ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت

کرنل محمد خان نے اپنی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ میں بہت سے افسران اور ساتھیوں کا ذکر کیا ہے۔ اسی میں ایک کردار اُن کے افسر کیپٹن مینسفیلڈ بھی ہیں۔ کپتان صاحب کے بارے میں کرنل صاحب کا کہنا ہے کہ ’’مینسفیلڈ ساری زندگی سارجنٹ رہے اور ملازمت کے آخری دنوں میں افسر بنادیئے گئے، لیکن جیسے عشقِ بتاں میں عمر گزارنے کے بعد مسلمانی کے انداز نہیں آتے، ایسے ہی کپتان صاحب کی شکل و صورت یا حرکات و سکنات سے بھی افسرانہ آثار ناپید تھے۔ بیچارے جب بھی افسری بگھارنے کی دانستہ کوشش کرتے ان سے سارجنٹی ہوجاتی‘‘۔ بالکل ایسا ہی معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے کہ موصوف نے ساری زندگی ٹیلی ویژن پر گزاری ہے، جہاں زندہ رہنے کے لیے شرلی اور چٹکلے چھوڑنا ضروری ہے۔ وہ بنیادی طور پر سازوآہنگ کے آدمی ہیں اور صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ صاحب کا اندازکچھ ایسا ہی ہے۔ یعنی وہ بولتے ہیں تو بے تکان بولتے ہیں بلکہ بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف موصوف ذخیرۂ الفاظ کے معاملے میں شدید افلاس کا شکار ہیں اور ان کی فی البدیہہ گفتگو چند الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں وہ باربار استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر زبان تو ماشا اللہ زہر میں بجھا تیر۔ یہ جب ہونٹوں کی کمان سے نکلتے ہیں تو کیا اپنا کیا پرایا، کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں۔ زبان کے تیروں کو کوئی طرح دے جائے تو ان کے ٹوئٹر پیغامات باہمی تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین ان سے بحث مباحثہ نہیں کرتے کہ سب کو اپنی عزت بڑی پیاری ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے کم ازکم دوسینیٹر یعنی سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے خارجہ امور کے سربراہ باب کورکر (Bob Corker) اور جیف فلیک (Jeff Flake) نے اپنے قائد کے فتنۂ زبان سے ڈر کر اگلی مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے کہ ممبری کے لیے عزتِ سادات گنوا دینا کوئی عقل مندی نہیں۔ وہ تو جم مک کین آنجہانی ہوگئے، ورنہ وہ بھی سبکدوشی پر غور کررہے تھے۔
تاہم بعض منچلے صدر صاحب کو زچ کرنے سے باز نہیں آتے اور ان کے کردار، طرزِعمل اور غیر ذمے دارانہ سیاسی رویوں کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ پہلے فحش فلموں کی نامور ہیروئن اسٹورمی ڈینیلز (Stormy Daniels) سے صدر ٹرمپ کی ’’دوستی‘‘ کا انکشاف ہوا۔ اس کے چند دن بعد پتا چلا کہ عریاں تصویروں سے مزین رسالے پلے بوائے میں جلوہ گر ہونے والی کیرن مکڈوگل (Karen McDougal) بھی صدر ٹرمپ کی ’’دوست‘‘ رہ چکی ہیں۔ ستم ظریفی کہ صدر صاحب ان حسینائوں سے اُس وقت رنگ رلیاں منا رہے تھے جب ان کی نوبیاہتا اہلیہ میلانیا ٹرمپ امید سے تھیں۔ مزے کی بات کہ ان مہ جبینوں نے خود ہی صدر کی ذاتی زندگی کے اُن پہلوئوں پر روشنی ڈالی جنھیں تاریکی میں رکھنے کے لیے مسٹر ٹرمپ نے ان نازنینوں کے لب ہائے شیریں پر طلائی قفل لگائے تھے اور ان دونوں کو بالترتیب ایک لاکھ 30ہزار اور ڈیڑھ لاکھ ڈالرکی ادائیگی کی گئی۔
اسی دوران امریکہ کے سب سے بڑے اخبار USA Today کے کالم نگار جناب مائیکل وولف (Michael Woolf) نےFire and Fury Inside the Trump Whitehouseکے عنوان سے ایک کتاب لکھ ماری جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ انکشاف بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کے بعض قریبی ساتھی یعنی وزیر خزانہ منوچن، قومی سلامتی کے لیے ان کے سابق مشیر جنرل مک ماسٹر اور سابق وزیر خارجہ ٹلرسن نجی محفلوں میں صدر کو کم عقل، بے وقوف اور احمق کہتے ہیں۔ کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹرمپ سمیت ان کی ٹیم میں کسی کو انتخابات میں ان کی کامیابی کی کوئی امید نہ تھی اور ڈونلد ٹرمپ نے انتخابات سے دو دن پہلے خود کہا کہ انھیں الیکشن جیتنے سے زیادہ دلچسپی اس بات سے ہے کہ وہ دنیا کے مشہور ترین فرد بن جائیں۔
