میانمار، روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی

برما میں چین کے تعاون سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا جو سفاک کھیل کھیلا گیا وہ منظمIslamphobia اور تعصب کے باوجود دنیا سے پوشیدہ نہ رہ سکا، اور اب ساری دنیا کے باضمیر لوگ اس ظلم کے خلاف ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ مارچ 2017ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UN Human Rights Council) (UNHRC) نے حقائق کی تلاش کے لیے UN Independent International Fact- Finding Mission on Myanmar کے عنوان سے ایک 3 رکنی کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کے سربراہ انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوقی دارسمان تھے۔ سری لنکا کی محترمہ رادھیکا کومرا سوامی (Radhika Coomaraswamy) اور انسانی حقوق کے آسٹریلوی چیمپئن مسٹر کرسٹوفر سیڈوٹی (Christopher Sidoti) مشن کے ارکان نامزد کیے گئے تھے۔
حسبِ توقع اقوام متحدہ کے اس مشن کو صورت حال کے مشاہدے کے لیے برما جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور برمی فوج اور شہری اداروں کے اہلکاروں نے معلومات و وضاحت کے لیے کمیشن کے ارکان کے فون اور خطوط کا جواب بھی نہیں دیا۔ اس کے باوجود کمیشن نے مشاہدہ جاری رکھا اور 875 متاثرین سے تفصیلی انٹرویو کیے۔
مشن کی ایک رکن محترمہ رادھیکا اس قسم کی تحقیقات کی ماہر ہیں۔ انھوں نے امریکہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی وجہِ شہرت بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی تحقیق ہے۔ وہ انسانی حقوق کمیشن سری لنکا کی سربراہ رہ چکی ہیں اور تامل خانہ جنگی کے دوران انھوں نے کئی بار انتہائی جرأت کے ساتھ سری لنکا کی فوج کی جانب سے ظلم وزیادتی کے اقدامات کی نشاندہی کی۔ یہ خاتون 1994ء سے جنگوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے امور کی تحقیقات کررہی ہیں۔ 2012ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے رادھیکا کو بچیوں سے بدسلوکی، عصمت دری اور خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا۔ بے لاگ و غیر جانب دارانہ تحقیقات پر امریکن بار ایسوسی ایشن اور امریکہ کی کئی جامعات انھیں اعزاز سے نواز چکی ہیں۔ میدانِ جنگ اور عسکری کشیدگی کے دوران بچوں سے ناروا سلوک کی چشم کشا لیکن مبنی بر انصاف تحقیقات کی بنا پر انھیں 2000ء میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلا کی بین الاقوامی انجمن (International Human rights Law Group) نے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔ اپنے طویل تجربے کی بنا پر ان متاثرین سے محترمہ نے خود بات کی۔ کومرا سوامی کو ہندی اور بنگلہ پر بھی مکمل عبور ہے، اس لیے انھیں بات کرتے ہوئے مترجمین کی ضرورت بھی پیش نہ آئی جس کی وجہ سے ظلم و ستم کی ماری ان بچیوں اور کم سن خواتین نے بلاجھجک داستانِ الم کو کھل کر بیان کیا۔
کمیشن کے برما جانے پر پابندی تھی لیکن زمینی صورت ِحال کا جائزہ لینے کے لیے مصنوعی سیاروں سے حاصل کی گئی تصویروں (satellite imagery)کی مدد سے برمی فوج کی حرکات، گھروں کی آتشزنی اور تباہی کا مشاہدہ کیا گیا۔ کمیشن نے بنگلہ دیش کے علاوہ ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور برطانیہ جاکر وہاں موجود متاثرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران دنیا بھر میں موجود اُن برمی فوجی افسران سے بھی بات کی گئی جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر معلومات فراہم کیں۔کمیشن نے لاکھوں تصاویر اور فلموں کا معائنہ کیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی یوٹیوب رپورٹس اور پیغامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ متاثرین کی گفتگو، سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا سے حاصل کیے جانے والے مواد کی تصدیق و تجزیے کے لیے دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات، ذرائع ابلاغ کے علما اور قانون دانوں سے مدد لی گئی۔ جہاں کہیں ہلکا سا بھی شک محسوس ہوا اس شہادت کو حذف کردیا گیا اور رپورٹ کی تیاری میں صرف اُن مشاہدات کو شامل کیا گیا جن کی صحت پر ہلکا سا بھی شائبہ نہیں۔
