سینیٹر سراج الحق: افغان امن کونسل کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے گفتگو

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے افغان حکومت کی افغان امن کونسل کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم بین الافغانی امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہماری حمایت کسی گروہ کے ساتھ نہیں بلکہ افغان قوم کے ساتھ ہے۔ افغان وفد کی قیادت مولوی عطاء اللہ لودین نے کی، اور اس کے ارکان میں مولوی عنایت اللہ، عطاء الرحمان سلیم، مولوی عبدالحمید چکوئی، مولوی محمد قاسم حلیمی و دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر افغان سفارت خانہ کے قائم مقام سفیر زردشت الشمس اور ان کے معاونین بھی موجود تھے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے سینیٹر سراج الحق کے ساتھ پروفیسر محمد ابراہیم خان، میاں محمد اسلم، شبیر احمد خان اور آصف لقمان قاضی شامل تھے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ جماعت اسلامی نے ہر دور میں افغانستان کی آزادی، استحکام، امن اور خوشحالی کی حمایت کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے قیام کے ساتھ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن اور ترقی وابستہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں جنگ صرف افغان قوم اور دینِ اسلام کے دشمنوں کو فائدہ پہنچائے گی، اس لیے تمام افغان گروہوں کو امن کی خاطر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور افغان مسئلے کا ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو تمام گروہوں کے نزدیک مبنی بر انصاف ہو اور افغان قوم کی امنگوں کے مطابق ہو۔ افغان قوم متحد ہوکر بیرونی قابضین کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امن کے لیے افغان امن کونسل کی کاوشوں کی تحسین کی اور وفد کو جماعت اسلامی کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

ترک صدر ایردوان کا جرمنی میں یورپ کی بڑی مساجد میں سے ایک کا افتتاح

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے جرمنی کے شہر کلون میں یورپ کی سب سے بڑی مسجدوں میں شمار ہونے والی مسجد کی رونمائی کرکے اپنے دورے کا اختتام کیا۔ اس موقع پر ترکی کے صدر نے کہا کہ یہ مسجد امن کی نشانی ہے، اور ساتھ ساتھ انھوں نے جرمن حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے دباؤ اور مظاہروں کے باوجود اس مسجد کی تعمیر جاری رکھی۔ کلون شہر کی مرکزی مسجد یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ دورے میں جمعہ کو سرکاری ضیافت کے دوران ترک صدر ایردوان نے اپنے پہلے سے تیار شدہ بیان سے ہٹ کر گفتگو کی جس میں انھوں نے جرمنی پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ ترک صدر ایردوان نے جرمنی کی راہنما انجیلا مرکل پر زور دیا کہ وہ اُن ترک افراد کو ملک بدر کرکے ترکی بھیجیں جو موجودہ ترک حکومت کے مخالف ہیں۔

انڈونیشیا زلزلہ: ہلاکتیں 832 ہوگئیں

انڈونیشیا میں زلزلے سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں، خدشہ ہے کہ جمعہ کو آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد انڈونیشیا کے شہر پالو میں متعدد افراد ابھی تک عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق شاپنگ مال کے ملبے کے نیچے سے موبائل فون کے سگنلز کی نشان دہی ہوئی ہے اور رویا رویا ہوٹل کے نیچے سے لوگوں کو چیختے پکارتے سنا گیا ہے۔ ایک رضاکار طالب بوانو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہوٹل کے ملبے سے تین لوگوں کو نکالا گیا ہے اور وہاں 50 سے زائد لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’ہم نے مختلف جگہوں پر ایک بچے سمیت لوگوں کی چیخ پکار سنی ہے۔ وہ مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ ہم نے ان کی ہمت بندھائی تاکہ ان کے حوصلے برقرار رہیں، کیوں کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہیں۔ بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈکراس کے مطابق اس قدرتی آفت سے کم از کم 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس آفت سے ہونے والا اصل نقصان ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں بدستور ہلکے اور تیز جھٹکے محسوس ہورہے ہیں اور پورے ملک میں خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ انڈونیشیا کے نائب صدر یوسف کالا نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ صدر جوکو ودودو پالو شہر میں ہیں اور انھوں نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے جس میں تالیسی کا سیاحتی ساحلی علاقہ بھی شامل ہے۔ یہ ساحلِ سمندر جو سیاحوں میں بہت مقبول ہے، شدید ترین متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ زلزلوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ 7.5 شدت کا زلزلہ زمین کی سطح سے صرف دس کلومیٹر نیچے آیا۔

اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر نظرثانی

برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چین نے سی پیک کے تحت صرف اُن منصوبوں پر نظرثانی کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے جن پر تاحال کام شروع نہیں ہوا، جبکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اُن منصوبوں کو آگے بڑھانے پر قائم ہیں جن پر کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ نئی حکومت اقتصادی راہداری کے تمام منصوبوں پر نظرثانی کی خواہش مند تھی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ نہ صرف ان منصوبوں کی شرائط غلط طور پرطے کی گئی تھیں بلکہ یہ بہت مہنگے ہیں اور پاکستان سے کہیں زیادہ چین کے مفاد میں ہیں۔ تین سرکاری اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ چین صرف اُن منصوبوں پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہے جو ابھی شروع نہیں کیے گئے۔ رائٹرز نے اس سلسلے میں چینی وزارتِ خارجہ کو سوالات ارسال کیے تو چینی وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ چین اور پاکستان کی حکومتیں ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں جن پر کام مکمل کیا جا چکا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ نارمل انداز میں کام کرتے رہیں۔ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ چینی سرمایہ کاری کو آگے بڑھانے کے وعدے پر قائم ہیں، تاہم وہ ان کی لاگت کو مناسب حد تک کم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبوں کو حکومت کی طرف سے سماجی ترقی کے لیے قوم سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ڈھالا جائے۔

سومباتھ سے آمنہ مسعود جنجوعہ تک

انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنے والے کارکن سومباتھ کوئی سیاسی کارکن نہیں تھا، بلکہ ایک سماجی کارکن تھا اور اس نے ایشیا یورپ پیپلز فورم کے ساتھ مل کر 2012ء میں لائوس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ یہ فورم ایشیا اور یورپ کے ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکنوں کی آواز ہے۔ ترقی پسندوں کی طرف سے لائوس کی کمیونسٹ حکومت پر تنقید برداشت نہ کی گئی اور سومباتھ کو غائب کردیا گیا۔ سومباتھ کی اہلیہ شوئی نِگ کی گفتگو سننے والے حاضرین میں میرے علاوہ سینیٹر مشاہد حسین سید بھی تھے، جنہیں فاروق طارق نے اے ای پی ایف کی اس کانفرنس میں مدعو کرکے بین الاقوامی باغیوں کی فہرست میں شامل کرا دیا تھا۔ شوئی نِگ کی تقریر کے دوران بار بار تالیاں بجانے والوں میں شہلا رشید بھی نمایاں تھی۔ اب ذرا شہلا کے بارے میں بھی سن لیجیے۔شہلا رشید کا تعلق سری نگر سے ہے، وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کی اسٹوڈنٹس یونین کی سابقہ نائب صدر ہے اور آج کل پی ایچ ڈی کررہی ہے۔ اے ای پی ایف کی اس کانفرنس میں اس نے بڑے فخر سے اپنا تعارف ایک ایسی کشمیری مسلمان عورت کے طور پر کرایا جسے بی جے پی کے حامیوں نے غدار قرار دیا، کیونکہ شہلا نے کشمیری حریت پسند افضل گرو کی پھانسی کے خلاف اپنی یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرے منظم کیے تھے۔ شہلا نے اس کانفرنس میں صاف صاف کہا کہ افضل گرو پر دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا تھا، افضل گرو کو پھانسی پر لٹکانا سراسر ناانصافی تھی، لہٰذا ہم نے ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ لائوس کے سماجی کارکن سومباتھ کی جبری گمشدگی کی کہانی شہلا رشید کے لیے بھی نئی نہیں تھی، کیونکہ کشمیر میں ایسی ایک نہیں ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ جب شوئی نِگ اپنے خاوند کے بارے میں گفتگو کررہی تھی تو کانفرنس کے اسٹیج پر ایک کرسی خالی رکھی گئی تھی۔ یہ خالی کرسی ہمیں سومباتھ کی یاد دلا رہی تھی۔ شوئی نِگ نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج اس کرسی پر موجود نہیں لیکن آپ کو اسے یاد رکھنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ سومباتھ جیسے لوگوں کو اکثر اوقات ریاست اغوا کرتی ہے، کیونکہ کسی کو طویل عرصے تک غائب رکھنا صرف ریاست کے بس کا کام ہے۔ اپنے لوگوں کو غائب کرکے ریاست اپنی طاقت کا نہیں بلکہ کمزوری کا اعتراف کرتی ہے، کیونکہ جو ریاست عدالت میں کسی کا جرم ثابت نہ کرسکے وہ نااہل ہوتی ہے، اور نااہل لوگوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے کیونکہ وہ اندر سے عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ شوئی نِگ نے اپنی تقریر ختم کی تو گینٹ یونیورسٹی کے کنونشن سینٹر میں موجود سیکڑوں شرکاء نے کئی منٹ تک کھڑے ہوکر اس کے لیے تالیاں بجائیں۔
تقریر ختم کرکے شوئی نِگ میرے پاس آئی اور پوچھا کہ کیا تم آمنہ مسعود جنجوعہ کو جانتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ کی تقریر سنتے ہوئے میں آمنہ مسعود جنجوعہ کو یاد کررہا تھا، ہم اپنی اس مظلوم بہن کی کہانی کئی سال سے بار بار سنتے ہیں لیکن اسے انصاف نہیں دلاسکتے۔ شوئی نِگ نے بڑے فخر سے کہا کہ میں آمنہ سے مل چکی ہوں، وہ میری بہن ہے اور میں جہاں بھی جاتی ہوں آمنہ کو ضرور یاد کرتی ہوں۔ شوئی نِگ نے بڑے پُرعزم لہجے میں کہا کہ آمنہ میری طاقت ہے اور میں اُس کی طاقت ہوں۔ کانفرنس کے ٹی بریک کے دوران مجھے پتا چلا کہ فلپائن، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور شام سے لے کر ترکی تک سے آئے ہوئے اکثر مندوبین آمنہ مسعود جنجوعہ کے نام سے واقف تھے۔ پاکستانی ریاست کو سوچنا چاہیے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی یہ مقبولیت ریاست کی عزت میں اضافہ ہے یا کمی؟ پاکستان کی عدلیہ کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جس ملک میں جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل جاری رہیں وہاں قانون کی بالادستی قائم کرنے کے دعووں پر کون یقین کرے گا؟
(حامد میر۔ جنگ، یکم اکتوبر2018ء)

