مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدماتِ جلیلہ سے امتِ مسلمہ کبھی صرفِ نظر نہیں کرسکتی کہ ایسے کارہائے نمایاں تاریخ تجدیدِ اسلام کے ہر باب و فصل کے لیے سرمایۂ افتخار و بدرجہ عنوان ہیں۔ مولانا گلشنِ حق کے ان لالہ و سنبل میں سے ہیں جن کی خوشبو سدا بہار، ہمیشہ متعفن باطل کو مغلوب کرکے طالبانِ حق کے دل و دماغ کو معطر کرتی رہتی ہے اور جسے فنا نہیں۔
علامہ اقبال
حیدر آباد سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ مسائلِ حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں ناں انہیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے وہ دعوت قبول کرلیں گے۔ اس جہاد فی الاسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ اور جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں انہیں کسی تاویل یا تفسیر کے بغیر بڑے کروفر سے پیش کیا ہے۔ اسلام کے نظریۂ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام ایک بہترین تصنیف ہے۔ میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔
علامہ سیّد سلیمان ندوی
مولانا مودودی صاحب سے علمی دنیا پورے طور پر واقف ہوچکی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے متکلمِ اسلام اور ایک بلند پایہ عالمِ دین ہیں۔ یورپ سے الحاد ودہریت کا سیلاب جو ہندوستان میں آیا تھا، قدرت نے اس کے سامنے بند باندھنے کا انتظام بھی ایسے ہی مقدس اور پاک طینت ہاتھوں سے کرایا ہے جو خود یورپ کے قدیم و جدید خیالات سے نہایت اعلیٰ طور پر کماحقہٗ واقفیت رکھتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی قرآن و سنت کا اتنا گہرا اور واضح علم رکھتا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل پر اس کی روشنی میں تسلی بخش طور پر گفتگو کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحدوں اور دہریوں نے اس شخص کے دلائل کے سامنے گردنیں ڈال دی ہیں، اور یہ بات واضح طور سے کہی جاسکتی ہے کہ مودودی صاحب سے ہندوستان اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی بہت سی توقعاتِ دینی وابستہ ہیں۔
شورش کاشمیری
مولانا جس مقام پر کھڑے ہیں اب امتدادِ زمانہ کی گردش بھی انہیں اس مقام سے اُتارنے پر قادر نہیں، اور نہ ان کی علمی وجاہت اور دینی شہامت اتنی ارزاں ہے کہ ہر کہ و مہ انہیں کانچ کی شیشیاں سمجھ کر کلوخ اندازی سے توڑ سکتا ہے۔ آج کے لوگ نہ جانیں یا اُن پر بہتان تراشی کرکے اپنے اعمال کو گندہ کرلیں، لیکن وہ دن ضرور آئے گا جب یہ دنیا انہیں اسلام کے محسنوں میں شمار کرے گی اور وہ اس صف میں کھڑے نظر آئیں گے جہاں ہمارے بڑے بڑے دینی اکابر کھڑے نظر آئیں گے۔
اے کے بروہی
انسان کی سب سے قیمتی متاع اس کی سیرت و کردار ہے، اور اگر کسی آدمی کی سیرت و کردار کو تبدیل کرنا اور اس میں کوئی قابلِ قدر تغیر کردینا ممکن ہے تو جو شخص یہ کام سرانجام دیتا ہے وہ اس آدمی کی زندگی کا معمار ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے میری رائے میں آج پاکستان کے سب سے عظیم انسان مولانا مودودی ہیں۔
میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ وہ کون سا فردِ واحد ہے جس نے پاکستان کے لوگوں کے کردار کو سب سے زیادہ مثبت طور پر متاثر کیا ہے تو میرا جواب یہ ہوگا کہ وہ مولانا مودودی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جو کچھ میں نے آج لکھا ہے میں کل بھی یہی کچھ لکھوں گا۔ اگر یوم آخرت پر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری گواہی طلب فرمائی تو میں اُس وقت بھی یہی کہوں گا۔
مولانا قاری محمد طیب
دارالعلوم دیوبند
مولانا مودودی نے اسلامی اجتماعیات کے بارے میں نہایت مفید اور قابلِ قدر ذخیرہ فراہم کیا ہے۔ اس دور خلط و اختلاط اور تلبیس و اقتباس میں جس بے جگری سے انہوں نے اسلامی اجتماعیات کا تجزیہ و تنقیح کرکے جماعتی مسائل کو صاف کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ میں انہیں اسلامی اجتماعیات کا ایک بہترین اسلامی لیڈر مان کر ان کی تقریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
مولانا ابوالحسن ندوی
ان کا اسلوبِ تحریر، محکم استدلال، اصولی و بنیادی طریقِ بحث، اور سب سے بڑھ کر ان کی سلاست ِ فکر، ہماری افتادِ طبع اور ذہنی ساخت کے عین مطابق تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا قلم اپنی خداداد قدرت و قابلیت کے ساتھ ہمارے بے زبان ذہن و ذوق کی ترجمانی کررہا ہے۔ وہ وقت کبھی نہیں بھولتا جب ندوہ کے مہمان خانے کے سامنے ہم چند دوستوں نے محرم ۳۵۶ھ کے ترجمان القرآن کے اشارات پڑھے تھے جن میں آنے والے طوفان کی خبر دی گئی تھی۔ یہ مولانا کا وہ ولولہ انگیز مضمون تھا جس کی بازگشت عرصے تک سنی جاتی رہی۔ ہم سب لوگوں نے مولانا کی فراست، خطرے کی صحیح نشاندہی اور قوتِ تحریر کی دل کھول کر داد دی۔
علامہ الشیخ مصطفیٰ زرقا
(سابق وزیر تعلیم شام)
حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دینی فکر کے لحاظ سے امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی صف کے مفکر ہیں۔
(حوالہ بادبان ، لاہور،ستمبر 1997)