جنرل(ر) پرویزمشرف کے دور میں بلوچستان کے اندر قدیم لیویز نظام یعنی بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کے لیے سنجیدہ اور تیز رفتاری سے کام ہوا تاکہ لیویز کا نظام ختم ہو اور اس کی جگہ پولیس کا نظام لاگو ہو۔ یہاں تک کہ مختلف اضلاع میں پولیس تھانوں کے لیے عمارتیں بھی تعمیر کرلی گئیں، لیکن سیاسی احتجاج کے باعث یہ عمل رُ ک کیا۔ پھر نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے دور میںکمشنری اور لیویز کا نظام دوبارہ پوری طرح سے فعال کردیا گیا۔ جب عبدالقدوس بزنجو چند ماہ کے لیے وزیراعلیٰ بنے تو اُن کی حکومت نے بی ایریا کو اے میں بدلنے کی شوخی چھوڑ دی، تاہم جام کمال نے اس ضمن میں یہ بہتر قدم اٹھایا ہے کہ لیویز نظام کو ختم کرنے کے بجائے اس میں اصلاحات اور بہتری لائی جائے۔ اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس میں چند فیصلے بھی ہوئے۔ سرکاری اعلامیہ کے مطابق کابینہ اجلاس میں لیویز فورس کو آٹھ ارب روپے کی لاگت سے پیشہ ورانہ اور متحرک فورس میں ڈھالنے کے لیے چار سالہ منصوبے کی اصولی طور پر منظوری دی گئی۔ یہ منصوبہ چار مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ ڈائریکٹر جنرل لیویز فورس نے لیویز فورس کی تشکیلِ نو اور اس کی استعدادِ کار میں اضافے کے حوالے سے کابینہ اجلاس میں سفارشات پیش کیں کہ لیویز میں دس نئے شعبے بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ آپریشنل، کوئیک رسپانس فورس، مواصلات، انسدادِ دہشت گردی، بم ڈسپوزل، سی پیک سیکورٹی، سماجی و ترقیاتی منصوبوں کی سیکورٹی، انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن کے شعبے بنانے کے علاوہ لیویز اہلکاروں کی استعدادِ کار میں اضافے کے لیے تربیتی کورسز کرانے کی سفارشات بھی پیش کی گئیں۔
بلوچستان کے 90 فیصد علاقے میں لیویز فورس تعینات ہے جس کی نفری 23 ہزار سے زائد ہے، اور اس میں13ہزار اہلکار جدید خطوط پر تربیت لے چکے ہیں۔ فیڈرل لیویز کی تعداد 6560ہے۔ کابینہ نے لیویز فورس کی تشکیلِ نو اور اس کی وسعت کی مجوزہ سفارشات کی اصولی منظوری دی اور محکمہ داخلہ کو ان سفارشات کا جائزہ لے کر انہیں حتمی منظوری کے لیے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ صوبائی کابینہ نے گوادر تحصیل کو مکمل طور پر اے ایریا قرار دینے کی منظوری بھی دی۔ صوبائی کابینہ نے پاک فوج کے اشتراک سے کوئٹہ میں بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قیام کے منصوبے کی منظوری بھی دی جس کے لیے اراضی پاک فوج فراہم کرے گی، جبکہ انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر بھی پاک فوج کرے گی جسے ڈیڑھ سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ بی آئی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان ہوں گے جبکہ صوبائی وزیر صحت، اعلیٰ سول وعسکری حکام اور امراضِ قلب کے ماہرین بورڈ میں شامل ہوں گے۔ بی آئی سی کو چلانے کے اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔
پنجاب حکومت نے بھی چند سال قبل دو ارب روپے کی لاگت سے کوئٹہ میں ادارہ امراضِ قلب تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پچیس ایکڑ اراضی اور 100بستروں پر مشتمل یہ اسپتال بولان میڈیکل کالج اور اسپتال کے قریب تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، مگر اس منصوبے کو عملی شکل نہیں دی گئی۔ کاغذی کارروائیاں تک مکمل نہیں کی گئیں۔ اب امراضِ قلب کا ادارہ پاک فوج کے تعاون سے کوئٹہ چھائونی میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان جماعتوں کا اعتراض ہے کہ چھائونی تک مریضوں اور اُن کے رشتے داروں کی رسائی میں مشکلات پیش آئیں گی اور انہیں چیک پوسٹوں اور چیکنگ کے سخت عمل سے گزرنا پڑے گا، اور یہ کہ اسپتال کو شہر کے وسط اسپنی روڈ پر ہی تعمیر کیا جانا چاہیے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے کابینہ کے فیصلے کو بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پارٹی بیان میں کہا گیا:
