امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں خطاب کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ’’گردشی قرضوں میں اضافے کا ذمے دار کون ہے؟ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس نے حلال اور کس نے حرام دولت جمع کی ہے۔ موجودہ حکومت بھی ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ڈال رہی ہے۔ عوام تیل کی قیمتوں میں متوقع اضافے سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی تجویز نے عوام کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا اور عام آدمی جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے، بری طرح پس جائے گا‘‘۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی دولت لوٹنے والے بڑے مگرمچھوں کو پکڑے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر اپنی ضروریات پوری کرے۔ غریبوں پر ٹیکس لگانے اور بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافے سے آئی ایم ایف کا سود اترے گا نہ کاروبارِ حکومت زیادہ دیر تک چل سکے گا۔ سینیٹر سراج الحق نے مزید کہا کہ عوام نے پی ٹی آئی حکومت سے بہت سی توقعات باندھ رکھی ہیں۔ پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل اپنے منشور میں اور انتخابات کے بعد اپنے 100 روزہ پلان میں عوام کو تبدیلی اور خوش حالی کے بہت سے خواب دکھائے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کو پہلی ترجیح قرار دیا ہے، ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے اور 50 لاکھ لوگوں کو چھت مہیا کرنے کا عزم کیا ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ حکومت اس کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ سراج الحق نے اس توقع کے پورا نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بیماری کی اصل جڑ بھی بتا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سودی معیشت کی موجودگی میں مدینے جیسی اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کے دعووں پر کون یقین کرے گا! یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی سیاسی تاریخ کی نئی ابھرتی ہوئی قوت ہے اور کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی کی امید میں ایک بڑی تعداد نے اس سے توقع قائم کررکھی ہے۔ لیکن ابتدائی اقدامات نے ہی موجودہ حکومت کے مستقبل سے مایوس کرنا شروع کردیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں انتخابی عمل کے تازہ سلسلے کی چوتھی حکومت ہے۔ انتخابات کا یہ سلسلہ جنرل (ر) پرویزمشرف کا فوجی اقتدار قائم ہونے کے بعد 2002ء سے شروع ہوا۔ پہلی حکومت جنرل پرویزمشرف نے ق لیگ کی کنگز پارٹی کی شکل میں قائم کی۔ باقی دو حکومتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قائم ہوئیں جو امریکی ثالثی میں این آر او کے بدنام زمانہ معاہدے کا نتیجہ تھیں۔ اس معاہدے کے بعد ہی بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی جلاوطنی ختم ہوئی۔ چوتھی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی قائم ہوئی ہے جس کے قیام پر ’’پسِ پردہ ہاتھ‘‘ واضح نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود ایک بڑی تعداد نے تبدیلی کا خواب دیکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت کے لیے اولین ترجیح معاشی و اقتصادی استحکام رہا ہے، لیکن کوئی بھی حکومت عوام کے لیے حالات میں بہتری پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج منی بجٹ پیش کرنا تھا اور وہ اس چیلنج پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔ منی بجٹ کے حوالے سے حکومت کے وزیرخزانہ اسد عمر اور قائد حزبِ اختلاف میاں شہبازشریف کے درمیان قومی اسمبلی کے اجلاس میں مناظرانہ مباحثہ ہوا ہے۔ دونوں کی باتوں میں حق و باطل کی آمیزش موجود تھی، لیکن اصل جڑ کے اوپر کوئی بھی فریق بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کا جبر ہے جس کی بنیاد سودی معیشت میں ہے۔ کسی بھی ماہرِ معیشت سے پوچھیں کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل میں سرفہرست مسئلہ کیا ہے؟ تو وہ یہی کہے گا کہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ۔ موجودہ حکومت جو تبدیلی کا خواب لے کر آئی ہے اُس کے پاس بھی ایسے ماہرینِ معیشت موجود نہیں ہیں جو ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی سرمایہ داروں کے شکنجے سے آزاد کرا سکیں۔ اسی سرمایہ دارانہ معیشت کا نتیجہ قوم جرائم اور کرپشن کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ اس حوالے سے مغربیت کے غلبے کے باوجود قوم میں اتفاقِ رائے ہے کہ ملک کا نظام حکومت مدینے کی پہلی اسلامی ریاست کے مطابق قائم کیا جائے گا۔ سیکولر ملحدین کی اقلیت کی طاقت کے باوجود پاکستان کی منزل کو اجتماعی ضمیر نے اسلام ہی قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی منافقت کی وجہ سے قوم کو اسلام کے راستے پر سفر کرنے سے روکا جارہا ہے۔ سب سے بڑی منافقت سود کے حوالے سے ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں صاف اور واضح الفاظ میں یہ لکھ دیا ہے کہ اب جب کہ اللہ نے سود کو حرام قرار دے دیا ہے، جو کوئی بھی سودی کاروبار کرے گا وہ سن لے کہ اس کی اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد عہدِ جدید کا پورا نظامِ معیشت سود سے آلودہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے اسٹیٹ بینک کے ارکان کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ غیر سودی معیشت قائم کرنے کا چیلنج پورا کریں تاکہ سرمایہ دارانہ ظلم سے انسانیت کو چھٹکارا دلایا جا سکے۔ لیکن ہماری قومی زندگی کا سفر اس حوالے سے بہت خراب ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس حوالے سے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ اس سلسلے میں مجرمانہ کردار میاں نوازشریف نے اپنی حکومتوں کے دوران میں ادا کیا اور وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کو معطل کرا دیا۔ اب یہی امتحان نئی حکومت کا بھی ہے۔ اس کا اصل امتحان یہ ہے کہ ملک کو قرضوں کی معیشت سے کیسے نکالا جائے۔ اس کے بغیر نہ مہنگائی ختم ہوسکتی ہے اور نہ بے روزگاری۔