واصف علی واصف
جب تک رات اور دن قائم ہیں، اختلاف قائم رہے گا۔ اختلاف ہی شاید زندگی ہے، زندگی کا حسن ہے، زندگی کا دوام ہے۔ خالق نے تخلیقِ کائنات میں اختلافِ لیل و نہار ہی نہیں… اختلافِ عقائد، اختلافِ مزاج، اختلافِ مشاہدات، بلکہ اختلافِ حالات کو تخلیق فرماکر فنِ تخلیق کے کمالات کا اظہار فرمایا ہے۔
ہر عقیدے کے مخالف ایک عقیدہ ہے، ہر آرزو کے برعکس آرزو ہے، ہر مزاج کے روبرو ایک مزاج ہے، ہر جنس کے مقابل ایک جنس ہے، ہر اَنا کے سامنے ایک اَنا ہے، ہر خودی کی ضد ایک خودی ہے، ہر خوشی کے باطن میں غم ہے، اور ہر مایوسی کے عالم میں امید جلوہ گر ہے…
دنیا میں اگر کوئی شے ناممکن ہے تو ہم رنگی و یک رنگی عقیدہ ہے۔ اللہ کریم نے اپنی لامحدود قدرتوں کے سامنے اپنی ہی مخلوق میں سے ایک قوت، اپنی ذات کے مقابل، بغاوت و طاغوت میں قائم، بیان فرمائی ہے۔ قادرِ مطلق کے حکمِ مطلق سے انکار کرنے کا حوصلہ رکھنے والا کون ہوسکتا ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟ اسے جرأت ِانکار کیوں ہے؟ اسے موت کیوں نہ آئی؟ وہ فنا کیوں نہ کردیا گیا؟ اگر شیطان نے بغاوت کی بھی، تو اس بات کا بیان قرآن کی آیت کیوں ہے؟ اختلاف کو عالی ظرفی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بقائے حیات اور بقائے اختیار کا ثبوت ہے۔ خالق مخالف کو تباہ نہیں کرتا۔ مخلوق مخالف کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ یہی خالق اور مخلوق میں فرق ہے۔ لوگوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا… اللہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ایسی خبر کے بارے میں پوچھتے ہیں، جس میں ان کا اختلاف ہے۔ اختلاف مشاہدے کے بغیر ختم نہیں ہوتا، اور قیامت کا مشاہدہ زندگی ختم کردے گا۔ پھر لوگ جان لیں گے۔ ان کو علم ہوجائے گا۔ اور وہ علم کیا علم ہوگا جو صاحبِ علم کو فنا کردے۔
زندگی میں اختلاف ایسے ہے جیسے فطرت کے مشاہدات میں اختلاف… عجب حسن ہے، اختلاف کے عالم ہیں!!
پہاڑ ہیں کہ میخوں کی طرح گڑے ہیں۔ چٹانیں ٹھوس، قوی عزم کی طرح اٹل، اپنی جگہ قائم و دائم… اور پھر پہاڑوں کے دامن میں وادیاں حسین و جمیل، دریا رواں دواں اور پھر میدان بچھونے کی طرح کشادہ، اور پھر صحرا اور سمندر… پیاسے صحرا اور لبریز سمندر۔ عجب عالم ہے۔ حسن ہی حسن، جلوہ ہی جلوہ اور اختلاف ہی اختلاف!!
