سی پیک منصوبہ اور تحریک انصاف حکومت

 وزیراعظم کے حلف اور مرکزی کابینہ کی تشکیل کے بعد اب ایوانِ صدر بھی تحریک انصاف کے جھنڈے کی ڈوری سے بندھ گیا ہے۔ عارف الرحمن علوی ملک کے تیرہویں صدر منتخب ہوئے ہیں اور اپنے عہدے کا حلف لے چکے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے نکتہ نظر سے یہ تیسری بڑی پیش رفت اور کامیابی ہے۔ اب تین صوبوں اور مرکز میں سیاسی لحاظ سے تحریک انصاف کا راج قائم ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا سفر تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے، عسکری قیادت سمیت تمام اہم وزارتوں سے وزیراعظم عمران خان بریفنگ لے چکے ہیں، اِس حکومت کو اپنے پہلے سو دنوں میں ہی خارجہ محاذ پر افغانستان، بھارت، ایران اور امریکہ کے ساتھ اسلام آباد کے جڑے ہوئے مسائل کے حل کے لیے اپنی سوچ اور پختہ سفارشات کے ساتھ پیش قدمی کرنی چاہیے تھی۔ کیا حکومت میں اعتماد کی کمی ہے؟ وہ اس شعبے کے مسائل کے حل کے لیے اختیار لینا نہیں چاہتی، یا اسے اپنے بااختیار ہونے کا ابھی تک یقین نہیں ہے…؟ کچھ تو ہے جس کے سبب حکومت خاموش ہے۔
حکومت کی ایک سوچ یہ سامنے آئی ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبے پر نظرثانی کرنے جارہی ہے اور چاہتی ہے کہ چین کے ساتھ راہداری کے ٹیکس سمیت سی پیک میں مقامی صنعتی اداروں اور ہنرمندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی دی جارہی ہے کہ سی پیک کے منصوبے پر مقامی صنعتوں کی مکمل تیاری تک اسے روک دیا جائے۔ اگرچہ حکومت نے تردید کی ہے، تاہم ہونے یہی جارہا ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود نے جو پیپر ورک تیار کررکھا ہے اُسے چینی حکومت کے سامنے رکھا جائے گا اور اس کی روشنی میں اسلام آباد بیجنگ مذاکرات ہونے والے ہیں۔ عبدالرزاق دائود چاہتے ہیں کہ توانائی کے شعبے میں پاکستان اور چین کی حکومت مساوی موقع حاصل کرکے سی پیک سے فائدہ اٹھائیں۔ بنیادی طور پر وسطی، مشرقی اور مغربی سی پیک کے تین روٹس ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ ان تینوں کے لیے راہداری ٹیکس اور توانائی کے شعبوں میں حکومت اور مقامی صنعت کو بھی فائدہ ملنا چاہیے۔ وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کی اپنی ذاتی کمپنی بھی فائدہ اٹھانے والوں میں ایک فریق ہے۔ اگر ایک صنعت کار کی کپمنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے سی پیک کے منصوبے میں ترمیم حکومت کی پالیسی ہے تو پھر دیگر منصوبوں میں بھی یہی صورتِ حال ہوگی۔
کچھ ایسا ہی معاملہ ہائوسنگ سے متعلق بھی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مافیا ہے جو اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ اور منافع کمانے کے لیے متحرک ہوچکا ہے اور تحریک انصاف پر کی جانے والی سرمایہ کاری کا خراج وصول کرنے کو پوری طرح تیار بیٹھا ہے۔ حکومت نے سرکاری افسروں کی رہائش گاہوں کے لیے استعمال ہونے والی فالتو زمین، اور سرکاری اراضی فروخت کرنے کے فیصلے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ یہ اراضی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پاکستان میں ہائوسنگ، میڈیکل اور تعلیمی شعبے میں کام کرنے والے نجی شعبے کو فروخت کی جائے گی۔ یہ اراضی خریدنے کے لیے بہت سے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرلیا ہے۔ انہی سرمایہ کاروں میں سے ایک گروپ نجی شعبے میں ملک کے مختلف شہروں میں ایسی اراضی پر میڈیکل سٹی تعمیر کرنا چاہتا ہے، اور متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والا ایک گروپ پاکستان میں میڈیکل سٹی مال تعمیر کرنا چاہتا ہے جس میں 1000 افراد پر مشتمل میڈیکل، ٹیکنیکل اور انتظامی اسٹاف بھرتی کیا جائے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ منصوبے میں 400 بستروں پر مشتمل یونیورسٹی اسپتال شامل ہوگا۔ میڈیکل مال، تھراپی، تفریح گاہ، دل کے امراض اور ہڈیوں کا سینٹر بھی ہوگا۔ اس میڈیکل سٹی میں ایک نرسنگ کالج بھی ہوگا۔ میڈیکل سٹی کے لیے سرمایہ کاری 970 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے لیے زمین ہی خریدی جاسکی ہے۔ وفاقی حکومت کو سرکار کی ایسی اراضی کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس کے مطابق پنجاب، کے پی کے اور وفاقی علاقوں میں سرکاری اراضی پر بنی رہائش گاہوں کی 90 فیصد اراضی فروخت کیے جانے کی تجویز ہے، اور اس حوالے سے دی جانے والی رپورٹ کے مطابق34 ہزار 459 کینال دیہاتی، اور 17 ہزار 35 کینال شہری زمین ہے، اور شہری علاقوں میں ایسی اراضی پر تعمیر عمارتوں کی قیمت تین سو بلین روپے بتائی جارہی ہے۔ لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوسکی کہ حکومت ایسی اراضی کو کس طرح قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فروخت کرے گی؟ کیا اس اراضی کی فروخت سے قبل صوبائی اسمبلیوں کو تفصیلات فراہم کی جائیں گی؟ معلوم ہوا ہے کہ حکومت یہ رقم غیر ملکی قرض اتارنے کے لیے اکٹھا کرنا چاہتی ہے اسی لیے سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں جن میں پولیس اور دیگر اداروں کے سربراہان اور عہدیداروں کے زیر استعمال سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ دریں اثناء سرکار کی ایسی اراضی جس پر قبضہ ہے اور ایسے کیس جو عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان کے بارے میں ابھی تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے۔ حکومت کو اپنے کاروباری مفادات کے لیے گھیرے میں لینے والے اس مافیا کی نظر ملک کی قیمتی سرکاری اراضی پر ہے کہ اسے اونے پونے داموں خریدکر یہاں ہائی رائز ملٹی اسٹوریز رہائشی ٹاور کھڑے کیے جائیں اور انہیں گھروں کی فراہمی کے نام پر بیرون اور اندرون ملک پاکستانیوں کے ہاتھ فروخت کیا جائے۔ اگر یہ گروہ کامیاب ہوگیا تو مستقبل میں تحریک انصاف کے توانائی، ہائوسنگ، صحت اور تعلیم کے شعبوں سے وابستہ کاروباری گھرانے اربوں روپے منافع کمانے کے لیے میدان میں اترنے والے ہیں۔
حال ہی میں متعدد سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان آئی ہیں جو کراچی اور گوادر میں اپنے منصوبوں کے حق میں فیصلہ لے چکی ہیں۔ حکومت کے ان فیصلوں کا طائرانہ جائزہ لینے کے لیے ہمیں صرف پی ٹی سی ایل کی مثال سامنے رکھنا ہوگی کہ آج اس کی نج کاری ہوئے 16 سال ہوچکے ہیں اور غیر ملکی کمپنی پاکستان میں پی ٹی سی ایل کے تمام اثاثے استعمال کررہی ہے لیکن ابھی تک اُس نے حکومتِ پاکستان کو واجبات کی ادائیگی نہیں کی۔ ملک میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی آئی تاہم حکومتِ پاکستان کو واجبات نہیں مل سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت ماضی میں کیے جانے والے ان فیصلوں کا جائزہ لیے بغیر آگے بڑھنا چاہتی ہے تو پھر اس میں اور ماضی کی حکومتوں میں فرق کیا ہے اور تبدیلی کہاں آئی؟