شہادت اور مصدقہ مواد جمع کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا، جس کے بعد کئی ماہ رپورٹ کی تیاری پر صرف ہوئے اور کمیشن نے اپنی رپورٹ 27 اگست کو کونسل کے سامنے جمع کرادی۔ 18 ستمبر کو یہ رپورٹ اشاعتِ عام کے لیے جاری کردی گئی۔ اس موقع پر جنیوا میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کمیشن کے ارکان نے اپنے مشاہدات کے چیدہ چیدہ نکات پیش کیے:
٭رپورٹ کے مطابق کمیشن نے راخین (روہنگیا) کے علاوہ شمالی برما کی ریاست کاچن (Kachin) اور ریاست شان (Shan)کا بھی جائزہ لیا۔ ان دو ریاستوں میں آباد مسیحیوں کو بھی نسل پرست بودھوں کے حملوں کا سامنا ہے۔
٭روہنگیا آبادی کو جن مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے ان میں قتل عام، گھروں کی آتشزدگی، بچوں کا قتل، کم سن بچیوں کی عصمت دری، بردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت، بچوں سے بیگار اور بدترین تشدد شامل ہیں۔
٭روہنگیا آبادی ختم ہونے یا نسل کُشی کے خطرے سے دوچار ہے۔
٭ فوج کی جانب نے نہتے عوام کا قتلِ عام، اجتماعی عصمت دری اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز تو دور کی بات، عسکری حکمت عملی کے اعتبار سے بھی اس وحشت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
٭میانمر میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں۔
٭ایک سال کی تفتیش سے یہ مستند شواہد سامنے آئے ہیں کہ میانمر کی فوج نے جن جرائم کا ارتکاب کیاہے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتہائی سنگین جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔
٭پہلے سے طے شدہ منظم منصوبے کے تحت عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ روہنگیا آبادی کے مکانات کو نذرِ آتش کیاگیا اور ان کے مال واسباب لوٹ لیے گئے۔
٭اس قتلِ عام میں تتما داو (میانمر سرکاری فوج) کے ساتھ دوسری ملیشیا اور مسلح جتھے ملوث ہیں۔
٭ قتل و غارت گری اور آبروریزی تتماداو کی جانب سے روہنگیا آبادی پر دانستہ حملہ تھا۔
٭اگست 2017ء میں پھوٹنے والے تشدد کے نتیجے میں روہنگیا کے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے تین چوتھائی بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔
٭جن مظالم نے روہنگیا کو اپنے گھر بار سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہیں، اور یہ کہ پناہ گزینوں کے لیے واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔
٭ تتماداو کے رویوں سے اندازہ ہوا کہ یہ خود کو انسانی حقوق اور بین لاقوامی قوانین، حتیٰ کہ برمی دستور کا بھی پابند نہیں سمجھتے، اور ان کے سامنے انسانی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
٭روہنگیا آبادی کے خلاف تشدد کا ارتکاب محض وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ زمینی حقائق اور شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کارروائی منظم منصوبہ بندی کے تحت قتلِ عام بلکہ نسل کُشی کے ارادے سے کی گئی ہے۔
٭تفصیلی شواہد کے بعد کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ تتماداو انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور برما کی عسکری قیادت کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے۔
٭روہنگیا آبادی کے خلاف جن مظالم کا ارتکاب ہوا وہ نسل کُشی کی تعریف میں آتے ہیں۔ تشدد پر اکسانے کے لیے منظم انداز میں مذہبی و لسانی تعصب پھیلایا گیا۔ برمی قائدین کی جانب سے نفرت انگیز خطابات، ریاستی پالیسی کے تحت روہنگیا آبادی کو ملکی سیاست سے الگ تھلگ رکھنے اور تعصب کی ریاستی سرپرستی سے کمیشن کے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے۔
٭تحقیق، مشاہدے اور متاثرین سے تفصیلی انٹرویو کے بعد کمیشن نے ان سنگین جرائم کے متوقع ذمے داروں کی فہرست بھی تیار کی ہے اور کمیشن سفارش کرتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف فردِ جرم عائد کرکے عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ فوجی افسران میں تتماداو کے سربراہ جنرل من اونگ ہیناگ (Min Aung Hiang)،نائب کمانڈر سو ون (Soe Win)، اسپیشل آپریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل آنگ کیا زاو(Aung Kyaw Zaw)، مغربی کور کے سربراہ جنرل موانگ موانگ سو (Maung Maung Soe)، ہلکے توپخانہ کے 33 ویں ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل آنگ آنگ (Aung Aung)، ہلکے توپخانہ کے 99 ویں ڈویژن کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل تھن او (Than Oo)کے نام اس رپورٹ میں درج ہیں، جبکہ کمیشن نے جرائم کے مرتکب باقی افسران کی فہرست اقوام متحدہ کے ہائی کیشن برائے انسانی حقوق کو پیش کردی ہے۔
