ڈبلیو جی اسٹنلے
بچے دل سے ’’وحشی‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ آسانی سے نئے ماحول کے سانچوں میں نہیں ڈھلتے، وہ ہمارے سماج کے آداب و اقدار کو کیا جانیں! ان کو یہ تمام باتیں سیکھنا ہیں اور ہم کو تمام باتیں سکھانا ہیں۔
بچہ اپنے تمام سیکھنے والے اسباق میں ’’کہنا ماننے‘‘ کو بہت مشکل سمجھتا ہے۔ اور دراصل ہے بھی یہ بہت مشکل، لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت ضروری بھی ہے۔ اگر بچہ والدین کی حکم عدولی کرے تو گھر کی تمام چیزیں تتربتر ہوجائیں اور نظام ایسا درہم برہم ہو کہ شاید پھر کبھی سنور نہ سکے۔ اور شاید بچہ بڑھ کر اچھے اور بُرے کی تمیز نہ کرسکے۔
اس کا سارا دارومدار ہم پر ہے کہ ہم بچے کے لیے ’’تعمیل‘‘ کو عذابِ جان بناتے ہیں یا آسان۔ ظاہر ہے کہ ہم تین ہی طریقے استعمال کرسکتے ہیں:
-1 اُسے حکم دیں
-2 پیار سے کہیں
-3 ڈرائیں، سزا دیں
یہ تین سانچے ہیں۔ ہم ان کو جس خوش اسلوبی سے استعمال کریں گے بچہ ویسا ہی بنے گا۔
بچہ ہماری ہی جیسی باتیں کرتا ہے، وہ بہت بڑا نقال ہے۔ ایک مثال لیجیے۔ فرض کیجیے آپ کی بچی ناہید ایک سال کی ہے۔ آپ نے پلیٹ میں اُسے کچھ کھانے کو دیا۔ ناہید نے سوچا کہ اگر وہ پلیٹ کو زمین پر گرادے تو کیا ہوگا؟ اس نے پلیٹ گرانے کے لیے اٹھائی۔ آپ کیا کریں گے؟
کیا چلاّئیں گے… ’’نہیں ناہید ایسا نہ کرنا‘‘ اور اسے دہکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھیں گے،، جیسے اگر اُس نے آپ کے حکم کی تعمیل نہ کی تو آپ اُس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کریں گے؟
یا آپ آہستگی سے اُس کے پاس جائیں گے… ’’ناہید، اب یہ پلیٹ مجھے دے دو‘‘ اور یہ کہتے ہوئے پلیٹ لے کر حفاظت سے رکھ دیں گے؟
اگر آپ چلاّئے تو ناہید ایک لمحے کے لیے آپ کی طرف دیکھے گی، اور پلیٹ کو زمین پر گرادے گی۔ آپ کو غصہ آجائے گا، آپ اس کے تھپڑ رسید کریں گے اور اس طرح گھر کے نظام کو درہم برہم ہونے کا موقع مل جائے گا۔
اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ پہلے سے اس کے ارادوں کو بھانپ لیں اور صلح مندانہ انداز میں اس کو ایسا کرنے سے روکیں۔ اگر آپ نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ لے لی تو ناہید کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ کھانے کے بعد پلیٹ کو کیا کرنا چاہیے۔ پلیٹ لیتے وقت آپ مسکرائیے۔ وہ سمجھے گی کہ آپ اس کے اس رویّے سے خوش ہوتے ہیں۔
بچے آپ کے چھوٹے چھوٹے احکام کو زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں بچے کو یہ سمجھانا ہے کہ اچھا رویہ نہ صرف آپ کو پسندیدہ بناتا ہے بلکہ خود آپ کی زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔ بچے وہ کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے اُن کا یہ خیال ہے کہ ان سے ہم خوش ہوتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ہم یہی ان کے لیے دشوار کردیتے ہیں۔ ہم چلاّتے رہتے ہیں ’’نہیں یہ نہ کرنا، وہ نہ کرنا‘‘۔ اور اس طرح ان کے لیے ایک معمّا پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ نہیں، وہ نہیں تو ان کو کرنا کیا چاہیے۔ آخر وہ کیا کریں جس سے ہم خوش ہوں؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے کہنے پر عمل کریں تو ہم کو براہِ راست اپنی مرضی کا اعلان کرنا چاہیے۔ ’’یہ نہ کرو، وہ نہ کرو‘‘ سے ان کے دماغ کو اُلجھانا نہیں چاہیے۔
