امریکی عدالتِ عظمیٰ میں “متنازعہ اخلاقی ملزم” کی تقرری

طویل بحث و مباحثے، جذباتی سماعتوں اور وفاقی ادارہ تحقیق یا FBIکی جانب سے جانچ پڑتال کے بعد امریکی سینیٹ نے سپریم کورٹ کے لیے جسٹس بریٹ کیوانا(Brett Kavanagh)کی توثیق کردی، اور نئے جج صاحب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔اسی کے ساتھ امریکی مملکت کے تینوں ستون یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پوری طرح قدامت پسندوں کی گرفت میں آگئے۔
امریکہ کی عدالتِ عظمیٰ 9 ججوں پر مشتمل ہے جن کا تقرر تاحیات بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بیماری و معمولی معذوری کی صورت میں بھی انھیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگر ان میں کوئی کسی اخلاقی جرم میں ملوث ہوجائے تو اور بات ہے۔ امریکی نظام جمہوریت کا اہم پہلو سینیٹ کی بالادستی ہے۔ اس لیے کہ سینیٹ وفاق کی ترجمان سمجھی جاتی ہے۔ یہاں اٹارنی جنرل، کابینہ کے ارکان، فوج کے سربراہ، امریکی سفیروں، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ، وفاقی اور سپریم کورٹ کے جج، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں سمیت تمام اہم تقرریوں کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے۔ ان لوگوں کو صدر نامزد کرتا ہے۔ سینیٹ تقرری کو مسترد کرسکتی ہے، لیکن یہ ادارہ نیا نام نہیں تجویز کرسکتا۔ نامزدگی کا اختیار صدر کو ہے۔ مختلف اداروں کی طرح امریکی سپریم کورٹ پر سیاسی اور نظریاتی چھاپ بڑی واضح ہے۔ اپنے انتخابی وعدوں میں اور باتوں کی طرح صدارتی امیدوار سپریم کورٹ کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کا عزم بھی ظاہر کرتے ہیں۔ چونکہ تعیناتی تاعمر ہوتی ہے اس لیے ان نامزدگیوں کے اثرات کئی دہائیوں تک قائم رہتے ہیں۔
صدر اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے وقت سپریم کورٹ 3 خواتین سمیت 4 لبرل، 3 قدامت پسند اور ایک دائیں بازو کی طرف مائل متوازن جج پر مشتمل تھی، جبکہ قدامت پسند جج جسٹس اینٹوئن اسکیلیا (Antonin Scalia)کے انتقال کی وجہ سے ایک نشست خالی تھی۔ فروری 2016ء میں جب جسٹس اسکیلیا کا انتقال ہوا تو سابق صدر اوباما نے میرک گارلینڈ (Merrick Garland) کو ان کی جگہ نامزد کیا، لیکن سینیٹ کے قائدِ ایوان مچ میکونل نے مؤقف اختیار کیا کہ 7 ماہ بعد صدر اوباما کی آٹھ سالہ مدتِ صدارت پوری ہونے کو ہے لہٰذا نامزدگی نئے صدر کے انتخابات تک ملتوی کردی جائے۔ سینیٹ میں برتری کے زور پر ری پبلکن پارٹی نے مسٹر گارلینڈ کی نامزدگی پر ایوان کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سامنے معاملہ پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اُس وقت دونوں جماعتیں انتخابی مہم میں الجھی ہوئی تھیں، لہٰذا معاملہ ٹل گیا اور صدر ٹرمپ ملک کے صدر بن گئے۔ حلف اٹھاتے ہی انھوں نے قدامت پسند جسٹس نیل گورسچ (Neil Gorsuch)کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کردیا۔ مسٹر گورسچ کے انتہاپسندانہ قدامت پسند رویّے کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی۔ ضابطے کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی توثیق کے لیے 60 ووٹ درکار تھے جبکہ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے پاس صرف 52 نشستیں تھیں۔ ری پبلکن پارٹی نے ایک قرارداد کے ذریعے اسے سادہ اکثریت یعنی 51 میں تبدیل کردیا۔ اکثریت کے بل پر ضابطہ تبدیل کردینے کا عمل امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں Nuclear option کہلاتا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی پر جوہری بم گرانے کے بعد جسٹس گورسچ کی 45 کے مقابلے میں 54 ووٹوں سے توثیق کرا لی گئی۔ جسٹس گورسچ کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسند اور لبرل 4۔4 سے برابر ہوگئے، جبکہ جسٹس انتھونی کینیڈی دائیں بازو کی طرف مائل معتدل سمجھے جاتے تھے، یعنی لبرل اور قدامت پسند معرکے میں جسٹس کینیڈی کے پاس فیصلہ کن طاقت یا Swing تھا۔ مسلمانوں پر پابندی کے معاملے میں جسٹس کینیڈی نے صدارتی آرڈی ننس کے حق میں فیصلہ دے کر امتیازی سلوک اور مذہبی تعصب پر مبنی صدراتی آرڈی ننس جائز قرار دے دیا تھا۔