٭سویلین قیادت بظاہر تتماداو کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، لیکن یہ لوگ بھی مجرمانہ غفلت اور ظلم و ستم کی خاموش حوصلہ افزائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہیمانہ تشدد رکوانے اور برما کی اسٹیٹ کونسلر یا سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمے داریاں ادا کرنے میں محترمہ آنگ سان سوچی (Aung San Suu Kyi) بری طرح ناکام رہیں۔
٭برما کے آئین اور عدالتی نظام نے تتماداو کو لامحدود اختیارات دے رکھے ہیں۔ مسلح افواج اپنے کسی بھی عمل کے لیے عدالت یا ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں، اورمتاثرین کئی دہائیوں سے انصاف سے محروم ہیں۔ چنانچہ (انصاف کی فراہمی کے لیے) عالمی برادری کو احتساب کا مؤثر نظام وضع کرنا چاہیے۔
٭مشن برما کا معاملہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ لے جانے کی سفارش کرتے ہوئے فوری طور پر ایک بینچ تشکیل دینے کی درخواست کرتا ہے۔
٭اسی کے ساتھ جن افراد کو اس رپورٹ میں انسانیت کُش سنگین جرائم کا ذمے دار ٹھیرایا گیا ہے ان سب کے خلاف تادیبی پابندی کی سفارش کی جاتی ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے برما کے سفیر کیاؤ موتن نے مشن کی رپورٹ کو یک طرفہ اور جانب دارانہ قرار دیتے ہوئے اسے راخین تنازعے کا پائیدار حل تلاش کرنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ سفیر موصوف نے فرمایا کہ حکومت کو بے گھر ہونے والوں خصوصاً عورتوں اور بچیوں سے دلی ہمدردی ہے، اور جو کوئی بھی واپس آنا چاہتا ہے حکومت دوبارہ آبادکاری میں اُس کی مدد کو تیار ہے۔
اتنی صاف اور واضح رپورٹ کے بعد اب تک تو جنگی جرائم ٹریبونل قائم ہوجانا چاہیے تھا، لیکن 3 ہفتے گزرجانے کے باوجود اسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا، اور ڈر ہے کہ یہ لرزہ خیز دستاویز عملاً ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجائے گی۔ مشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے سلامتی کونسل کی آشیرواد ضروری ہے، اور چین صاف صاف کہہ چکا ہے کہ وہ برما کے خلاف کسی بھی قرارداد کو ویٹو کردے گا۔ اراکان برما سے چین کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ اراکان کا ساحل ہمارے مکران کی طرح کٹا پھٹا ہے اور کیوک پھیو کے مقام پر گہرا سمندر ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ چین گوادر کی طرح کیوک پھیو میں بھی ایک بندرگاہ تعمیر کررہا ہے۔ گہرے سمندر کی وجہ سے بھاری جہاز کنارے تک آسکیں گے اور اس کے لیے جیٹی کھودنے کی ضرورت نہیں۔ ٹیڑھے میڑھے ساحل نے گودیوں کی تعمیرکا کام بھی بے حد آسان کردیا ہے۔ ساحل کے قریب زمین اور سمندر کی تہہ میں تیل و گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی ترقی کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کے پاس ہے۔
رقبے کے اعتبار سے چین ایک وسیع و عریض ملک ہے لیکن سمندر تک رسائی صرف مشرق کی جانب سے ہے۔ چین دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور مشرق وسطیٰ سے آنے والا تیل مشرقی چین کی بندرگاہوں پر اتارکر ٹینکروں اور پائپ لائنوں کے ذریعے سارے ملک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔کیوک پھیو بندرگاہ کی شکل میں اسے اب جنوب میں بھی ایک بندرگاہ میسر آگئی ہے۔ یہاں سے ایک 38 انچ قطر کی پائپ لائن چین کے یونان (Yunnan) صوبے تک بچھائی جارہی ہے جس کی گنجائش 2 لاکھ 40 ہزار بیرل تیل روزانہ ہے۔ اس کے متوازی ایک گیس پائپ لائن پہلے سے موجود ہے جس کے ذریعے برما کی 12 ملین مکعب میٹر گیس روزانہ یونان پہنچائی جارہی ہے۔ بندرگاہ، پائپ لائن اور دوسری تعمیرات کے لیے اراکان کی جائداد ہتھیالی گئی ہے اور اب باقی ماندہ علاقوں پر چین اور برما کی مشترکہ فوجی چھائونیاں تعمیر کی جارہی ہیں۔ گویا اراکان کی ہنستی بستی آبادی چین کے Road and Belt Initiative یا RBIکی نذر ہوگئی اور چین اراکان سے متعلق کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل سفیر محترمہ نکی ہیلی نے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس چشم کشا اور روح فرسا رپورٹ کے بعد بھی OIC کی خاموشی افسوس ناک ہے۔