معیاری اسلامی حکومت,خلافتِ راشدہ

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب
نام کتاب: معیاری اسلامی حکومت (خلافتِ راشدہ)
مصنف: ابو محمد امام الدین رام نگری
صفحات: 160، قیمت 180روپے
ناشر: البدر پبلی کیشنز ،فرسٹ فلور، ہادیہ حلیمہ سینٹر، اردو بازار لاہور

مولانا ابومحمد امام الدین رام نگری رحمۃ اللہ علیہ زندہ جنتی تھے۔ اسلام کے سچے خادم۔ ان کی بہت سی کتب اسلام کی وضاحت میں شائع شدہ ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’معیاری اسلامی حکومت‘‘ میں انہوں نے خلافتِ راشدہ کی مثالی حکومت کا دل فروز حسین و جمیل تذکرہ اپنی خوبصورت نثر میں تحریر کیا ہے، جو ہمیشہ مسلمانوں کے سامنے رول ماڈل کی حیثیت سے قائم و دائم رہتا ہے:
’’آج کل ہر ایسی حکومت کو جس کے والیان و امراء اور حکمراں مسلمان ہوں، اسلامی حکومت کہتے ہیں، چاہے اس حکومت کے آئین و ضوابط اسلام کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہوں، اور ان کے سربراہوں اور کارفرماؤں کی زندگیاں اسلام کے سراسر منافی ہی کیوں نہ ہوں، حالاں کہ ایسی حکومت کو اسلامی کہنا بالکل غلط ہے، صحیح معنوں میں اسلامی حکومت وہ ہوسکتی ہے جس کا دستور و آئین قرآن و حدیث پر مبنی ہو، اور جس کے کارفرماؤں اور حکمرانوں کی زندگیاں اسلامی اعمال و اخلاق کا نمونہ ہوں، لیکن افسوس کہ موجودہ دور میں عام طور پر ایسی ہی مسلم حکومتیں ہیں جو غیر اسلامی دستور و آئین پر قائم ہیں، اور جن کے سربراہوں اور کارکنوں کی زندگیاں اسلامی اوامر و احکام کے خلاف ہیں، ان حکومتوں پر چوں کہ اسلام کی مہر لگی ہوئی ہے اور ان کے ہر طرزعمل کو دنیا اسلامی تعلیمات کا نتیجہ سمجھتی ہے، اس لیے ان حکومتوں سے اسلام کے اعتماد و وقار کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ بعض اسلامی تقریبات کے مواقع پر مسلمان حکومتوں کے فرماں روا اور سربراہِ کار اسلام کے محاسن و برکات پر تقریریں کردیا کرتے ہیں اور علماء اہلِ قلم اسلام کے فضائل و محامد پر کتابیں لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن دنیا قول کو نہیں عمل کو دیکھتی ہے۔ جب مسلمان اسلام پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام کے پابند نہ ہوں تو دنیا اس بات پر کیونکر یقین کرسکتی ہے کہ اسلام کوئی مکمل نظام زندگی اور دستورِ حیات بھی رکھتا ہے اور وہ زندگی کے دوسرے نظاموں سے فائق اور برتر بھی ہے؟ مسلمان حکومتوں کے حکمرانوں اور سربراہوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے حدود و اختیار میں اسلامی نظام قائم کرتے، تاکہ دنیا عملی صورت میں اسلامی نظام کے محاسن و برکات کا مشاہدہ کرسکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ دنیا کی قومیں جو باطل نظاموں کو سرمایۂ حیات سمجھ کر ان کے لیے مرمٹ رہی ہیں، ایک صالح ترین نظامِ زندگی کا خیر مقدم نہ کرتیں۔ لیکن انہیں خبر تک نہیں ہے کہ ان نظاموں کے علاوہ بھی دنیا میں انسانی زندگی کا کوئی نظام ہے‘‘۔
’’میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے سوانح حیات پیش کرکے دکھاؤں گا کہ ان کی اور عوام کی زندگیوں میں کسی طرح کا فرق و تفاوت نہ تھا۔ وہ اپنے مکان، لباس، خوراک اور ہر اعتبار سے عوام کی سی زندگی گزارتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی حالت خاندانوں کے اُن بڑوں کی سی تھی جو اپنے متعلقین کو اپنے سے اچھا کھلاتے ہیں اور خود روکھے سوکھے سے کام چلا لیتے ہیں۔ ان کا جسم ڈھکنے کے لیے خود پھٹے پرانے کپڑے پہنتے ہیں اور ان کو آرام و راحت پہنچانے کے لیے خود تکلیف و مصیبت برداشت کرتے ہیں۔