ان مندرجات کے منظرعام پر آتے ہی صدر ٹرمپ سخت مشتعل ہوگئے اور مصنف کے خلاف توہین آمیز ٹوئٹس کے ساتھ ان کے وکیل نے کتاب کے ناشر، طابع اور مصنف کو قانونی نوٹس جاری کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کتاب کی تقسیم فوری طور پر روک دی جائے ورنہ ذمے داروں کے خلاف ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ لیکن مصنف اور پبلشر نے قانونی نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے کتاب کو دوسرے ہی دن اشاعتِ عام کے لیے جاری کردیا۔ صدر ٹرمپ کے شدید ردعمل نے اس تصنیف کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچا دیا اور سیاسی نوعیت کی کسی بھی کتاب کا ایسا استقبال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے مصنف مائیکل وولف نے صدر ٹرمپ کے نام جوابی ٹوئٹ میں کہا کہ اس احسانِ عظیم پر وہ صدر ٹرمپ کے لیے چاکلیٹ کا ایک ٹوکرا تحفتاً بھیجنا چاہتے ہیں۔
ابھی یہ طوفان تھما ہی تھا کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم کی واحد سیاہ فام اہلکار اور وہائٹ ہائوس کی کمیونی کیشن ڈائریکٹر محترمہ امروزہ نیومن (Omarosa Newman) نے اپنے استعفے کی ’حقیقی‘ داستان پر مبنی ایک ٹیپ NBC ٹیلی ویژن کے ایک نمائندے کو دے دی جس سے پتا چلا کہ امروزہ نے برضا و رغبت استعفیٰ نہیں دیا تھا بلکہ یہ ایک شرمناک برطرفی تھی اور اس کارروائی کے دوران سیاہ فام نسل کے خلاف تحقیر آمیز جملے بھی استعمال ہوئے۔ محترمہ امروزہ کاکہنا ہے کہ انھوں نے یہ ساری گفتگو اپنے موبائل فون سے ریکارڈ کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس حرکت کو رازداری ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا کہ امروزہ نے سرکاری موبائل فون سے وہائٹ میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی تھی۔ امریکی صدر اس جسارت پر سرکاری پراپرٹی (موبائل فون) کے غلط استعمال اور حلف سے روگردانی پر امروزہ کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اٹارنی جنرل نے اس خوف سے معاملے کو نظرانداز کردیا کہ ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘۔ محترمہ امروزہ نے اپنی برطرفی کے بعد Unhingedکے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع کردی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس یادداشت میں صدر ٹرمپ کو غیر متوازن اور خبطی قرار دیا گیا ہے۔
چند دن پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے شریک مدیر جناب باب ووڈورڈ(Bob Woodwarrd) کی ایک نئی کتاب Fear: Trump in the White House کے نام سے منظرِ عام پر آگئی، جس میں صدر ٹرمپ کو ایک سریع الغضب اور غیر متوازن شخصیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نے وہائٹ ہائوس میں کام کرنے والے مختلف لوگوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ امریکی صدر نجی محفلوں میں بے حد لچر و فحش گفتگو کرتے ہیں اور اپنے قریبی رفقا کے پیٹھ پیچھے ان کے بارے میں انتہائی تحقیر آمیز تبصرے کرتے ہیں۔ مصنف نے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے بات چیت کے دوران اٹارنی جنرل جیف سیشنز کو بے وفا اور ذہنی معذور کہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جناب سیشنز نے امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کی تحقیق سے خود کو لاتعلق کرکے ایک آزاد ماہرِ قانون کے تقرر کا حکم دیا تھا، اور امریکی سینیٹ نے اس کے لیے ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ مولر(Robert Mueller)کا انتخاب کیا۔ کتاب کے مطابق صدر نے کہا کہ ’’جیف سیشنز جنوب کا ایک احمق آدمی ہے۔ (امریکہ بہت بڑا ملک ہے) یہ تو الاباما (Alabama) اور اس سے بھی چھوٹے بلکہ ایک آدمی پر مشتمل ملک کا بھی اٹارنی جنرل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘‘۔ واضح رہے کہ جناب سیشنز کا تعلق امریکہ کی جنوبی ریاست الاباما سے ہے۔