چند ماہ پہلے ان 82 سالہ جسٹس انتھونی کینیڈی نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس خالی اسامی کو پُر کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے 53 سالہ جسٹس بریٹ کیوانا (Brett Kavanaugh) کو نامزد کیا جو انتہائی مذہبی اور نظریات کے اعتبار سے قدامت پسند ہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس کیوانا نے کہا کہ ’’میرے لیے ہر اتوار کو چرچ جانا ایسا ہی ضروری ہے جیسے صبح اٹھ کر دانت برش کرنا‘‘۔ ججوں کی توثیق کے لیے سینیٹ میں رائے شماری سے پہلے مجلسِ قائمہ برائے انصاف میں امیدوار کے کردار اور صلاحیت کو کھنگالا جاتا ہے۔ 21 رکنی مجلس قائمہ میں چیئرمین سمیت اکثریتی پارٹی کی11 اور حزبِ اختلاف کی 10 نشستیں ہیں۔
ضابطے کے مطابق رائے شماری سے پہلے سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے انصاف میں معمول کے مطابق سماعت جاری تھی کہ 16 ستمبر کو جامعہ پالوالٹو (Palo Alto) کیلی فورنیا میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹین بلیسی فورڈ (Christine Blasey Ford) نے الزام لگایا کہ ہائی اسکول کی ایک پارٹی کے دوران نشے میں دھت جسٹس کیوانا نے ان پر مجرمانہ حملے کی کوشش کی تھی۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحبہ کی عمر 17 سال تھی جبکہ جسٹس کیوانا 19 برس کے تھے۔ 34 برس پہلے ہونے والے اس واقعے کا پروفیسر صاحبہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بلکہ انھیں مقام اور تاریخ بھی یاد نہیں۔ اس حساس معاملے پر بحث و مباحثے کے دوران کچھ دلچسپ اعدادوشمار سامنے آئے ہیں جس کے مطابق امریکہ میں ایک تہائی خواتین یعنی ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں مجرمانہ حملے یا جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہے۔ مجرمانہ حملوں کے 90 فیصد واقعات شرم اور خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ نفسیاتی تحقیقات کے مطابق ان حملوں کا شکار خواتین کو شدید ذہنی صدمے اور دہشت کی وجہ سے واقعے کی تفصیلات یاد نہیں رہتی۔
ڈاکٹر فورڈ کا بیان اخبار میں شائع ہونے سے پہلے کمیٹی کی ڈیموکریٹک رکن سینیٹر ڈائن فینسٹائن نے یہ تفصیلات ایک خط کی صورت میں کمیٹی کے سربراہ کو پیش کردیں، جس پر سینیٹ کی مجلس قائمہ نے انھیں سماعت کے لیے طلب کرلیا۔ محترمہ کے قریبی حلقوں نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر فورڈ اپنے اس راز کے افشا کے بعد سے سخت دبائو میں تھیں اور انھیں مبینہ طور پر موت کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ تاہم وہ اپنے وکلا کے اصرار پر سینیٹ کے سامنے پیش ہوگئیں۔ سماعت کے دوران ان کا چہرہ شرم سے جھکا ہوا تھا اور انھوں نے گلوگیر آواز میں داستانِ الم بیان کی۔ اتفاق سے مجلس قائمہ میں ری پبلکن پارٹی کے تمام 11 ارکان مرد ہیں اس لیے سوال و جواب اور وضاحت کے لیے ایک خاتون مستغیث یا Prosecutor کا اہتمام کیا گیا۔ آٹھ گھنٹے سے زیادہ دیر جاری رہنے والی یہ کارروائی ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تمام مصروفیات معطل کرکے پوری کارروائی براہِ راست سنی۔ کارروائی اس قدر واضح اور بے باک تھی کہ سننے والوں کو بھی پسینے آرہے تھے۔ معلوم نہیں بیچاری ڈاکٹر فورڈ نے اسے کیسے برداشت کیا۔ تاہم ڈاکٹر صاحبہ کو اس حملے کا دن، تاریخ اور مقام ٹھیک سے یاد نہ تھا۔ وہ صرف اتنا بتاسکیں کہ جسٹس کیوانا کے ساتھ اُن کا ایک ساتھی بھی تھا جس کا نام انھوں نے مارک جج بتایا۔ اس کے علاوہ انھیں اور کچھ یاد نہ تھا اور وہ خاتون پراسیکیوٹر کے سوالات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکیں۔ اکثر سوال پر وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتیں ’’مجھے کچھ یاد نہیں‘‘۔ اس دوران ہزاروں خواتین نے ڈاکٹر فورڈ کے حق میں سینیٹ کے سامنے مظاہرہ کیا، بہت سی خواتین اس ہال میں گھس آئیں جہاں سماعت ہورہی تھی۔ سماعت کے دوران نعرے لگانے والی درجنوں خواتین کو گرفتار بھی کیا گیا۔
ڈاکٹر فورڈ کے بیان کے بعد جسٹس کیوانا کو صفائی کا موقع دیا گیا۔ جسٹس صاحب کا جوابی بیان جذبات سے بھرپور تھا۔ انھوں نے الزامات کی اس مہم کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کردارکشی کی سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ انھوں نے نام لے کر کہا کہ ملک کے بائیں بازو نے (ہلیری) کلنٹن کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کردارکشی کا طوفان اٹھایا ہے جس پر ڈیموکریٹس نے بھاری رقم خرچ کی ہے۔ جج صاحب کی آواز بھرّائی ہوئی تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے، وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ اس شرمناک الزام کے بعد وہ اپنی بیٹیوں سے نظر نہیں ملا سکتے۔ انھوں نے ایک ایک الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ جوانی میں ان کی بہت سی خواتین سے دوستی رہی ہے اور لڑکیوں سے دوستی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی اپنی کوئی بہن نہ تھی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ لڑکیوں کو اپنی بہن سمجھتے تھے، لہٰذا ایسے شرمناک فعل کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جسٹس صاحب نے ڈاکٹر فورڈ سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کو جھوٹی نہیں سمجھتے اور انھیں یقین ہے کہ کم عمری میں انھیں مجرمانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن وہ وحشی میں نہیں یقیناً کوئی اور تھا۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ جوانی میں اور اب بھی شراب کے شوقین ہیں اور کبھی کبھی زیادہ بھی پی لیتے ہیں۔ جب پراسیکیوٹر نے پوچھا کہ کیا کبھی وہ پی کر بہکے بھی ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا ’’سرور میں تو آجاتا ہوں لیکن کبھی ٹن نہیں ہوا‘‘۔ مزے کی بات کہ جامعہ ییل (Yale University) میں ان کی ایک اور ہم جماعت محترمہ ڈیبرا رامیریز (Deborah Ramirez)نے الزام لگایا کہ جج کیوانا زمانۂ طالب علمی میں بلانوشی کا شکار تھے اور نشے میں آپے سے بلکہ بسا اوقات جامے سے بھی باہر ہوجاتے تھے۔ ایسا ہی انکشاف دورِ طالب علمی میں ان کی ایک اور واقف کار محترمہ جولی سویٹنک(Julie Swetnick) نے کیا۔ جولی نے اپنے وکیل کی معرفت اخبارات کو ایک خط میں بتایا کہ نشے میں دھت ہوکر جسٹس صاحب لڑکیوں سے دست درازی اور نازیبا حرکات کیا کرتے تھے۔ تاہم سینیٹ کی کمیٹی نے ان خواتین کو سماعت کے لیے طلب نہیں کیا۔
کمیٹی کے سامنے جسٹس صاحب کی وضاحت کے بعد ری پبلکن ارکان بھی بہت جذباتی ہوگئے اور کمیٹی کے سینئر رکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے اس پوری کارروائی کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس ان غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے جسٹس کیوانا کی نامزدگی کو منسوخ کرانا چاہتے ہیں تاکہ معاملہ وسط مدتی انتخابات تک ملتوی ہوجائے، اور اگر ان انتخابات میں ڈیموکریٹس سینیٹ کی اکثریتی جماعت بن گئے تو پھر یہ اپنی مرضی کا جج لانے کی کوشش کریں گے۔