’’2009ء میں اُس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف نے صوبے میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرز پر کوئٹہ شہر میں بھی کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ بنانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں 2 ار ب روپے کی خطیر رقم عطیہ کی۔ اور پھر یکم نومبر2009ء کو اسپنی روڈ پر 22 ایکڑ وسیع اراضی پر انسٹی ٹیوٹ کا باقاعدہ سنگِ بنیاد رکھا گیا، مگر افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اُس دن سے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اور سابقہ دورحکومت میں بلوچستان ہائی کورٹ نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن اور دیگر کی جانب سے دائر آئینی درخواست نمبر123 of 2013 پر اپنے واضح فیصلے میں صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا اسپنی روڈ کی مختص جگہ پر تعمیراتی کام فی الفور شروع کیا جائے۔ 2018-19ء کے سالانہ پی ایس ڈی پی میں صوبائی حکومت نے ڈھائی ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جو کہ پی ایس ڈی پی میں ریفلیکٹ بھی ہے، مگر موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کے اہم اور عوامی ضروریات کے حامل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو اپنی متعین کردہ جگہ پر بنانے کے بجائے کوئٹہ چھائونی میں بنانے کی منظوری دی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ کوئٹہ شہر سمیت صوبے کے عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عام حالت میں بھی لوگوں کو چھائونی میں داخل ہونے کے لیے باقاعدہ اجازت نامہ لینے، اجازت نامے کے باوجود ہر چیک پوسٹ پر انتظار اور پھر مسلسل کئی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ دل کی بیماریوں میں مبتلا حساس مریض ایمرجنسی میں بروقت داخلے کی اجازت نہ ملنے سے جان کی بازی ہارسکتے ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی کے بیان میں اسپتال کو چھائونی منتقل کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ :
’’حکومت سول آبادی پر بھی توجہ دے۔ عوام کے لیے سخت ایمرجنسی، ضروری کام، مریضوں کی دیکھ بھال، اسکول جانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے، اور پھر یہ اگر عسکری قیادت کی طرف سے عوام کے لیے تحفہ ہوتا تو کوئی بات بنتی۔ بلاوجہ سول آبادی کو تکلیف دینے اور چند ہزار افراد کو مستفیدکرنے کے لیے دل کے اسپتال کو چھائونی منتقل کرنا سول آبادی کے ساتھ زیادتی ہے۔ صوبائی حکومت کو عوام کے مسائل ومشکلات کا ادراک ہونا چاہیے، صرف دبائو میں آکر دل کے اسپتال کو چھائونی منتقل کرنا ٹھیک نہیں۔ چھائونی میں پہلے سے موجود اسپتال مہنگے اور عوام کی پہنچ سے دور ہیں، جس کے پاس چھائونی و فوج کی دستاویزات نہ ہوں اُس کا چھائونی جانا مشکل تر ہے۔ دل کے اسپتال کو شہر سے باہر چھائونی منتقل کرنا توہینِ عدالت و توہینِ عوام ہے۔ یہ اسپتال صوبے کی ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کے لیے ہے، مگر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اسپتال میں چند وی آئی پیز کا علاج ہو، یہ صوبے کے ایک کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی جس پر ہم ہر پلیٹ فارم پر آواز اُٹھائیں گے۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ امراض قلب کااسپتال اسپنی روڈ پر ہی قائم کیا جائے جو شہر کا وسط ہے، جہاں کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے آنے والوں کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ جبکہ چھائونی میں تعمیر کی صورت میں اسپتال تک عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہوگی۔ عوام کو اس حوالے سے تشویش ہے۔ ..