دوسری طرف اس کتاب میں صدر ٹرمپ کے بارے میں ان کے ساتھیوں کے مبینہ تبصرے بھی بڑے دلچسپ ہیں۔ کچھ دن پہلے رابرٹ مولر نے تحقیقات کے سلسلے میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر صدرٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا، لیکن بعد میں صدر کے وکیل جان ڈاڈ (John Dawd) نے کہا کہ صدر کو استثنا حاصل ہے اور وہ کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ باب ووڈورڈ کے مطابق جان ڈاڈ نے نجی نشست میں کہا کہ انھیں ڈر تھا کہ جان مولر سے ملاقات میں صدر سے یقینا کوئی حماقت سرزد ہوجائے گی۔ مصنف کے مطابق جان ڈاڈ نے صدر سے صاف صاف کہا کہ ’’آپ گواہی کے لیے اصالتاً پیش نہ ہوں ورنہ (مجھے ڈر ہے کہ آپ کو) نارنجی سوٹ (قیدیوں کا لباس) پہننا پڑے گا‘‘، یعنی صدر کی لغزشِ زبان ان کے لیے جیل کی راہ ہموار کردے گی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مسٹر جان ڈاڈ نے کتاب میں رقم خود سے متعلق تمام مشاہدات، تبصرے اور بیانات کو خودساختہ اور جھوٹ قرار دیا ہے۔ وکیل صاحب کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی وکالت ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔
ابھی باب ووڈ ورڈ کی کتاب پر چہ می گوئیاں بلکہ خوش گپیاں جاری تھیں کہ 5 ستمبر کو نیویارک ٹائمز نے ایک گمنام مصنف کا ایک مقالۂ خصوصی شائع کردیا۔ یہ اداریے کے سامنے والے صفحے پر شائع ہوا ہے جسے صحافتی اصطلاح میں Opposite Editorial Page یا Op-ed مقالہ کہتے ہیں۔ Op-edکے مندرجات سے اخبار کا متفق ہونا تو ضروری نہیں لیکن Op-ed اخبار انتظامیہ کی نظر میں ایک خاص اہمیت کا حامل مضمون سمجھا جاتا ہے۔
اخبارکا دعویٰ ہے کہ یہ تحریر صدر ٹرمپ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی ہے۔ مضمون نگار نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ ٹیم کا حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے گمنام مضمون نگار رقم طراز ہے کہ:
٭ صدر ٹرمپ ایسی ایسی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں جنھیں’’بدترین‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
٭ وہ تو شکر ہے کہ ان کے گرد محبِ وطن لوگ موجود ہیں جو اسے منظرِعام پر نہیں آنے دیتے۔
٭ صدر اکثر اوقات ادھوری معلومات کی بنیاد پر بغیر سوچے سمجھے لاپروائی سے فیصلے کرتے ہیں جن سے بعد میں پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔
٭ صدر ٹرمپ ’’اخلاقی اقدار سے عاری اور جمہوریت مخالف شخص‘‘ ہیں۔
٭ صدر ٹرمپ کی زیرِ صدارت ہونے والے بیشتر اجلاسوں میں موضوع پر گفتگو نہیں ہوتی اور صدر بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔
مصنف نے مضمون کے اختتام پر امریکیوں کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ صدر کے آس پاس کچھ بالغ نظر (Adult)، محب وطن اور عقل مند لوگ موجود ہیں اور ہم اس حکومت کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے جو بن پڑا وہ کریں گے تاوقتیکہ کسی نہ کسی طرح یہ (ٹرمپ صدارت) ختم ہو۔ اس سلسلے میں مصنف نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیدار دبے الفاظ میں آئین کی 25 ویں ترمیم کا حوالہ بھی دے رہے ہیں جو امریکی صدر کی معزولی سے متعلق ہے۔
حسبِ توقع مضمون کے مندرجات سامنے آتے ہی صدر ٹرمپ آپے سے باہر ہیں اور انھوں نے سب سے پہلے صرف یک لفظی پیغام ’’غداری‘‘ جاری کیا، یعنی یہ مضمون ملک سے غداری ہے۔ اس کے بعد سے ایک کے بعد ایک جو ٹوئٹس داغے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
•… نیویارک ٹائمز حکومت کے اس ’’بزدل‘‘ اعلیٰ عہدے دار کا نام ظاہر کرے، جس نے امریکی صدرکو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
•…اگر کوئی ایسا سینئر عہدے دار واقعی وجود رکھتا ہے تو نیویارک ٹائمز کو قومی سلامتی کی خاطر اس شخص کا نام حکام کو بتانا چاہیے۔
•…میرا تو خیال ہے کہ ’’ناکام نیویارک ٹائمز‘‘ ایک بار پھر جھوٹ بول رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز والوں کو ڈونلڈ ٹرمپ پسند نہیں اور میں بھی انہیں پسند نہیں کرتا، کیوں کہ وہ انتہائی بددیانت لوگ ہیں۔
