہ بھی ایسا موجود نہیں جس سے اس جانب پیش رفت کا اندازہ لگایا جا سکے، یا یہ اشارہ ہی ملتا ہو کہ نئی حکومت جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں سنجیدہ ہے ۔ شاید اس موضوع کو اگلے عام انتخابات تک کے لیے ایک بار پھر سرد خانے میں رکھ دیا گیا ہے۔