تخریب کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ یہ کسی ایک طریقِ کار یا راہِ عمل پر اکتفا نہیں کرتی۔ جہاں تخریب کار قوت و اختیار کے مرکز کے قریب تک پہنچ جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اہم پالیسی سازوں کا اعتماد حاصل کرے اور اپنے تعلق کو فردِ واحد تک ہی محدود رکھے، تاکہ اُس کی حیثیت غیر متنازع رہے اور مرکزی شخصیت کا قریبی دوست ہونے کے ناتے اُسے مکمل پردہ پوشی حاصل رہے۔ مشہورِ زمانہ جاسوس ’’لارنس آف عریبیا‘‘ اس طرح کی تخریب کا کلاسیکی نمونہ ہے۔
جنگِ عظیم اوّل بپا ہوا چاہتی تھی۔ عثمانی خلافت تضادات کا شکار تھی۔ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی حکومت کو اس صورتِ حال پر تشویش تھی۔ اُسے مسلم علاقوں کے اتحاد کو توڑنے کا بھاری بھرکم چیلنج درپیش تھا، ساتھ ہی وہ مشرق وسطیٰ کے تیل پر تسلط چاہتا تھا۔ ٹی ای لارنس کو جو بعد میں ’’لارنس آف عریبیا‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، یہ مشن سونپا گیا۔ اس نے عربوں اور ترکوں میں پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی وضع کی۔ ایک شاطر انسان کے طور پر، جسے انسانی معاملات کا گہرا فہم و شعور حاصل تھا، وہ جلد ہی جان گیا کہ عربوں کی فطری اَنا سے کھیلا جاسکتا ہے۔ پہلے تو اس نے عربوں کے اس احساس کی دبی چنگاری کو پھونکیں مار کر شعلہ جوالا بنایا کہ اسلامی تاریخ میں ان کا ایک بہت نمایاں مقام و مرتبہ ہے۔ اس نے شریف حسین آف مکہ (اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ بن حسین کے پر دادا) کو پٹی پڑھائی کہ مسئلہ خلافت اصل مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ تو عرب سرزمین کا ہے، جسے ترک دبائے بیٹھے ہیں اور جسے واپس حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔ اپنی کتاب ’’سیون پلرز آف وزڈم‘‘ (دانش و حکمت کے سات ستون) میں وہ شہزادہ عبداللہ کی اپنی مصاحبین سے گفتگو درج کرتا ہے:
’’]عبداللہ نے[ اپنے سامعین کی حالیہ آزادی اور ماضی میں ترکوں کی (نام نہاد) غلامی کا موازنہ کیا اور آخر میں کہا کہ ترکی کے انحرافی رویّے کی بات کرنا، یا ینی توران کے غیر اخلاقی اصول و نظریے کو زیر بحث لانا، یا بے جواز غیر شرعی خلافت کو پیٹنا، بے کار ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ عرب سرزمین ہے اور ترک اس پردندنا رہے ہیں۔ میری دلیل ان عرب دوستوں کے دل میں گھر کر گئی۔‘‘ لارنس جب کہہ رہا تھا کہ :’’میری دلیل دل میں گھر کر گئی‘‘ تو اس کا مطلب کیا تھا؟ بات تو خود عبداللہ کررہا تھا اور شاہی اختیار کے ساتھ کررہا تھا۔ لیکن درحقیقت عبداللہ کے خیالات اس کے اپنے نہ تھے، وہ غیر شعوری طور پر اُنہیں لارنس سے اخذ کرکے اُسی کی بولی بول رہا تھا۔ لارنس خود ’’عامل‘‘ بن کر اُسے ’’معمول‘‘ کی طرح استعمال کررہا تھا۔ یہ تخریبی سائنس میں نئی اُپج تھی۔ اپنے طریقِ واردات کا تذکرہ لارنس نے خود کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عربوں سے معاملہ کرنا سائنس نہیں، فن ہے۔ ’’اپنے لیڈر کا اعتماد حاصل کرو اور پھر اسے قائم رکھو‘‘۔ لارنس نے تجویز دی:’’جب وہ (لیڈر) کوئی اسکیم یا منصوبہ دے تو اسے بُرا بتا کر رد مت کرو۔ صرف یہ احتیاط کرو کہ پہلے پہل وہ اسکیم ذاتی طور پر تمہارے علم میں آئے۔ ہمیشہ اس پر صاد کرو۔ خوب تعریف کرلینے کے بعد ان میں غیر محسوس تبدیلی کردو، تاکہ لگے تو یہی کہ منصوبہ بڑے میاں کا ہی ہے، لیکن وہ تمہاری رائے سے ہم آہنگ ہوچکا ہو۔ اس مقام تک پہنچنے کے بعد کوشش کرو کہ وہ اس منصوبے پر جما رہے۔ اس کے خیالات پر پوری گرفت رکھو اور بڑی باریکی اور چابک دستی سے اسے بڑھاوا دیتے رہو۔ لیکن یہ سب کچھ رازدارانہ ہو، تاکہ اس کے سوا کسی کو پتا نہ لگے (اور اس پر بھی پوری طرح واضح نہ ہو) کہ وہ تمہارے دبائو میں (یعنی زیر اثر) ہے۔‘‘