آج کل نومبر میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن کے لیے انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے اور صدر ٹرمپ اپنے انتخابی جلسوں میں بھی اسی موضوع پر دھواں دھار تقریریں کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ Fake میڈیا نے ان کی مخالفت میں اب ملک کی سلامتی کو دائو پر لگادیا ہے اور من گھڑت و تضحیک آمیز انکشافات سے قلم کے یہ تاجر منتخب امریکی صدر پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، جو عوامی مینڈیٹ کی توہین اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رینڈ پال (Rand Paul) نے وہائٹ ہائوس کے عملے کا کذب شناس آلے یا Lie Detector پر تجزیے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انگلیاں نائب صدر مائیک پینس کی طرف بھی اٹھ رہی ہیں کہ اگر صدر ٹرمپ معزول کیے گئے تو ان کی بقیہ مدتِ صدارت تک مائیک پینس امریکہ کے صدر بن جائیں گے۔ 8 ستمبر کو CBS ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو کے دوران میزبان نے ان سے براہ راست پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ لوگ 25 ویں ترمیم کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں؟ جواب میں نائب صدر نے قدرے بلند آواز میں کہا ’’نہیں ہرگز نہیں، ہم ایسی بات کیوں کریں گے؟‘‘ تاہم یہ کہتے ہوئے مائیک پینس کچھ خجل اور شرمائے ہوئے لگ رہے تھے۔
ڈیموکریٹک پارٹی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جامعہ شکاگو میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر اوباما نے بھی اس مضمون کا ذکر کیا۔ سابق صدر نے کہا ’’مصنف کا یہ دعویٰ کافی نہیں ہے کہ وہائٹ ہائوس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صدر ٹرمپ کے غیر قانونی احکامات پر عمل نہیں کررہے۔ درحقیقت یہ لوگ صرف 10 فیصد خرابیوں کو روک پارہے ہیں جبکہ (صدر کی) 90 فیصد احمقانہ باتوں پر عمل ہورہا ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ صدر ٹرمپ پر نظر رکھنے کے لیے کانگریس سے ری پبلکن پارٹی کی برتری کا خاتمہ ضروری ہے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور 2020ء کے صدارتی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کی مبینہ خواہش مند سینیٹر ایلزبتھ وارن (Elizabeth Warren)نے کہا ہے کہ وہ صدر کی معزولی کے لیے 25 ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لے رہی ہیں۔
اسی کے ساتھ معتوب اٹارنی جنرل بیچارے ایک بار پھر دبائو میں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جناب جیف سیشنز کو معاملے کی تحقیق کا حکم دیا ہے تاکہ وہائٹ ہائوس کی صفوں میں چھپی کالی بھیڑ (یا بھیڑوں) کی نشاندہی کی جاسکے۔ اسی کے ساتھ امریکی صدر نیویارک ٹائمز کو بھی اس بات پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ گمنام مصنف کا نام بتائے۔ تاہم اٹارنی جنرل صاحب اب تک خاموش ہیں۔ اُن کے لیے وہائٹ ہائوس کے عملے سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی کو حکم دینا تو بہت آسان ہے لیکن اس صورت میں نائب صدر سے لے کر ایک عام کلرک تک ہر ایک کو Lie Detectorکے رسواکن مرحلے سے گزرنا ہوگا جس کے لیے اٹارنی جنرل تیار نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف ان کے لیے نیویارک ٹائمز کو مصنف کا نام بتانے پر مجبور کرنا بھی مشکل ہے، کہ امریکہ کے پریس آرڈیننس کے تحت رپورٹرز خبر کے ماخذ، اور اخبارات کالم نگاروں کی شناخت ظاہر کرنے کے پابند نہیں۔ رازداری ایکٹ کے تحت مقدمہ بنانا بھی ممکن نہیں، کہ اپنے کالم میں مضمون نگار نے وہائٹ ہائوس اور ادارۂ صدارت یا Presidencyکے تقدس کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا ہے اور کسی بھی نوعیت کا کوئی راز افشا نہیں ہوا۔ مضمون نگار نے صدر ٹرمپ کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں وہ اس سے پہلے مائیکل وولف، محترمہ امروزہ اور جناب باب ووڈورڈ کی کتابوں میں تفصیل سے آچکی ہیں۔ اٹارنی جنرل کی خاموشی اور تفتیش سے گریز نے صدر ٹرمپ کی جھنجھلاہٹ اور اشتعال میں اضافہ کردیا ہے جس کا اظہار ان کے علی الصبح جاری ہونے والے ٹوئٹ اور انتخابی جلسوں میں تقریروں سے ہورہا ہے۔ شب و روز کے اس تماشے کو جناب سیشنز یہ گنگناتے ہوئے نظرانداز کررہے ہیں کہ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا‘‘۔