دوسرے دن مجلس قائمہ کے اجلاس کے لیے آنے والے ری پبلکن سینیٹرز کو مظاہرین نے روک لیا جن میں مجرمانہ حملوں کی متاثرین بھی شامل تھیں۔ چند خواتین نے ری پبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر جیف فلیک کو لفٹ میں گھیر لیا اور ان لڑکیوں نے رو رو کر سینیٹر سے درخواست کی کہ وہ جسٹس کیوانا کی توثیق نہ کریں۔ اس کے بعد جب رائے شماری کے لیے مجلس قائمہ کا اجلاس ہوا تو سینیٹر فلیک نے اس شرط پر حمایت کی کہ سینیٹ میں رائے شماری سے پہلے FBI سے اس پورے واقعے کی تحقیق کرا لی جائے۔ کمیٹی کے سربراہ نے ان کی تجویز کو منظور کرلیا، لیکن یہ شرط لگادی کہ تحقیق ایک ہفتے کے اندر اندر مکمل کرلی جائے۔ جس کے بعد کمیٹی نے 10 کے مقابلے میں 11 ووٹوں سے توثیق کی حمایت کرتے ہوئے سینیٹ میں حتمی رائے شماری کو ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردیا۔
3 اکتوبر کو FBI نے تحقیقاتی رپورٹ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے حوالے کردی، اور سینیٹ کے جملہ 100 ارکان نے جمعہ کا سارا دن اس رپورٹ کے مطالعے میں صرف کیا۔ یہ رپورٹ عوام سے خفیہ رکھی گئی ہے، تاہم سینیٹرز کا کہنا ہے کہ FBI رپورٹ کے مطابق جسٹس صاحب پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف اور خواتین کی انجمنوں نے الزام لگایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تحقیقات کے لیے جو TOR طے کیا وہ بے حد محدود تھا۔ مثال کے طور پر FBI نے مبینہ متاثرہ خواتین کے بیانات بھی قلمبند نہیں کیے۔
FBI رپورٹ آنے پر سینیٹ کی مجلس قائمہ کی طرف سے منظوری کے بعد توثیقی قرارداد سینیٹ میں پیش ہوئی جسے 5 اکتوبر کو 48 کے مقابلے میں 50 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جو منچن (Joe Manchin) نے پارٹی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نامزدگی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ سینیٹر منچن کا تعلق صدر ٹرمپ کے گڑھ مغربی ورجینیا سے ہے اور انھیں نومبر میں انتخابات کا سامنا ہے۔ وہ صدر کے نامزد جج کے خلاف ووٹ ڈال کر اپنے ووٹروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگر وہ مخالفت میں ووٹ ڈال دیتے تو 49۔49 سے معاملہ برابر ہوسکتا تھا۔ اس صورت میں نائب صدر کو اپنا فیصلہ کن ووٹ استعمال کرنا پڑتا۔ سینیٹ سے توثیق کے چند گھنٹوں بعد جسٹس کیوانا نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور یہ سنسنی خیز ڈراما اختتام پذیر ہوگیا۔ اس تقرری کے ساتھ امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کو 4 کے مقابلے میں 5 کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔ شنید ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک لبرل جج جسٹس روتھ بدر گنزبرگ آئندہ سال ریٹائرمنٹ لینے والی ہیں۔ محترمہ کی عمر 85 برس ہے۔ اس صورت میں صدر ٹرمپ ایک اور قدامت پسند جج کو تعینات کرکے سپریم کورٹ میں دائیں بازو کو 6-3 سے ناقابلِ شکست بناسکتے ہیں اور یہ برتری کئی دہائیوں تک برقرار رہے گی۔ اس کامیابی پر صدر ٹرمپ خوشی سے نہال ہیں۔ آج ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جسٹس کیوانا کی توثیق کو ری پبلکن پارٹی کی عظیم الشان کامیابی قراردیا۔
سپریم کورٹ پر قدامت پسندوں کی گرفت سماجی انصاف، منصفانہ امیگریشن، خواتین کے تولیدی حقوق اور لسانی و معاشرتی مساوات کے علَم برداروں کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔ نیل گورسچ کے بعد جسٹس کیوانا کے تقرر سے مذہبی و نسلی اقلیتوں خاص طور سے مسلمان، سیاہ فام اور ہسپانویوں کو اب اپنے حقوق کی پامالی کی صورت میں ملک کی اعلیٰ عدالت سے دادرسی کی کوئی امید نہیں۔ اکثریت کا جبر اب جمہوریت کی تعریف بن گیا ہے۔