وزیراعظم عمران خان کی نئی حکومت کے سامنے داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج ملکی خارجہ پالیسی کو عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جو ریاست داخلی محاذ پر بحران کا شکار ہو وہ اپنے لیے مضبوط خارجہ پالیسی بنانے میں مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجی امورکے ماہرین کی نظر میں خارجی مسائل سے نمٹنے کے لیے پہلی اور بنیادی ترجیح داخلی مسائل سے نمٹنا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی بیانیہ کیا ہوگا؟ وزیراعظم عمران خان نے انتخاب جیتنے کے فوری بعد جو پہلی تقریر کی تھی اُس میں عملاً خارجہ پالیسی کا بیانیہ پیش کردیا تھا۔ اس بیانیہ میں انہوں نے عالمی برادری سمیت بالخصوص بھارت، افغانستان، ایران، چین اور امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرنے پر زور دیا تھا۔ وزیراعظم نے بھارت کے معاملے میں ایک قدم آگے بڑھ کر بھارتی قیادت کو پیغام دیا کہ وہ تعلقات کی بہتری میں ایک قدم آگے بڑھیں، ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ افغانستان کے معاملے میں بھی حکومت نے افغان حکومت کو واضح پیغام دیا کہ ہمیں الزام تراشیوں سے آگے نکل کر دو طرفہ تعاون اور باہمی تعلقات کی بہتری کی طرف پیش قدمی پر توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر امریکہ، بھارت تعلقات اور بالخصوص بھارت، افغان تعلقات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا۔کیونکہ اس وقت خطے کی سیاست میں پاکستان کے تناظر میں جو بداعتمادی ہے اس کا براہِ راست تعلق امریکہ، بھارت اور افغان تعلقات سے ہے۔ پاکستان چین تعلقات اور بالخصوص سی پیک منصوبے پر بھارت کے جو تحفظات ہیں اُن کو دور کرنا خود پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یوم دفاع کے موقع پر کہا ہے کہ ہم مستقبل میں کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ ہمارا کردار فریقین کے درمیان پیدا ہونے والی بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی تنازعات ختم کرکے عوام کے بنیادی مسائل غربت، پسماندگی، جہالت اور بے روزگاری پر توجہ دے کر ایک بڑے معاشی اور سیاسی استحکام پر نئے ترقیاتی چارٹر کی بنیاد پر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ٹیلی فونک گفتگو کا ایجنڈا بھی ان ہی نکات سے جڑا ہوا تھا۔ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ علاقائی سیاست کا استحکام ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب تک علاقائی سیاست میں شامل ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی ختم نہیں ہوگی، عالمی سطح پر بھی کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب نہیں دی جاسکے گی جو آج کی دنیا میں ہماری ضرورت ہے۔
افغانستان کے بحران کا حل ہماری پہلی اور بنیادی ترجیح ہونی چاہیے، کیونکہ افغان مسئلے کا تعلق خود بھارت سے ہمارے بہتر تعلقات سے بھی جڑا ہوا ہے۔ بھارت عملاً افغان مسئلے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، جس کا علاج ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔ اس مسئلے کا ایک حل امریکہ، افغان حکومت اورافغان طالبان کے درمیان بامقصد اور بامعنی مذاکرات ہیں۔ کیونکہ اس مسئلے پر امریکہ اور افغان حکومت کا بہت زیادہ انحصار پاکستان پر ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے کارڈ بہت اہمیت کے حامل ہیں، اور دیکھنا ہوگا کہ ہم اس مسئلے کے مستقل حل میں اپنے کارڈ کیسے کھیلتے ہیں۔
ایک مسئلہ امریکہ چین اور پاکستان تعلقات کا ہے۔ امریکہ کو پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار کچھ زیادہ اچھا نہیں لگ رہا، اور بالخصوص سی پیک کے تناظر میں امریکہ کے کچھ تحفظات ہیں۔ امریکہ کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ابھی تک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کا سرکاری دورہ نہیں کیا۔ امریکہ نے وزیراعظم کے اس پیغام کو بھی محسوس کیا ہے جو وزیراعظم نے یوم دفاع کے موقع پر دیا کہ ہم مستقبل میں کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ امریکہ کو لگتا ہے کہ یہ پیغام ہمیں سیاسی قیادت کی جانب سے فوج کے ایما پر دیا گیا ہے۔ امریکہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان ہمارے مقابلے میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے جس سے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہم پر دبائو ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کو ممکن بناسکے۔
