معروف اقتصادی جریدے ’’فنانشل ٹائمز‘‘نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی نئی حکومت چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر نظرِثانی پر غور کررہی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق وزیراعظم کے مشیرِ صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ سی پیک معاہدوں میں پاکستانی کمپنیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور چینی کمپنیاں ناجائز فائدہ اٹھارہی ہیں، لہٰذا سی پیک منصوبوں کو ایک سال کے لیے روک دینا چاہیے۔ اس کے بعد سے ذرائع ابلاغ پر اس منصوبے کے حوالے سے ایک بار پھر بحث ہورہی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے یعنی سی پیک کے مستقبل اور تعاون کا تعین مشاورت سے کیا جائے گا۔ ترجمان چینی محکمہ خارجہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کی رفتار بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے اور اس منصوبے پر مشاورت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے مطابق ہوگی۔ ترجمان چینی وزارتِ خارجہ ژینگ شوانگ نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے، جب کہ وزیر خارجہ وانگ ژی کے دورۂ پاکستان کا مقصد روایتی دوستی کی تجدید تھی۔ اس حوالے سے عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے حالیہ انٹرویو کے کچھ حصے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے۔ مشیر تجارت نے کہا کہ چین کے وزیر خارجہ کے دورے میں اسٹرے ٹیجک تعاون جاری رکھنے اور سی پیک منصوبوں کو پورا کرنے کے عزم کو دہرایا گیا اور اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کو آگاہ کیا گیا کہ سی پیک ہماری قومی ترجیح ہے، جب کہ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے دونوں ممالک کے مفاد میں اس منصوبے کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے مزید کہا کہ پاک چین تعلقات ناقابلِ تسخیر ہیں اور دونوں ممالک میں سی پیک کے مستقبل سے متعلق مکمل یکسوئی ہے۔ اس تردید کے باوجود بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اسی طرح اپنے آغاز سے ہی عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے جس طرح مسلمان اور اسلام مغرب کے نشانے پر ہیں، اور اس تجزیے کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہم انفرادی اور ریاستی سطح پر اکثر وہ کام کرتے ہیں جو قومی مفاد کے برخلاف ہوں لیکن چرچا کچھ اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے بہت اہم منصوبہ ہے، ایک تناظر میں تو عالم اسلام کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ سی پیک دنیا میں جاری اِس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جس کی ابتدائی مالیت 46 ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر 62 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ اس میں ساٹھ سے زائد ممالک شامل ہیں جو چھ مختلف اقتصادی راہداریوں کے ذریعے ایک نئے عالمی اقتصادی نظام سے منسلک ہوجائیں گے۔ منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ ایشیا کے جنوب میں پاکستان کی گوادر اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ واقع ہیں جو علامتی طور پر ہی سہی، تقریباً جڑواں حیثیت میں پنپنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کی جنوبی ایشیا کے سیاسی و معاشی میدان میں خاص اہمیت ہے۔ سی پیک کی تکمیل سے یہ وسطی اور مغربی ایشیا کی ایک ایسی قوت بن کر ابھر سکتا ہے جسے نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ افغانستان میں امن و استحکام کے تناظر میں بھی اس منصوبے کی بہت اہمیت ہے۔ یہ منصوبہ مستقبل میں صرف پاکستان، چین اور اس خطے کے لیے گیم چینجر نہیں ہے بلکہ وسیع تناظر میں عالمِ اسلام کے دیگر ممالک کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی پہلے ہی اس منصوبے میں شرکت کے لیے دلچسپی ظاہر کرچکا ہے، کیونکہ پاکستان کی طرح ترکی کا محلِ وقوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی بھی ہماری طرح مستقل طور پر عالمی طاقتوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ ترکی ایک ایسا پُل ہے، جو ایشیا کو یورپ سے ملاتا ہے۔ بظاہر سی پیک منصوبہ چین سے شروع ہوکر گوادر پر ختم ہوتا ہے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ چین کو یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے، جس میں ترکی اہم ترین ملک ہے۔ اس اہم منصوبے کی بروقت اور جامع تکمیل کی صورت میں پاکستان کا نہ صرف معاشی جغرافیہ تبدیل ہوجائے گا بلکہ عالم اسلام کے سیاسی حالات بھی تبدیل ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس منصوبے کو پاکستان اور خطے کے لیے اہم سمجھتی ہے اور اُس کے نزدیک بھی یہ گیم چینجر منصوبہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ منصوبہ نئی حکومت کی بھی اہم ترجیح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبہ چینی صدر کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ وژن کا عکاس ہے۔ چینی شہریوں کا تحفظ اور سی پیک کی سلامتی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فنائنشل ٹائم میں خبر ٹھیک ہے یا نہیں ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ چین سے سی پیک معاہدے کے شرائط اور ضوابط کا جائزہ لیا جائے یہ نئی حکومت کا حق ہے اور اسے کرنا بھی چاہیے کیونکہ ابھی تک شاید کسی کو بھی نہیں معلوم کے ہم نے چین کے ساتھ کیا معاہدے کیے ہیں لیکن یہ جائزے کا عمل کسی دباو کے نتیجے میں نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے تحت ہونا چاہیے کیونکہ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمدنے بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقتصادی منصوبے سے منسلک اپنے ملک کے بنیادی ڈھانچے کے بعض منصوبوں کو معطل کیا ہے۔مہاتیر محمد نے اپنے پیشرو کے شروع کیے ہوئے منصوبے ان کی بلند لاگت کو وجہ بتاتے ہوئے معطل کر دیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ’’ ہم فری نہیں منصفانہ تجارت “Fair Trade” پر یقین رکھتے ہیں۔ مہاتیر محمد نے کہا ہم ان تمام معاہدوں کو آپ(چین) کے ساتھ مل کر ازسرنو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چین ملائیشیا کا معاشی بحران حل کرنے میں مدد دے گا۔ اورچین نے اس فیصلے پر تنقید نہیں کی ہے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے کہا کہ ہمیں ملائیشیا سے ہمدردی ہے۔ یہ منصوبے طویل مدتی ہیں۔ مذاکرات سے مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے یہ منصوبہ صرف وقتی، مقامی اور محدود فوائد کے تناظر میں اہمیت کا حامل نہیں ہے،اگرسوچ مقامی اور وقتی ترجیحات کے گرد گھومے گی تو پھر منصوبے اور اقدامات بھی اسی نوعیت کے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر منصوبے پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں اور ان کے جواب بھی ملکی اور قومی مفاد کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس منصوبے کے حوالے سے بھی کچھ ایسے پہلو ہیں اور ہوں گے جو فوائد پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ان پہلوؤں کو بروقت شناخت کرنا اور اِن کے منفی اثرات کا تدارک تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ ملکی مفادات کے حصول کے پس منظر میں آگے بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس کاجہاں چینی حکام کے ساتھ مل کر جائزہ لیتے رہنا چاہیے، وہیں اس کو شفاف بنانے کے لیے بھی نظام بنانا چاہیے جو ہمارے یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پھر اس کے ساتھ چین کے اپنے مفادات کو بھی وسیع تناظر میں نظر میں رکھنا چاہیے۔ آنکھ بند کرکے سفر کرنا بھی عقل مندی نہیں ہے۔ باقی رہی بات اس کے خلاف بننے والے منصوبوں کی، تو وہ اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا، کیونکہ بھارت اس منصوبے کو کسی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کے خلاف امریکہ کی آشرباد سے گلوبل پروپیگنڈا کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ چین کے ساتھ کئی سرحدی مسائل میں پہلے ہی الجھا ہوا ہے۔ چین اور امریکہ تعلقات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے بھارت مستقبل میں اس منصوبے کا حصہ بھی بن جائے۔مستقبل میں خطے میں نئے دوست نئے اتحاد مضبوطی کے ساتھ آئندہ کے عالمی حالات میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سی پیک تو دشمنوں کے نشانے پر ہے اور وہ اس کے لیے طرح طرح کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں، اس لیے اہم بات اور اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت میں چومکھی لڑائی کا اس پورے پس منظر کے ساتھ شعور بھی موجود ہے؟ کیا ان میں یہ صلاحیت ہے کہ چین کے ساتھ معاملات اپنے قومی مفاد کے مطابق آگے بڑھا سکیں؟ اور مغرب، امریکہ اور بھارت کے پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف منصوبوں کو ناکام بنا سکیں کیا ہمارے قیادت کے پاس ملائشیا کی قیادت کی طرح قائدانہ صلاحیت موجود ہے؟ اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اسی طرح اپنے آغاز سے ہی عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے جس طرح مسلمان اور اسلام مغرب کے نشانے پر ہیں، اور اس تجزیے کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہم انفرادی اور ریاستی سطح پر اکثر وہ کام کرتے ہیں جو قومی مفاد کے برخلاف ہوں لیکن چرچا کچھ اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے بہت اہم منصوبہ ہے، ایک تناظر میں تو عالم اسلام کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ سی پیک دنیا میں جاری اِس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جس کی ابتدائی مالیت 46 ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر 62 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ اس میں ساٹھ سے زائد ممالک شامل ہیں جو چھ مختلف اقتصادی راہداریوں کے ذریعے ایک نئے عالمی اقتصادی نظام سے منسلک ہوجائیں گے۔ منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ ایشیا کے جنوب میں پاکستان کی گوادر اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ واقع ہیں جو علامتی طور پر ہی سہی، تقریباً جڑواں حیثیت میں پنپنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کی جنوبی ایشیا کے سیاسی و معاشی میدان میں خاص اہمیت ہے۔ سی پیک کی تکمیل سے یہ وسطی اور مغربی ایشیا کی ایک ایسی قوت بن کر ابھر سکتا ہے جسے نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ افغانستان میں امن و استحکام کے تناظر میں بھی اس منصوبے کی بہت اہمیت ہے۔ یہ منصوبہ مستقبل میں صرف پاکستان، چین اور اس خطے کے لیے گیم چینجر نہیں ہے بلکہ وسیع تناظر میں عالمِ اسلام کے دیگر ممالک کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی پہلے ہی اس منصوبے میں شرکت کے لیے دلچسپی ظاہر کرچکا ہے، کیونکہ پاکستان کی طرح ترکی کا محلِ وقوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی بھی ہماری طرح مستقل طور پر عالمی طاقتوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ ترکی ایک ایسا پُل ہے، جو ایشیا کو یورپ سے ملاتا ہے۔ بظاہر سی پیک منصوبہ چین سے شروع ہوکر گوادر پر ختم ہوتا ہے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ چین کو یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے، جس میں ترکی اہم ترین ملک ہے۔ اس اہم منصوبے کی بروقت اور جامع تکمیل کی صورت میں پاکستان کا نہ صرف معاشی جغرافیہ تبدیل ہوجائے گا بلکہ عالم اسلام کے سیاسی حالات بھی تبدیل ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس منصوبے کو پاکستان اور خطے کے لیے اہم سمجھتی ہے اور اُس کے نزدیک بھی یہ گیم چینجر منصوبہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ منصوبہ نئی حکومت کی بھی اہم ترجیح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبہ چینی صدر کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ وژن کا عکاس ہے۔ چینی شہریوں کا تحفظ اور سی پیک کی سلامتی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فنائنشل ٹائم میں خبر ٹھیک ہے یا نہیں ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ چین سے سی پیک معاہدے کے شرائط اور ضوابط کا جائزہ لیا جائے یہ نئی حکومت کا حق ہے اور اسے کرنا بھی چاہیے کیونکہ ابھی تک شاید کسی کو بھی نہیں معلوم کے ہم نے چین کے ساتھ کیا معاہدے کیے ہیں لیکن یہ جائزے کا عمل کسی دباو کے نتیجے میں نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے تحت ہونا چاہیے کیونکہ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمدنے بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقتصادی منصوبے سے منسلک اپنے ملک کے بنیادی ڈھانچے کے بعض منصوبوں کو معطل کیا ہے۔مہاتیر محمد نے اپنے پیشرو کے شروع کیے ہوئے منصوبے ان کی بلند لاگت کو وجہ بتاتے ہوئے معطل کر دیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ’’ ہم فری نہیں منصفانہ تجارت “Fair Trade” پر یقین رکھتے ہیں۔ مہاتیر محمد نے کہا ہم ان تمام معاہدوں کو آپ(چین) کے ساتھ مل کر ازسرنو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چین ملائیشیا کا معاشی بحران حل کرنے میں مدد دے گا۔ اورچین نے اس فیصلے پر تنقید نہیں کی ہے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے کہا کہ ہمیں ملائیشیا سے ہمدردی ہے۔ یہ منصوبے طویل مدتی ہیں۔ مذاکرات سے مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے یہ منصوبہ صرف وقتی، مقامی اور محدود فوائد کے تناظر میں اہمیت کا حامل نہیں ہے،اگرسوچ مقامی اور وقتی ترجیحات کے گرد گھومے گی تو پھر منصوبے اور اقدامات بھی اسی نوعیت کے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر منصوبے پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں اور ان کے جواب بھی ملکی اور قومی مفاد کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس منصوبے کے حوالے سے بھی کچھ ایسے پہلو ہیں اور ہوں گے جو فوائد پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ان پہلوؤں کو بروقت شناخت کرنا اور اِن کے منفی اثرات کا تدارک تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ ملکی مفادات کے حصول کے پس منظر میں آگے بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس کاجہاں چینی حکام کے ساتھ مل کر جائزہ لیتے رہنا چاہیے، وہیں اس کو شفاف بنانے کے لیے بھی نظام بنانا چاہیے جو ہمارے یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پھر اس کے ساتھ چین کے اپنے مفادات کو بھی وسیع تناظر میں نظر میں رکھنا چاہیے۔ آنکھ بند کرکے سفر کرنا بھی عقل مندی نہیں ہے۔ باقی رہی بات اس کے خلاف بننے والے منصوبوں کی، تو وہ اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا، کیونکہ بھارت اس منصوبے کو کسی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کے خلاف امریکہ کی آشرباد سے گلوبل پروپیگنڈا کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ چین کے ساتھ کئی سرحدی مسائل میں پہلے ہی الجھا ہوا ہے۔ چین اور امریکہ تعلقات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے بھارت مستقبل میں اس منصوبے کا حصہ بھی بن جائے۔مستقبل میں خطے میں نئے دوست نئے اتحاد مضبوطی کے ساتھ آئندہ کے عالمی حالات میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سی پیک تو دشمنوں کے نشانے پر ہے اور وہ اس کے لیے طرح طرح کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں، اس لیے اہم بات اور اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت میں چومکھی لڑائی کا اس پورے پس منظر کے ساتھ شعور بھی موجود ہے؟ کیا ان میں یہ صلاحیت ہے کہ چین کے ساتھ معاملات اپنے قومی مفاد کے مطابق آگے بڑھا سکیں؟ اور مغرب، امریکہ اور بھارت کے پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف منصوبوں کو ناکام بنا سکیں کیا ہمارے قیادت کے پاس ملائشیا کی قیادت کی طرح قائدانہ صلاحیت موجود ہے؟ اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے۔