۔’’مسئلہ‘‘ اسلامی انگلستان

انسان پر سچ کا ایسا قرض ہے کہ جب اور جتنا موقع ملے، اسے اتارنا فرض ہے۔ حرفِ حق کی تکرار ہی راہِ راست ہے۔ خواہ کتنے ہی حوالوں سے اسے بیان کیا جائے، یہ قابلِ تحسین ہے۔ ایک ایسا ہی سچ متواتر یورپ کے بارے میں ہے، جسے اہلِ نظر دیکھ گئے، دکھاگئے۔ یہاں موضوع کے اعتبار سے برطانوی دانش ور جارج برنارڈ شا کا یہ سچ سنہرے الفاظ سے دہرائے جانے کے قابل ہے کہ ’’آئندہ سوسال میں اگرکسی مذہب کا یورپ پر یا کم ازکم انگلینڈ پر حکمرانی کا کوئی امکان ہے… تو وہ اسلام ہے‘‘۔ جارج برنارڈ شا نے یہ بات 1936ء میں کہی تھی۔
آج اسلامی یورپ اور اسلامی انگلینڈ مغرب میں اہم ترین موضوعات ہیں۔ یہ موضوعات منفی پروپیگنڈے اور منافرت انگیزی میں لپٹے ہوئے ہیں، اسلام سے تعصب میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہر ممکن ذریعہ اسلام کی کردارکُشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں (29اگست 2018ء) وال اسٹریٹ جرنل نے “A Visit to Islamic England” کے عنوان سے ایک مشاہدہ شائع کیا ہے۔ یہ مشاہدہ ہے منگول نژاد صحافی Andy Ngo کا، جنہوں نے انگلستان کے مسلم علاقوں کا دورہ کیا، اور ممکنہ حد تک خوف اور دہشت کشید کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ چند اقتباسات نقل کرتے ہیں:
’’دیگر سیاح لندن کو عموماً خوبصورت اور تاریخی مقامات کے سبب یاد رکھتے ہیں، مگرمجھے یہ اسلام کے حوالے سے یاد ہے۔ 2006ء میں جب میں نوجوان تھا، مشرقی لندن کے بازار میں گُم ہوکر رہ گیا تھا، جہاں میں نے خواتین کا ایک گروہ دیکھا جو سر سے پاؤں تک سیاہ برقعے میں لپٹا تھا۔ میں بے شناخت چہروں سے ڈرگیا اور گھبراگیا۔ یہ نقاب سے میرا پہلا تعارف تھا۔ یہ آنکھوں کے سوا سب چھپا دیتا ہے۔ حالیہ گرمیوں میں جب میں دوبارہ لندن گیا، وہاں اسلامی لباس پر بحث عام دیکھی…‘‘
’’میں لندن کی مسلم کمیونٹیز میں جاکر براہِ راست مشاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ میں سب سے پہلے مشرقی لندن کے علاقے ٹاور ہیملٹس گیا، جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی 38 فیصد آبادی ہے۔ جب میں وائٹ چیپل شاہراہ سے گزر رہا تھا تو اذان کی آواز سنی۔ مسلمان نمازِ جمعہ کے لیے مسجد کی جانب جارہے تھے، جبکہ غیر مسلم مخالف سمت سے آرہے تھے۔ دونوں گروہوں نے خود سے ایک قابلِ لحاظ فاصلہ رکھا ہوا تھا، وہ نظریں ملانے سے گریزاں تھے۔‘‘
’’میرا اگلا دورہ لیٹن کا تھا، جہاں مسلم معاشرتی اقدار اور رسم و رواج عام ہیں۔ ایک عرب کیفے دیکھا جہاں مرد ہی مرد تھے، کوئی عورت نظر نہ آئی۔ ایک اسلامی بک اسٹور پر بچوں کے لیے حجاب والی گڑیاں فروخت ہوتے دیکھیں۔ گڑیوں کے چہرے سپاٹ اور ہر تاثر سے عاری نظر آئے، کیونکہ قدامت پرست اسلام میں انسانی جذبات کی عکاسی ممنوع ہے۔‘‘
’’پھر جو کچھ میرے ساتھ لوٹن میں ہوا… میں اس کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ یہ لندن سے تیس میل دور شمال میں ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ وہاں کی جامع مسجد میں پنجابی بولنے والے مسلمانوں کے گروہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے اندرونی علاقے میں لے گئے۔ تین مساجد کے پاس سے گزرے، جہاں نمازیوں کا آنا جانا لگا تھا، صرف ایک گرجا گھر راستے میں نظر آیا جس پر تالا پڑا تھا، اس کی کھڑکی انڈوں کے مارے جانے سے بدنما ہوچکی تھی۔ اس علاقے کے لوگ عید الاضحی کی تیاری کررہے تھے۔ پاکستانی پرچم یہاں لہرا رہے تھے، ایک بھی یونین جیک نظرنہیں آیا۔ ایک شخص مجھے ایک اسلامی سینٹر میں لے گیا۔ وہاں موجود لوگوں نے امام سے بات کی، اور پھر یہ لوگ مجھے امام تک لے گئے۔ امام نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ظاہر ہے میرے میزبانوں کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ اس کے لیے ابھی تیار نہیں، اسلامی لٹریچر کا مطالعہ ترجیح ہوگا۔ وہ مجھے بُک شیلف تک لے گئے۔ وہاں میں نے جو کتاب سب سے پہلے اٹھائی، وہ بھارتی بنیاد پرست مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تھی۔‘‘
’’دیگرسیاح شاید لندن کو بکھنگم پیلس اور بگ بین وغیرہ کی وجہ سے یاد رکھیں، مگر میں اسے ایک ناکام کثیر ثقافتی صورتِ حال کے طور پر یاد رکھوں گا۔‘‘
اس مشاہدے کے جواب میں Business Insider کے صحافی Alex Lockie نے “The Wall Street Journal ran a cowardly, race- baiting article on ‘Islamic England’: I live there. They’re dead wrong” کے عنوان سے جواب شائع کیا۔ لوکی نے لکھا کہ وال اسٹریٹ جرنل کے مذکورہ مشاہدے میں منفی پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ اینڈی نگو نے مسلم آبادیوں کی منظرکشی میں خوف، دہشت اور اجنبیت شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوکی نے کہا کہ وہ خود لندن کے ان علاقوں کا ایک سال رہائشی رہ چکا ہے۔ مذکورہ مضمون کا پیش کردہ تاثرسفید جھوٹ ہے۔ یہ برطانیہ کے مسلمانوں کے درمیان مہمان نوازی کا لطف اٹھانے والے کم ظرف اور بددیانت شخص کی دروغ گوئی ہے۔ نگو نے مسلسل یہ ظاہر کرنے کی سعی کی ہے کہ اسلامی علاقوں میں انگریزی شناخت مجروح کی جارہی ہے۔ اینڈی نگو نے جس علاقے کو اسلامی بناکر پیش کیا ہے، وہاں جامع مسجد کی چاروں جانب شراب خانے اور ڈانسنگ کلب کی بھرمار ہے۔ جہاں تک نمازیوں اور غیر مسلموں کے نظریں نہ ملانے کا تعلق ہے، یہ سراسر منفی منظرکشی ہے۔ لندن میں راہ گیر عموماً نظریں ملانے سے گریز ہی کرتے ہیں، یہ ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ اینڈی نگو اپنے مضمون کو سمیٹنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے جسے ناکام کثیر ثقافتی صورتِ حال کہا، وہ دراصل انتہائی کامیاب کثیر ثقافتی صورتِ حال کا مظہرہے۔ جس صورتِ حال کا اقرار کرنے سے اینڈی نگوکترا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اسلام لندن میں معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
اینڈی نگو اور ایلکس لوکی کے مذکورہ مشاہدات میں تین باتین سامنے آئیں۔ ایک وہ اسلاموفوبیا، جو مغرب کی اجتماعی پالیسی کا عنوان ہے، یہ پالیسی اسلام سے تہذیبی تصادم کا نتیجہ ہے۔ دوسری بات وہ سچ ہے، جو فی البدیہہ اور بے ساختہ ہے۔ یہ دونوں باتیں تہذیبی تصادم کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ جو سب سے اہم اور تیسری بات ہے، وہ اسلام کا فروغ ہے۔ ان مشاہدوں میں اسلام یا مسلمانوں کا کوئی مؤقف براہِ راست شامل نہیں ہے (یہ صورتِ حال عام ہے)، مگر اس کے باوجود اسلام ایک ایسی غالب معاشرتی قوت بن کر ابھرتا نظر آرہا ہے، جو نہ صرف ’اسلامی انگلستان‘ بلکہ ’اسلامی یورپ‘ کی خبر دے رہا ہے۔