تیز ہوائیں، خاموش فضائیں، بلند آسمان، متحرک اجسام، منور سیارگان، تاریک راتوں میں روشن قمر، درخشندہ ستارے اور پھر سورج، بقا اور فنا کا بیک وقت پیامبر… سب اختلافات زیست کے حسین کرشمے ہیں۔
رونقِ حیات اختلافات کے دم سے ہے۔ گرمیٔ بازار نیرنگیٔ اشیاء کے باعث ہے۔ شعور کی پختگی اور خیال کی بلندی اختلافِ شعور اور اختلافِ رائے سے ہے۔
عقیدے کی پختگی اختلاف ِ عقیدہ کی برداشت کا نام ہے۔ ناپختہ عقیدہ چھوٹے برتن کی طرح جلد گرم ہوجاتا ہے۔ سب سے قوی عقیدہ اس ذاتِ گرامی کا ہے، جو کائنات کے ہر انسان کے لیے رحمت کا پیغامبر ہے۔ سلام ہو اس ذات پر، جو سب کی سلامتی کی خواہاں ہے، جس نے کسی کے لیے بددعا نہیں کی، جو ہر زخم کے لیے مرہم ہے، جو ہر دل سے پیار فرماتی ہے، جس کے پاس شفقتوں کے خزانے ہیں، جس نے کم ظرفوں کو عالی ظرف بنایا، جس نے اختلاف برداشت نہ کرنے والوں کو صبر و استقامت کی منزلیں عطا فرمائیں۔ بلند عقیدہ بلند دروازوں کی طرح آنے والوں کے استقبال میں کشادہ رہتا ہے۔ محبت نہ ہو تو عقیدہ بلند نہیں ہوسکتا، اور محبت نفرت کی ضد ہے۔ عقیدوں سے نفرت انسانوں سے نفرت ہے، اور انسانوں سے نفرت خالق کی محبت سے محروم کردیتی ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سب عقائد درست ہیں، قطعاً نہیں۔ درست عقیدے والا نادرست عقائد کو محبت سے بدل دیتا ہے۔ نفرت اور غصہ عقیدوں کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ جس دل میں نفرت پرورش پائے، وہ خود عقیدے سے محروم ہوجاتا ہے۔
یہ بات ذرا پیچیدہ سی ہے، آئیے غور کریں:
اللہ کی زمین پر اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر پلنے والے اللہ کے پیدا کیے ہوئے انسان اللہ کو نہیں مانتے۔ سوچیے کیا اللہ چاہتا ہے کہ سب لوگ ایک عقیدے میں شامل ہوں؟ کیا اللہ سب کو ہم عقیدہ بنانے پر قادر ہے کہ نہیں؟ اگر اللہ قادر ہے تو کیوں نہیں سب کو ہم عقیدہ بنایا؟ اللہ یقینا قادر ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ سے ہی عقیدوں کے اختلاف کے باوجود کائنات کے ہر انسان کو رزق عطا فرماتا ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ نے اختلاف کو کبھی تباہ نہیں فرمایا، یا مکمل طور پر اختلاف کا خاتمہ نہیں کیا… شیطان اللہ کا دشمن ہے، لیکن ہے اور رہے گا…!! اختلاف کا جواز یہ ہے کہ جنت پیدا فرمانے والے نے دوزخ کو بھی پیدا فرمایا۔ قوت اور صداقت ایک ہی طاقت کے نام ہیں اور اسی طاقت کو عقیدہ کہتے ہیں۔ یہ طاقت اختلاف پر برہم نہیں ہوتی۔ قوت بغاوت سے ڈرتی نہیں۔ صداقت آفتاب کی طرح ہے، جسے کسی کاذب اندھیرے کا ڈر نہیں ہوتا۔ عقیدہ اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ اسے کسی اختلاف کا خوف نہیں ہوتا۔ خوف زدہ عقیدہ، عقیدہ نہیں رہ سکتا!! ساری کائنات بھی اگر مخالف ہوجائے تو اللہ اور اللہ والوں کو فرق نہیں پڑ سکتا!
(’’دل دریا سمندر‘‘…واصفیات)
سادہ دل بندے
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
اس شعر میں علامہ نے انتہائی جرأت اور حق گوئی کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ عجب کیفیت ہے کہ بھولے بھالے، سادہ مزاج، معصوم صفت مسلمانوں کو درویشوں اور سلطانوں نے دھوکا، فریب اور عیاری و مکاری کا شکار بنا رکھا ہے۔ مذہب کے لبادے میں درویشوں نے چال بازیوں کا جال بچھا رکھا ہے تو ان کے چھوٹے بڑے سلطانوں، راجوں، مہاراجوں، نوابوں، جاگیرداروں نے انہیں دہری غلامی میں پھنسایا ہوا ہے۔ انگریز کی سامراجی بادشاہی اپنی جگہ اور ان درویش و سلطان طبقوں کے جال میں گرفتاری اپنی جگہ۔ علامہ ان مظلوم و مجبور اور مقہور سادہ لوگوں پر ترس کھاکر اللہ ہی سے ہم کلام ہوتے ہیں کہ بتا تیرے یہ معصوم بندے آخر جائیں تو جائیں کہاں۔ اور یہ مسئلہ چند ظاہری تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی قائم ہے۔ ہماری نام نہاد قیادتوں نے اپنے پیروکاروں کو قبروں، خانوادوں، لسانی و علاقائی عصبیتوں اور فرقوں وغیرہ کے بتوں کا پجاری بنا رکھا ہے۔ امتِ مسلمہ جو توحید کی علَم بردار اور صرف ایک ہی معبود کی عبادت گزار بنائی گئی، مگر آج اسے مذکورہ جماعتی، فقہی، سیاسی، گروہی بتوں کا پجاری بنا ڈالا گیا ہے۔ اللہ ہی سے فریاد کی جا سکتی ہے کہ مولا کریم ہمارے حال پر رحم فرما۔ (آمین)
’’علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات‘‘
پروفیسررشید احمد انگوی