جمہوری حکومت کا دستور نہایت دلکش اور جاذبِِ توجہ ہوتا ہے، تحریر کی حد تک عوام کو پورے حقوق حاصل ہوتے ہیں، لیکن ان حقوق سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی حالات کی مساعدت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام بہرحال عوام ہوتے ہیں، خواص کے مقابلے میں ان کو وسائل و ذرائع کہاں میسر؟ ووٹ کے مالک کسان، مزدور اور عوام سب ہوتے ہیں لیکن ان کے ووٹوں سے منصب اور اختیار ان کو نہیں ملتا، ان کا کام ووٹ لینا نہیں صرف ووٹ دینا ہوتا ہے، اپنے ووٹوں سے وہ حکومت نہیں کرتے۔۔۔ حکومت کرتے ہیں ان کے لیڈر، لیڈروں کے رفقاء، سرمایہ دار اور عوام میں رسوخ و اثر رکھنے والے۔ شاہی حکومت ہو یا جمہوری، حکومت حکومت ہوتی ہے، اور حکومت کا مزاج فطرتاً خودسر اور خودپسند ہوتا ہے، جمہوری حکومت بھی خودسر اور خودپسند بادشاہی کی جگہ لے لیتی ہے، من مانے قانون بناتی اور عوام پر حکومت کرتی ہے۔ شاہی حکومت کی رعایا بادشاہ پر تنقید نہیں کرسکتی اور اس کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ جمہوری حکومت پر رعایا تنقید بھی کرتی ہے اور جمہوری حکومت بدلتی بھی رہتی ہے، لیکن جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے وہ حکومت بادشاہ ہی کی طرح حکومت کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ شاہی حکومت میں ایک بادشاہ ہوتا ہے اور جمہوری حکومت میں بادشاہوں کی ایک اچھی خاصی جماعت ہوتی ہے‘‘۔
’’حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی معتدل اور متوازن نظام حیات ہے جس میں انسان کی شخصی اور اجتماعی ہر قسم کی آزادی، ترقی اور فلاح کی ضمانت و کفالت موجود ہے تو وہ اسلامی نظام ہے۔ اس نظام نے جو معاشرہ، جو حکمران اور جو والیان و امراء پیدا کیے وہ انسانیت کے لیے آج تک موجب افتخار اور وجۂ نازش ہیں۔ کسی حکومت کے حکمراں اور کارفرما ان کی بے غرضی اور بے نفسی، ان کی صداقت و دیانت، ان کے ایثار و اخلاص، ان کی فرض شناسی اور ان کی خدمتِ خلق کی مثال پیش نہ کرسکے۔
کہا جاتا ہے کہ 14 سو برس کا اسلام علم و حکمت اور ایجاد و اختراع کے اس دور میں مفید و کارآمد نہیں ہوسکتا۔ ایسا کہنے والے اسلام کی حقیقت اور انسان کی فطرت سے بے خبری کا ثبوت دیتے ہیں۔ علم و اکتشاف اور تحقیق و ایجاد سے انسانیت کے بناؤ اور بگاڑ کا کیا تعلق؟ اس کا تعلق تو اخلاق و معاملات کی اچھائی اور برائی سے ہے۔ اگر انسان کے اخلاق و معاملات میں اچھائی ہو تو ایجادات و اختراعات بھی اس کے لیے باعثِ صلاح و فلاح ہوسکتی ہیں، اور اگر حالت برعکس ہو تو ایجادات و اختراعات اس کے لیے اور بھی ہلاکت و تباہی کا موجب بن جاتی ہیں۔ اگر انسانی کارواں پا پیادہ تباہی و بربادی کے غار کی طرف جارہا ہو تو اسے تباہ و برباد ہونے میں کچھ دیر بھی لگ سکتی ہے۔۔۔ لیکن کاروں، ٹرین یا ہوائی جہازوں پر اپنا سفر طے کررہا ہو تو ظاہر ہے کہ وہ کس قدر جلد ہلاکت و تباہی کے غار میں جاگرے گا۔ محض چمکیلی اصطلاحات، سطحی دلائل اور بے بنیاد اندازِ فکر کا سہارا لے کر انسانی فطرت کے تقاضوں اور ازلی و ابدی حقیقتوں کو قدیم و جدید میں تقسیم کرکے ہر قدیم کو رد اور ہر جدید کو قبول کرلینا بے دانش اور بے شعور لوگوں کے نزدیک کوئی فیشن ایبل بات ہو تو ہو، اہلِ فہم و بصیرت اور علم و شعور کے حاملین کبھی اس پست و ادنیٰ ذہنیت کو معقول نہیں سمجھ سکتے کہ تغیر پذیر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ انسان کی بنیادی فطرت و جبلت اور کائنات کی دائمی حقیقتوں اور سچائیوں کو بھی منقلب مان لیا جائے۔
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم!