آپ بغیر کسی سبب کے بچے سے یہ کہیے: ’’ناہید اس دروازے کے باہر نہ جانا‘‘، ’’ناہید اس جلتی انگیٹھی کو نہ چھونا‘‘ تو ناہید کے دل میں لامحالہ یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوگی کہ اگر وہ اس دروازے کے باہر جائے گی تو کیا ہوگا؟ یا وہ جلتی انگیٹھی کو چھوئے گی تو کیا ہوگا؟ یہ جاننے کی خواہش اُسے آپ کی حکم عدولی کرنے پر اُکسائے گی۔
کیا ہی اچھا ہو کہ جب وہ اس دروازے کی طرف بڑھے تو آپ اس کی انگلی پکڑ کر کسی اور طرف لے جائیں۔ اس کی توجہ کو کسی اور طرف مبذول کردیں۔
بچے ہی کیا، جوان اور بوڑھے بھی اس قسم کے احکام کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے ’’ان پھولوں کو نہ چھوئو‘‘، ’’گھاس پر نہ چلو‘‘، ’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
میرے ہی دل میں ’’ان پھولوں کو نہ چھوئو‘‘ پڑھ کر ان پھولوں کو چھونے، توڑنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یا ’’گھاس پر نہ چلو‘‘ پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ روش کو چھوڑ کر گھاس ہی پر چلوں۔ بچے تو اور بھی حساس ہوتے ہیں، وہ ہمارے احکامات کی اندھی تقلید کیوں کریں!
دو تین سال کا بچہ فطری طور پر ہمارے حکم کے خلاف بغاوت کرتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے ماحول میں آزادی سے رہنا چاہتا ہے۔ اس زمانے میں ہم کو ہٹ دھرمی سے کام لے کر اُسے مجبور نہ کرنا چاہیے کہ وہ ہمارا ہر حکم مانے۔ کیوں کہ اس طرح آپ اسے ہمیشہ اپنا، دوسروں کا محتاج رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی ہر جا و بے جا خواہش کو پورا نہیں کرنا چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ایسے مواقع ہی نہ پیدا ہوں کہ ہماری خواہشات اُس کی خواہشات سے ٹکرا جائیں اور وہ ایک کشمکش میں پڑ جائے کہ اسے کیا کرنا چاہیے! آپ کی مرضی کا غلام ہوجانا چاہیے یا خودسری کرنا چاہیے؟
پانچ سال کے بچے آپ کے تعاون کو پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو اس بات کا موقع نہ دیجیے کہ وہ بالکل ہی اپنی مرضی پر چلیں۔ مثلاً ناہید سے پوچھیے ’’بیٹی کھانا کھائو گی؟‘‘… ممکن ہے وہ جواب دے ’’نہیں‘‘۔ اور پھر جھگڑا کھڑا ہوجائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ روزمرہ زندگی کی تمام ضروریات کو اس طرح پورا کیجیے… ’’آئو ناہید کھانے کا وقت ہوگیا، کھانا کھائیں‘‘ اور ناہید کا ہاتھ پکڑ کر دسترخوان پر بٹھادیجیے۔ اُس کو اس بات کا موقع ہی نہ دیجیے کہ وہ یہ سوچے کہ جو کچھ وہ کررہی ہے وہ کرنا بھی چاہتی ہے، یا زبردستی یہ کام اس سے کرایا جارہا ہے۔
بچہ ہر چیز کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اُس کے سوالات پر بگڑیے نہیں اور غلط باتیں نہ بتائیے۔ صاف صاف اور صحیح صحیح اس کے سوالات کا جواب دیجیے۔
بچے محکوم ہونا نہیں چاہتے۔ لیکن ان کو ہماری راہبری، ہماری شفقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اُن کے لیے ’’تعمیلِ حکم‘‘ آسان بنادیں تو ہم بآسانی ان کی پرورش اپنی حسبِ خواہش کرسکتے ہیں اور اس طرح ہم اُن میں یہ خیال بھی پیدا نہ ہونے دیں گے کہ ان کی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے، یا ان کو ’’غلام‘‘ بنایا جارہا ہے۔