جب اُس سے (شریفِ مکہ) حسین کی متحدہ عرب سلطنت کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو لارنس نے حسین کا دفاع کرتے ہوئے کہا:’’حسین جو کچھ کررہا ہے اس میں ہمارا فائدہ ہے، کیونکہ اس کی تگ و دو ہمارے فوری مقاصد کے ساتھ ساتھ ہے کہ اسلامی بلاک ٹوٹے اور عثمانی خلافت کی شکست وریخت ہو۔‘‘
یہ الم ناک واقعہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ عثمانی خلافت جو مسلم وقار اور عظمت کی ایک بڑی نشانی تھی، چھوٹے چھوٹے بے وزن اور بے وقار ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ المیہ البتہ یہ تھا کہ برطانوی تخریب کا سلسلہ اس پر رُکا نہیں۔ مسلم بلاک کو توڑنے کے بعد، اس نے اُبھرتے عرب بلاک کا بھی گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔ لارنس نے تیس لڑائیوں کی قیادت کی تھی۔ ان میں ایک بھی انگریز نہیں مارا گیا۔ شریف حسین سے جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔ اسے ایک چھوٹے سے علاقے کی شاہی پر قناعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ عرب قوم، اگر ایسی کوئی قوم موجود تھی، تو وہ شامی، لبنانی، اردنی اور عراقی وغیرہ قومیتوں میں بٹ کر رہ گئی۔ اس دردناک قصے کا اہم سبق کیا ہے؟ بیرونی مشوروں اور ایسی جنگوں سے ہوشیار رہیں جن کا ایجنڈا نسلی اور علاقائی ہو۔
(’’سیکولر ازم، مباحث اور مغالطے‘‘… طارق جان)
علم اور دین
اس نظم میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ حقیقی علم دین سے الگ نہیں بلکہ اس کا لازمی جزو ہے۔
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی
نہیں ہے قطرئہ شبنم اگر شریکِ نسیم
وہ علم، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم!
ندیم: رفیق، ساتھی۔ کم بصری: کم نظری۔
-1 جس علم کو خدا نے دل اور نظر کا رفیق بنادیا، وہ اپنے تراشے ہوئے بتوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یعنی جو علم خدا کی طرف سے دیا جاتا ہے، مثلاً آسمانی کتابیں، اس کی وجہ سے انسان کے عقائد و اعمال میں کوئی خلل نہیں آتا، بلکہ وہ گمراہ کرنے والی تمام چیزوں کو ختم کردیتا ہے۔
-2 زمانہ ایک ہے، زندگی بھی ایک ہے اور کائنات بھی ایک ہے۔ پھر اس میں نئے اور پرانے کی تقسیم کا کیا مطلب؟ یہ تو کم نگاہی کی دلیل ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب زندگی اور اس کے زمانی و مکانی ماحول کی یکسانی میں کوئی شبہ نہیں تو پھر نئے اور پرانے زمانے کی تقسیم کا کیا مطلب؟
-3 اگر شبنم کا قطرہ صبح کی ہوا کا ساتھ نہ دے تو باغ میں کلی کیونکر پرورش پاسکتی ہے۔
مراد یہ ہے کہ کلی کو شگفتہ کرنے کے لیے محض صبح کی ہوا کافی نہیں، بلکہ شبنم کا گرنا بھی ضروری ہے۔ شبنم کلی میں ملائمت اور شادابی پیدا کرتی ہے۔ نسیم کے جھونکے اسے شگفتہ کردیتے ہیں۔ جس طرح ان دونوں کی مدد سے کلی شگفتہ ہوتی ہے، اسی طرح علم کی مدد سے دین کو تقویت پہنچتی ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ علم ایسا ہو جسے ہم دل اور نظر کا رفیق قرار دے سکیں۔ جس علم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تجلیات اور حکیم کے عقلی مشاہدات ایک دوسرے سے بغل گیر نہ ہوں، وہ علم ہی نہیں بلکہ جہالت ہے… گویا جو علم نظر کی درستی اور دل کی پاکیزگی کے لیے ہو، وہ عین دین ہے، اسے کم نظری کے داغ دھبوں سے بالکل پاک سمجھنا چاہیے۔