پاک بھارت مذاکرات کا تعطل

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے، اور لگتا ہے پاکستان سے زیادہ دشمنی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہاہے تاکہ وہ خطے میں اپنی بالادستی اور پاکستان پر دبائو کی پالیسی کو جاری رکھ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خاصی پیچیدگیاں موجود ہیں، اور مسائل کے حل سمیت بہتر تعلقات کا فوری امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کے باوجود امن کے خواہاں لوگ اس خواہش پر امید کے دیے جلاتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں موجود تنائو، بگاڑ، دشمنی یا بداعتمادی مستقل نہیں رہے گی، مسئلے کا حل نکلے گا اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بہتری کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کی انتخابی جیت کے بعد جو پہلی تقریر کی اُس میں بھارتی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ مسائل کے حل میں ایک قدم آگے بڑھائیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ اس کے بعد قوم سے خطاب میں بھی وزیراعظم نے بھارت سے بہتر تعلقات اور مذاکرات کی بحالی پر زور دیا۔ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے عمران خان کو وزیراعظم بننے پر نہ صرف ٹیلی فونک بلکہ تحریری مبارکباد بھی دی۔ وزیراعظم نے اس خط کی بنیاد پر بھارت کے وزیراعظم کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی۔ اس کے جواب میں ابتدائی سطح پر بھارت نے وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات پر اتفاق کیا۔ اچانک ملاقات منسوخ کردی گئی۔
وزیراعظم عمران خان کی مذاکرات کی دعوت کو مسترد کرنے اور ان کے بارے میں منفی الفاظ کے استعمال کا یقینی طور پر پاکستان میں شدید ردعمل ہونا تھا۔ اب مسئلہ محض مذاکرات کی دعوت کو مسترد کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ بھارتی میڈیا نے بھی جو پہلے ہی پاکستان مخالفت میں پیش پیش رہتا ہے، اس موقع پر آگ کو مزید بھڑکایا۔ حیرت اس بات پر تھی کہ مذاکرات اور تعلقات کی بہتری کی دعوت پر بھارت کا جارحانہ اورمخالفانہ رویہ کیا ایسی ریاست کا ہوسکتا ہے جو ہمسائے سے تنازعات کو ختم کرکے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتی ہے؟
وزیراعظم عمران خان کے ٹوئٹ پر بھی واویلا مچایا گیا۔ یہ واویلا محض بھارت تک محدود نہیں تھا، بلکہ ملک کے اندر بھی حکومتی مخالفین اور اہلِ دانش کے ایک طبقے نے وزیراعظم کے ٹوئٹ کو سفارتی، سیاسی اور ڈپلومیسی کے آداب کے منافی قرار دیا۔ وزیراعظم عمران خان کا ٹوئٹ تین نکات پر مشتمل تھا۔ اول: مذاکرات سے انکار کو بھارتی قیادت کا منفی اور متکبرانہ رویہ قرار دیا گیا، دوئم: بقول وزیراعظم عمران خان کے انہوں نے پوری زندگی چھوٹے لوگوں کو بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے، سوئم: ایسے لوگ بنیادی طور پر بصیرت سے عاری اور دوراندیشی سے محروم ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر وزیراعظم کا یہ ٹوئٹ بھارت کے ردعمل کا نتیجہ تھا۔ اگر بھارت مثبت رویہ اختیار کرتا تو مذاکرات کا راستہ نئے راستے کھولنے میں مدد فراہم کرتا جو دونوں ملکوں کے لیے سودمند ہوتا۔ لیکن افسوس، بھارت نے مذاکرات کی جو کھڑکی کھلی تھی اُس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے بند رکھنے کی سیاست کو ہی ترجیح دی۔
جو لوگ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو سفارتی آداب کے خلاف سمجھتے ہیں یا جن کے بقول اس بیان سے مذاکرات کا دروازہ بند ہوگیا ہے، ان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ یہ صورتِ حال کس نے پیدا کی؟ کیا ڈپلومیسی کے محاذ پر مذاکرات کا دروازہ بند رکھا جاتا ہے؟ اورکیا تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے ملکوں سے تعلقات توڑے جاتے ہیں؟ تعلقات کی بہتری کی پہلی اوربنیادی شرط میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔کاش اہلِ دانش بھارت کے طرزِعمل پر بھی اپنی خاموشی توڑیں اورکچھ بھارتی قیادت کا بھی ماتم کریں کہ وہ کیا کچھ کررہی ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جس طرح سے بھارت کا مذاکرات کے تناظر میں ایجنڈا ہے، یا ہمارے بارے میں اُس کے شدید تحفظات ہیں، کچھ ایسی ہی صورتِ حال خود ہماری بھی ہے۔ ہمیں بھی بھارت سے بہت سے معاملات میں شکایات ہیں۔ ان شکایات اور مسائل کا حل سیاسی بیٹھک سے ہی ممکن ہے، جس سے بھارت مسلسل انکاری ہے۔ ہمارے کچھ اہلِ دانش پاکستان کی فوج کو اس صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، اور ان کے بقول بھارت سے تعلقات کے بگاڑ میں بنیادی کردار ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو بھارت نے ہمارے خلاف دنیا بھر میں اختیار کیا ہوا ہے۔ حالانکہ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی فوج بھی بھارت سے بہتر تعلقات کی حائل ہے، اور اُس کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری ہی خطے میں امن، سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کی جو دعوت دی وہ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے ہی دی ہوگی،کیونکہ اِس وقت سیاسی اور عسکری قیادت ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف کی دھمکی کے باوجود پاکستان کی فوجی قیادت نے ایک بار پھر صاف پیغام دیا کہ ہم اگرچہ جنگ لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم امن کا ہی راستہ اختیار کریں گے۔ حالیہ دنوں میں جو پاک بھارت تنائو ابھرا ہے اُس کو پیدا کرنے میں خود بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت اور وہاںکا میڈیا پیش پیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مذاکرات کی جو دعوت دی اُس میں دہشت گردی جیسے اہم مسئلے کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی پیش کش کی، جسے یکسر مسترد کردیا گیا۔ پاکستان کو اس وقت کشمیر سمیت پانی، سیاچن، سرکریک، دہشت گردی، تجارت اور بھارت کی افغانستان کی مدد سے پاکستان میں مداخلت اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے ایجنڈے پر تحفظات ہیں اور ان مسائل پر بات چیت کیے بغیر تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔
ہمارے وہ جمہوری دوست جو بھارت کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نہیں دیکھتے اُن کو ذرا بھارتی آرمی چیف کا بیان دیکھ لینا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ بھارتی آرمی چیف کو براہِ راست یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اور جس تواتر سے وہ دھمکیاں دے رہے ہیں اس کے پیچھے بھارت کی اپنی سیاست ہے یا اس میں اُن کی اپنی اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی ایجنڈا چھپا ہوا ہے جو تعلقات میں بگاڑ پیدا کرکے ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اصل میں ہمیں بھارت کی داخلی سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اس وقت پاکستان کے تناظر میں کہاں کھڑی ہے۔ اوّل، بھارت میں اگلے برس عام انتخابات ہیں، وہاں ہمیشہ سے انتخابی مہم میں پاکستان مخالف ایجنڈا یا دشمنی پر مبنی چورن بکتا ہے۔ بی جے پی اور بالخصوص بھارت کی سیاست کو ہندوتوا کی سیاست میں بدلنے والے نریندر مودی انتخابات سے قبل مذاکرات کا کارڈ کھیل کر پاکستان دشمنی پر مبنی ووٹ بینک کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ دوئم، آج کل بھارت میں مودی حکومت کو اپنی خراب کارکردگی اور بالخصوص کرپشن جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ مودی سرکار کی کوشش ہے کہ اس کرپشن کے ایجنڈے کو طاقت ملنے کے بجائے پاکستان دشمنی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔ سوئم، کشمیر کی حالیہ صورت حال سے خود بھارت بہت پریشان ہے۔ کشمیر کی یہ جدوجہد تیسری نسل میں منتقل ہوگئی ہے۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی قیادت کو کشمیر کے تناظر میں طاقت کے انداز کے بجائے سیاسی انداز اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بھارت کو اس بات کا احساس ہے کہ مذاکرات میں کشمیر کا ایجنڈالازمی شامل ہوگا۔ اس لیے وہ مذاکرات سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے، اور اسی کے ساتھ ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھ کر عالمی برادری پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اعتماد کی بحالی میں پاکستان اور اس کی اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے۔
سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے تناظر میں حالیہ حکمت عملی سے پاکستان نے دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ اس وقت ہم نے تعطل پیدا نہیں کیا بلکہ یہ بھارت کا پیدا کردہ ہے۔ امریکہ سمیت عالمی قوتیں جو پاک بھارت مذاکرات کی حامی ہیں اُن کو بھی سمجھنا چاہیے کہ بھارت کا سخت گیر رویہ ہی تعطل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اگر ہوں گے تو وہ محض اُس کی شرائط پر نہیں ہوں گے، مذاکرات میں تمام متنازعہ امور پر بات چیت ہوگی جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہوگا۔ مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خود بھارت اور خطے کی سیاست کے لیے بھی ضروری ہیں، اور بھارت کو ماضی کی تلخیوں سے باہر نکل کر آگے بڑھنے کا ہی راستہ اختیار کرنا ہوگا، جو صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ لیکن اگر بھارت مذاکرات سے مسلسل انکار کرے گا اور پاکستان پر حسبِ سابق الزام تراشیاں جاری رکھے گا تو اس پر پاکستان میں اُن قوتوں کوبھی پسپائی اختیار کرنا ہوگی جو یہ کہتی تھیں کہ ہمیں بھارت سے دوستی کرنی چاہیے۔