حالیہ کچھ عرصے میں پاک امریکہ تعلقات میں جو سردمہری نظر آتی ہے اُس کا علاج بھی ہمیں تلاش کرنا ہے، اور اس میں بھی دو مسئلے اہم ہیں، اوّل: دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کا کردار اورامریکہ کی شرائط، اور دوئم: افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کی مدد اور چین سے تعلقات میں امریکی مفادات کی اہمیت۔ اصل میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی اہمیت کے پیش نظر ایک بڑی جنگ سفارت کاری اور ڈپلومیسی کے محاذ پر لڑنی ہے۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومت میں وزیر خارجہ کی عدم تقرری نے خاصے مسائل پیدا کیے۔ نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ سفارت خانوں اور سفارتی سطح پر نئی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سوچ بچار کرکے عملی اقدامات اٹھائے۔ سیاسی اور اقربا پروری کی بنیاد پر تعینات سفارت کاروں کو ہٹاکر پروفیشنل لوگوں کو سامنے لائے۔
بنیادی طور پر پاکستان کو سفارتی محاذ پر دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کلیدی کردار اور اس میں موجود علاقائی سطح کے چیلنجز جن کا ایک براہِ راست تعلق بھارت اورافغانستان سے ہے، کو اجاگر کرنا ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کروایا جاسکے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ محض پاکستان کے مفاد سے ہی نہیں بلکہ خطے اور عالمی مفادات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو ممالک پاکستان کی تصویر منفی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں، ہم اس کا متبادل بیانیہ پیش کریں آج کی دنیا میں تھنک ٹینک اداروں کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمیں قومی سطح پر سرکاری اور غیر سرکاری تھنک ٹینک کو فروغ دینا چاہیے اور جو عالمی سطح کے معتبر تھنک ٹینک ہیں اُن سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ میڈیا میں سفارت کاری کے محاذ پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہوسکے کہ ہم کمزور نہیں ہیں بلکہ خطے کی سیاست میں ہمارا کردار کلیدی ہے، اوراس کردار کے بغیر خطے کا امن ممکن نہیں۔
پاکستان کو لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور بہت سے امور پر روایتی یا پرانے طریقوں سے ہٹ کر کچھ نیا پن دکھانے کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی ہے جو اچھی بات ہے۔ کیونکہ سول اورملٹری تعلقات کا بگاڑ بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ جب سیاسی اور عسکری سطح سے دو مختلف بیانیے دنیا میں پیش کیے جائیں گے تو اوّل ہمارا مقدمہ کمزور ہوگا، اور اس کا فائدہ ہمارے مخالفین کو ہوگا۔
سول ملٹری تعلقات کی بہتری کی بنیادی کلید باہمی مشاورت ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت داخلی چیلنجز سے نمٹنے میں بھی ایک دوسرے کا دست وبازو بنیں،کیونکہ جو مسائل ہمیں درپیش ہیں ان کو حکومت کی ناکامی یا کامیابی سے زیادہ ریاست کے مضبوط اور کمزور ہونے سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو باہمی طور پر اپنے داخلی اور خارجی مسائل اور بالخصوص جو اہم رکاوٹیں ہیں اُن پر مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک دوسرے کی ضرورتوں اور مسائل کو سمجھ کر اپنی سیاسی ودفاعی حکمت عملی کو ترتیب دیں۔ یہ پیغام ہمیں سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پھیلانا ہوگا کہ پاکستان مسائل بڑھانا نہیں بلکہ مسائل کا پُرامن اور دو طرفہ قابلِ قبول حل چاہتا ہے۔
ہمیں اپنے مخالفین کے اس فکری مباحثے کو کمزور کرنا ہوگا کہ خطے کی سیاست میں پاکستان رکاوٹ ہے اوراس کی پالیسی تضادات سے پُر ہے۔ لیکن یہ کام سیاسی اور عسکری قیادت کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔ اس کے لیے داخلی بحران کے حل کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے گھر میں بھی ایک بڑی صفائی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ یہ بھی ماننا ہوگا کہ داخلی اور خارجی سطح پر جو مسائل ہیں ان سے ہمیں خود نمٹنا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بڑا امتحان ہے کہ حالیہ علاقائی اور عالمی تعلقات کی بہتری میں وہ وزیراعظم اور عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کیا کچھ ایسا کرتے ہیں جو ہمیں ایک بڑے بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرسکے۔