بیگم کلثوم نواز کی رحلت

سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز انتقال کرگئی ہیں۔ انہوں نے سوگواران میں شوہر، دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑا ہے جو ان کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان نہیں آسکتے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنے پیچھے بحران کا شکار ایک خاندان چھوڑا ہے۔ ان کے شوہر کے لیے یہ ایک اور بحران ہے جو سیاسی سے زیادہ جذباتی ہے، جن کے ساتھ انہوں نے 47 سال گزارے۔ انہوں نے ایسی بیوی کھو دی جو نہ صرف بیوی تھی بلکہ مشکل وقت میں سب سے مضبوط سیاسی حامی تھی۔ پرویزمشرف کے دور آمریت میں جب نوازشریف کو اٹک کے قلعے میں قید کردیا گیا تھا، اُس وقت بیگم کلثوم نواز کی سخت مزاحمت آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے، وہ بہت باہمت خاتون تھیں جنہوں نے گھریلو خاتون ہوتے ہوئے بھی ہر بحران میں مسلم لیگ کے مردوں سے بڑھ کام کیا۔ یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ نوازشریف نے ایسی بیوی کھو دی جس کے ساتھ انہوں نے کئی ہفتے ان کے بستر علالت پر اس انتظار میں گزار دیئے کہ انہیں ہوش آجائے۔ پاکستان میں احتساب عدالت کو جلدی پڑی ہوئی تھی کہ انتخابات سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ دیا جائے۔ نواز شریف نے اپنی وطن واپسی سے قبل فیصلہ ایک ہفتے کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنی بیمار بیوی کی آواز سن سکیں، لیکن یہ استدعا مسترد کردی گئی تھی۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ احتساب عدالت کے فیصلے کو معطل کردیتی تو نوازشریف اپنی بیوی کو دیکھنے لندن جاسکتے تھے۔ قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو نواز شریف کی یہ استدعا ہر لحاظ سے معقول تھی۔ججوں نے ریمارکس دیئے کہ نیب میں نوازشریف کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ پھر بھی فیصلے کو ججوں کی تعطیلات کے بعد تک کے لیے محفوظ کرلیا گیا۔ نوازشریف کے لیے رنج و غم کا دوسرا سبب ان کے بچے ہیں جو اپنی ماں کو کھو چکے ہیں۔ ان کی بیٹی مریم اس وقت ان کے ساتھ جیل میں ہیں۔ نوازشریف، مریم اور صفدر کو جنازے میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا کیا گیا ہے۔ حسین اور حسن اپنی والدہ کے جنازے کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ یہ بات نوازشریف کو مزید تکلیف پہنچائے گی۔ حالات جیسے بھی ہوں انہیں جنازے میں شریک ہونا چاہیے۔ اتفاق سے نوازشریف بھی اپنے والد میاں شریف کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ ان کے انتقال کے وقت شریف خاندان سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ پرویزمشرف حکومت نے نوازشریف کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔ نوازشریف کے بچوں کی قسمت میں بھی یہی کچھ لکھا ہے۔ اگرچہ ان کے بچوں پر پاکستان واپس آنے کے لیے کوئی پابندی نہیں، لیکن انہیں یہاں پہنچتے ہی احتساب عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیئے جانے کے باعث گرفتار کرلیا جائے گا۔