زرد اقوام اور فلسفۂ اذیت رسانی

تمام زرد اقوام کتے اور بلی کے گوشت کی عاشق ہیں۔ حقیقت میں تو یہ نسلیں زمین پر حرکت کرنے والے ہر ذی روح کو کھا جاتی ہیں… گینڈے اور مگرمچھ سے لے کر چھپکلی اور کاکروچ تک، لیکن کتے اور بلی کو کھانا ان کا عشق ہے۔ کتے اور بلی کو مارکر کھا جانا بے رحمی ہے یا نہیں، کیا کہا جاسکتا ہے! لیکن جس طرح انہیں مارا جاتا ہے، اسے بہرحال ظلم نہیں کہا جاسکتا، کہ وہ ظلم سے بہت آگے کی شے ہے۔ اس معاملے کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ نرم سے نرم فقرے لکھے جائیں تب بھی وہ بہت سخت ہوں گے۔ اذیت رسانی کا ایک ایسا نظام ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اور اس اذیت رسانی کے پیچھے جملہ زرد اقوام کا وہی فلسفہ ہے کہ جانور جتنی تکلیف سے مرے گا، اسے کھانے میں اتنا ہی مزا آئے گا اور جسمانی طاقت بھی زیادہ ملے گی۔ سلاویسی کا شمالی قصبہ اس شوق کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہاں جابجا ایسی مارکیٹیں قائم ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تو موہون کی ایکسٹریم مارکیٹ ہے۔ مارکیٹ کیا ہے، ایک پورا شہر ہے۔ بہت سے بازار ہیں۔ دونوں طرف ویسے ہی پنجروں سے بھری دکانیں ہیں جیسی ہمارے ہاں پولٹری اور مرغی کی دکانیں ہوتی ہیں۔ پنجرے نہایت تنگ ہیں اور ان میں کتے اور بلیاں یوں ٹھونس ٹھونس کر بھرے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی جانور حرکت نہیں کرسکتا۔ جو کھڑا ہوا ہے، وہ کھڑا ہی رہے گا۔ ان کے منہ پر بھی ٹیپ لگا دیا جاتا ہے جس سے انہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کھلی مارکیٹ میں یہ چاہے دو تین دن رہیں، انہیں کھانا دیا جاتا ہے نہ پانی۔ بازار کشادہ ہیں۔ جابجا پانی کے ایسے ڈرم ہیں جن کے نیچے مسلسل آگ دہکتی رہتی ہے۔ کوئلوں کی بڑی بڑی انگیٹھیاں ہیں۔ گاہک کی فرمائش پر جانور پنجرے سے نکالا جاتا ہے اور پنجرے میں بند سارے جانوروں کے سامنے اسے ہلاک کیا جاتا ہے۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے زیادہ بھنی ہوئی بلی چاہیے۔ بلی کو پنجرے سے نکالا جائے گا اور اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر دہکتے ہوئے کوئلوں پر ڈالا جائے گا۔ وہ تڑپ بھی نہیں سکتی کہ ہاتھ پائوں بندھے ہیں۔ گاہک اس کی چیخیں سننے کا خواہش مند ہے تو منہ کھلا رکھا جائے گا، ورنہ منہ پر بھی پٹی بندھی ہوگی۔ مکئی کے بھٹے کی طرح اسے الٹ پلٹ کر دس پندرہ منٹ بھونا جائے گا۔ پوری طرح بھونے جانے پر بھی بعض بلیاں زندہ رہتی ہیں۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے ابلی ہوئی بلی چاہیے تو بلی کو بڑے چمٹے سے پکڑ کر ابلتے ڈرم میں ڈال دیا جائے گا۔ پانی کا درجہ حرارت اتنا ہے کہ ابلنے کے لیے دس پندرہ منٹ لگیں گے۔ بلی پھر بھی زندہ ہوگی۔ اس کی کھال ساری جھڑ جائے گی۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ بلی کو ڈنڈے سے ہلاک کرو۔ بلی کے سر پر ڈنڈے سے ایک کاری ضرب لگائی جائے گی، پھر اسے سڑک پر چھوڑ دیا جائے گا۔ پورے بازار میں ایسی بلیاں جا بجا تڑپتی ملیں گی۔ ایک سخت ڈنڈے سے جان نہیں نکلتی۔ پوری طرح مزے کے لیے کبھی کبھار آدھا گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے جانور کھال اتار کر دیا جائے۔ جانور کو رسّی سے لٹکا دیا جائے گا اور ایک طرف سے کٹ لگا کر کھال کھینچی جائے گی۔ اس حالت میں جانور کی ہولناک آوازیں عام آدمی سنے تو اس کی حرکتِ قلب بند ہوجائے، لیکن یہاں گاہک اسے دنیا کی سب سے خوبصورت موسیقی سمجھ کر سنتا ہے۔ کئی بار جانور کے چاروں ہاتھ پائوں اور دم چھری سے کاٹ دی جاتی ہے، پھر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی سب کچھ اور اس کے ساتھ مزید بہت کچھ کتوں سے بھی کیا جاتا ہے۔ دن بھر اپنے سامنے اپنے ہم جنسوں کی اذیت ناک موت دیکھ کر ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ جب کسی کتے کو ہلاک کرنے کے لیے پنجرے سے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ پوری طرح زندہ، ہوش و حواس میں ہونے کے باوجود حرکت کرتا ہے نہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ جسے زندہ جلانا ہو، صرف اسے رسّی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ کتوں کو زندہ جلانے کے لیے فائر لیمپ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے گیسی شعلے نکلتے ہیں۔
یہ جو کچھ لکھا ہے، اسے اصل کا ایک بٹا ہزار سمجھیے، بلکہ اس سے بھی کم! اس جزیرے میں لگ بھگ ایک کروڑ بلیاں اور کتے اسی طرح ہلاک کیے جاتے ہیں۔
(عبداللہ طارق سہیل۔ روزنامہ 92، یکماکتوبر2018ء)