بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کہہ چکے ہیں کہ وہ یا اُن کی حکومت باہر بیٹھے بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ اور یہ کہ ان کے پیشرو وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری نے ان سے ڈائیلاگ کرکے وقت ضائع کیا، انہیں صوبے کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت اس حوالے سے سنجیدہ تھی، انہوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ بیرونی ممالک میں بیٹھے بلوچ رہنمائوں سے روابط قائم کیے تھے، ملاقاتیں کی تھیں، اور ان کے مطالبات، گلے شکوے جو بھی تھے، سن رہے تھے۔ نیشنل پارٹی کی شکایت یہ تھی کہ اُن کی مفاہمتی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا، مسئلہ نظرانداز کرکے فراموش کردیا گیا۔ رہی بات نواب ثناء اللہ زہری کی… وہ ضرور لندن گئے تھے، خان آف قلات سلیمان دائود سے ملاقات بھی کی تھی، مگر نواب زہری اس مشن میں سنجیدہ نہیں تھے۔ چونکہ ڈاکٹر عبدالماک بلوچ وزیراعلیٰ تھے، نون لیگ اتحادی تھی اور نون لیگ کا دعویٰ تھا کہ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے وزارتِ اعلیٰ پر اُس کا حق ہے، اس بناء پر نواب زہری کی نیشنل پارٹی سے بنتی نہیں تھی۔ وہ اس کے لیے مسائل پیدا کرتے۔ جب ڈاکٹر عبدالمالک ناراض بلوچوں کو منانے کی خاطر سرگرم ہوئے تو ان کے علی الرغم نواب زہری بھی لندن گئے۔ تاہم یہ ایک وقتی و سطحی ملاقات تھی۔ بہرحال نیشنل پارٹی کی قیادت پُرامید تھی کہ اُن کی یہ کوشش رنگ لائے گی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد بارہا ان کی جانب سے تنقید ہوئی کہ مذاکرات اور مفاہمت کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔
رہی جام کمال کی یہ بات کہ اُس وقت کی حکومت وقت ضائع کرنے کے بجائے صوبے کے مسائل پر توجہ دیتی… تو ظاہر ہے حکومت دن رات ڈائیلاگ میں تو نہیں لگی ہوئی تھی کہ صوبے کے مسائل ادھورے رہ گئے۔ حکومتی اور انتظامی معاملات چلتے رہے۔ ڈائیلاگ کا وقت اور طریقہ ہوتا ہے جس پر وہ اپنی حیثیت کے مطابق عمل پیرا تھے۔ اچھی بات ہوگی کہ جام کمال اس مسئلے کو بھی اپنی ترجیح میں شامل کریں۔
یہ بلوچستان کا ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے۔ انہیں ڈائیلاگ سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ کام جام کمال کے بس اور دائرہ اختیار میں نہیں ہے تو حُسنِ تدبیر و مصلحت کے طور پر اس بابت اظہارِ خیال بھی نہ کریں، اور اس گمبھیر مسئلے کو وقت و حالات پر چھوڑ دیا جائے۔ جام کمال بے شک اپنے ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ صوبے کے مسائل و ترقی پر توجہ دیں۔ مگر ماننا پڑے گا کہ شدت پسندی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اس امر میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ مذاکرات و مفاہمت پاکستان کی کتابِ آئین کے چار کونوں کے اندر ہوں۔ اور بلاشبہ ان تنظیموں نے صوبے کے اندر دہشت گردی اور کشت وخون کے جن رویوں کو فروغ دیا وہ قابلِ مذمت ہے۔ اس سوچ اور رویّے نے معاشرے کو خرابی و تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ خطے کے بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ انسرجنسی کا خاتمہ ہو۔
اس وقت پاکستان کے تعلقات امریکہ کے ساتھ اطمینان بخش نہیں ہیں۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ بھارت کو ساتھ لے کر خطے کی معیشت، تجارت و سیاست پر اثرانداز ہو۔ گویا امریکہ اور بھارت دفاعی معاہدوں اور اتحاد میں بندھ چکے ہیں۔ بھارت افغانستان کے اندر اہم شراکت دار ہے، چنانچہ ان دونوں ممالک کی نیندیں افغانستان کے اندر مزاحمت سے حرام ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے کردار کو مشکوک ٹھیرا چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دورۂ پاکستان کے بعد بھارت گئے، وہاں انہیں خاصی پذیرائی ملی۔ امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میتھس بھی دورۂ بھارت میں ان کے ساتھ تھے۔ جیمز میتھس نے افغانستان کا دورہ بھی کیا، صدر اشرف غنی اور دوسرے فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہی اسے افغانستان کی دلدل سے نکال سکتا ہے اور افغان طالبان کی مزاحمت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے امریکہ پاکستان پر برابر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان کا مسئلہ گنجلگ اور پیچیدہ ہے۔ اگر محاسبہ ہو تو امریکہ ہی اس کے لیے قصوروار ہے۔ غرض اگر افغانستان میں نتیجہ و حالات یونہی رہے تو امریکہ پاکستان پر عملاً دبائو ڈالنے کے ساتھ تخریب و انتشار کے مختلف منصوبوں پر درپردہ عمل پیرا ہوگا اور بھارت اس شر و فساد میں اس کا معاون رہے گا، بلکہ بھارت ہی دراصل پیش پیش ہوگا۔ گویا خطہ مزید بے قراری اور اضطراب کی طرف بڑھے گا، امن کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ 6 ستمبر کو بھارت اور امریکہ کے درمیان اہم فوجی معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ اب بھارت امریکہ سے مزید اہم دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرسکے گا۔ گویا یہ سارے اشارے پاکستان کے حق و مفاد میں نہیں ہیں۔
بلوچستان اور افغانستان کی سرحد 1268کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں بلوچستان کا خطہ ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان کی انسرجنسی ہو یا مذہبی دہشت گرد گروہ… سب کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں، جو بھارت کی ’را‘ اور افغانستان کی این ڈی ایس کے پیرول پر ہیں۔ ان گروہوں میں مذہب کی شناخت والے گروہ اب بھی فعال ہیں۔ البتہ بلوچ شدت پسندوں کی سابقہ حیثیت تو نہ رہی لیکن ان کے وجود سے انکار بھی نہیں، ان کا نیٹ ورک پھر سے فعال ہوسکتا ہے۔ جب ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی تین سو ملین ڈالر امداد کی بندش کا اعلان کیا تو اس پر بلوچ شدت پسند رہنمائوں نے مسرت کا اظہار کیا۔ بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے تو امریکہ اور مغربی ممالک سے امداد کی بندش سمیت پاکستان کے خلاف راست اقدامات اٹھانے کی اپیل کردی اور امریکہ و نیٹو کو یہ توجہ دلانے کی کوشش کی کہ یہ ممالک تجزیہ کریں کہ افغانستان میں دو دہائی سے چلنے والی جنگ اپنے انجام تک کیوں نہیں پہنچتی۔ یعنی امریکہ کو یہ بتایا کہ پاکستان نے افغانستان کے مذہبی عناصر کو ہتھیار اور دوسری امداد دے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور پاکستان کے ساتھ افغانستان میں امن و سلامتی کی بحالی کا اتحاد مغرب کا ناکام فیصلہ تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے ان ممالک سے آزاد بلوچستان کی تحریک کی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔
ان حالات میں مشکلات کم سے کم کرنے کی سعی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے پسند و ناپسند اور ترجیح کا معاملہ ملک کو نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے پر اگر پاکستان اور امریکہ کی نہ بنی تو بلوچستان میں حالات پھر سے پرانی نہج پر آجائیں گے۔ حالات سازگار ہوں گے تو سردار اختر مینگل کے چھ نکات میں لاپتا افراد کی بازیابی کا نکتہ نہیں رہے گا۔ سردار اختر مینگل کو بھی چاہیے کہ بلوچستان میں امن کی واپسی کی خاطر اپنے بھائی جاوید مینگل کو ملک آنے پر آمادہ کریں۔ اگر صوبے میں علیحدگی اور شدت پسندی نہ ہوگی تو یقینی طور پر کوئی بندہ لاپتا بھی نہیںہوگا۔ خان آف قلات سلیمان دائود کی واپسی ممکن ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالمالک کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں آنے کی ہامی بھر چکے تھے۔ اچھا ہوا کہ گزین مری کی واپسی ہوئی، وہ سیاسی عمل میں شریک ہوئے، انتخابات میں حصہ لیا… حالانکہ ان کی آمد کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ جو اغراض اور جاہ و منصب کی خاطر محبِ وطن بنے پھرتے ہیں دراصل نہیں چاہتے کہ مفاہمت و بات چیت کا آغاز ہو۔ چناں چہ جام کمال کو چاہیے کہ وہ مذاکرات و روابط کا در کھلا رکھیں، اسی میں صوبے کی بھلائی ہے۔