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان نے ریل، تار، موٹر، ریڈیو، ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور چاند کے گرد گردش کرنے والے مصنوعی سیارے بنائے ہیں تو اس سے انسان کی ساخت اور اس کی فطرت میں کون سا فرق واقع ہوگیا ہے؟ اس کی فطرت و جبلت جو پہلے تھی وہی اب بھی ہے۔ وہ پہلے بھی معاشی، معاشرتی اور تمدنی ضروریات و لوازم کا محتاج تھا اور اب بھی محتاج ہے۔ اسے جس طرح پہلے رہنے کے لیے مکان، کھانے کے لیے غذا اور پہننے کے لیے کپڑے کی ضرورت تھی اب بھی ضرورت ہے۔ وہ جس طرح پہلے باہمی تعلقات و روابط پر مجبور تھا اسی طرح اب بھی مجبور ہے۔
جدید علم و حکمت اور تحقیق و ایجاد نے اس کے اخلاق و معاملات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، وہ پہلے بھی خودغرض اور نفس پرست تھا، آج بھی خودغرض اور نفس پرست ہے، وہ پہلے بھی بددیانت اور خائن تھا، آج بھی اس میں یہ بداخلاقی موجود ہے۔ وہ پہلے بھی ظالم و غاصب تھا اور آج بھی ظلم و غصب سے کام لے رہا ہے۔ وہ پہلے بھی کمزوروں کو محکوم اور غلام بنالیاکرتا تھا اور اب بھی یہی کررہا ہے۔ وہ پہلے بھی اقتدار اور غلبے کا دیوانہ تھا اور اب بھی اسی دیوانگی میں مبتلا ہے۔ غرض اس کے اخلاق و معاملات میں جتنے مفاسد پہلے موجود تھے وہ دورِ حاضر میں پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسلام کا اصل موضوع انسان کو انسانیت کی صاف اور سیدھی شاہراہ پر چلانا اور اس کے اخلاق و معاملات کو درست کرنا ہے، اس لیے جس طرح چودہ سو سال پہلے دنیا کو اسلام کی ضرورت تھی اسی طرح آج بھی ضرورت ہے، اور جس طرح وہ 14 سو سال پہلے عالم انسانیت کے لیے موجبِ صلاح و فلاح تھا اسی طرح آج بھی خیر و فلاح کا باعث ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج سے 14 سو سال پہلے دنیا کو جتنی اسلام کی ضرورت تھی آج اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ آج کا انسان پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ چکا ہے۔ موجودہ وقت میں اس لیے بھی دنیا کو اسلام کی ضرورت ہے کہ اس کے پاس اسلام کے سوا اپنی حقیقی فلاح وبہبود کا دوسرا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ انسانی دماغ کا کافی سے زیادہ تجربہ ہوچکا۔‘‘
’’ہم خلفائے راشدین اور ان کے والیان و امراء کے اخلاق و کردار کو اس لیے پیش کررہے ہیں کہ دنیا کی قومیں ان کو دیکھ کر اسلام کی سیرت سازی اور اس کی تعلیمات کی خوبیوں کا اندازہ کرسکیں، اور اسلام کی افادیت پر خود ان کا دل گواہی دے تو وہ سوچ سکیں کہ اسلامی نظام زندگی کا قیام و اجرا انسانیت کے لیے کس قدر خیر و فلاح کا موجب ہوسکتا ہے۔ اس سے ہماری یہ غرض بھی ہے کہ دنیا کی قوموں کے لیڈر اور سربراہ کار جن کے بڑے بڑے دعوے ہیں، خلفائے راشدین اور ان کے امراء کی سیرت و کردار کے آئینے میں اپنے چہرے دیکھیں اور سوچیں کہ وہ اپنے دعووں میں کہاں تک صادق ہیں؟ دنیا کو ایسے ہی نظام کی ضرورت ہے جو ایسے حکمرانوں اور کارفرماؤں کو جنم دے سکے۔ اس کے بغیر انسانیت کی خزاں کبھی بہار میں بدل نہیں سکتی، اور نہ اس کی مسرت و شادمانی اور فلاح و کامرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ حقیقت پسندی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا جائے، ورنہ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ اپنی ہی چیز سے بیگانگی برتی جائے، اور اس کے فیوض و برکات سے خود کو محروم رکھا جائے۔ ان مسلمان قوموں پر افسوس ہے جن کو خدا نے دنیا کے مختار خطوں میں حکومت و اقتدار کی نعمت سے نوازا ہے، ان کے لیے اس سے زیادہ بدبختی کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اسلام کا نام لیتے ہوئے جمہوریت اور اشتراکیت کی غلامی میں اپنے لیے فخر محسوس کریں اور ان دو محاذوں پر تقسیم ہوکر طاغوت کی راہ میں لڑیں۔ ان کا کام اسلامی نظام کا قائم و برپا کرنا، اس کے لیے مرنا جینا اور اقوام عالم کے لیڈروں اور اربابِ حکومت و اقتدار کے سامنے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، ان کے والیان و امراء اور حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز جیسے فرماں روایانِِ اسلام کی حکومت اور ان کی سیرت و کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے۔‘‘
مولانا ابومحمد امام الدین اسلامی نظریۂ حکومت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرتا کہ اس کا ایک حصہ اس کے تحت ہو اور دوسرا اس سے آزاد۔ اسلام انسانی زندگی کا مکمل نظام ہے۔ اس لیے عبادت، معیشت، معاشرت، تمدن و ثقافت، سیاست و حکومت سب کچھ اسلام کے دائرۂ عمل میں داخل ہے۔
اسلام کے اس نظریۂ زندگی اور نظریۂ سیاست و حکومت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اس کائنات و موجودات کا پیدا کرنے والا خدا ہے، اس لیے وہی ان سب کا مالک و حاکم بھی ہے۔ خدا نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر پیدا کیا ہے۔
خدا علیم و حکیم اور دانائے کُل ہے، اگر وہ انسان کو اس منصبِ عظمیٰ کے ساتھ پیدا کرکے دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے اپنی طرف سے قوانین و احکام نہ بھیجتا اور منصبِ خلافت و نیابت کے فرائض کی انجام دہی کو ان کے علم و فہم اور صوابدید پر چھوڑ دیتا تو یہ خدا کی حکمت و دانش کے سراسر خلاف ہوتا۔ پھر تو انسان وہی کرتا جو وہ خدا کی ہستی کا انکار کرکے یا اس کے قوانین و احکام سے بے نیاز ہوکر آج کررہا ہے۔‘‘
اس وقت سامراج اور اس کے سہولت کاروں نے عالم اسلام پر بھرپور حملہ کیا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے ایمان اور ایقان کو تازہ کرتے رہیں۔ زیر نظر کتاب ان شاء اللہ اس میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ اگر ممکن ہوسکے تو تمام ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی، بیوروکریٹس اور سیاسی کارکنوں کو یہ کتاب پہنچائی جائے۔ تمام اہلِ اسلام کو یہ کتاب زیر مطالعہ رکھنی چاہیے۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے۔

Back to Conversion Tool