وزیراعظم اور آرمی چیف ایک صفحہ پر

تحریک انصاف کو یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کرنا بہت آسان ہے مگر یہاں گورننس بہت مشکل ہے۔ وزیراعظم کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ابھی میڈیا کو نومنتخب حکومت کو وقت دینا چاہیے کہ وہ مسائل اور معاملات سمجھ سکے۔ دوسری جانب حقائق یہ ہیں کہ میڈیا اور پارلیمنٹ سمیت ملکی سیاسی جماعتیں اسے وقت دے رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں میڈیا پرسنز کو ملاقات کے لیے بلایا، اس کی ابتدا ہی اس بات سے ہوئی کہ وزیراعظم نے کسی اینکر پرسن سے محفل میں شریک ہوتے ہوئے ہاتھ تک نہیں ملایا، ساری گفتگو امریکی وزیر خارجہ کے ٹیلی فون اور پاکپتن پر ہوتی رہی، چند اینکرز نے ترقیاتی کاموں کی جانب توجہ دلائی، کسی نے کہا کہ میانوالی تلہ گنگ روڈ میں توسیع ہونی چاہیے، کسی نے اپنے آبائی ڈویژن سے منتخب ارکان کو کابینہ میں لینے کی درخواست کی… یوں ملک کے اہم ترین اینکرز کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات مکمل ہوئی۔
یہ بات درست ہے کہ عمران خان ملک میں کرپشن کلچر، اقرباپروری، دھونس، دھاندلی اور پسے ہوئے پسماندہ طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے عوام سے کیے گئے وعدوں پر اپنے پارٹی منشور کے مطابق عمل چاہتے ہیں، اصل بات تو ٹیم کی ہے۔ وفاقی کابینہ میں ایک وزیر محض اس لیے شامل کیے گئے ہیں کہ وہ بطور پراپرٹی ڈیلر بہت اچھی اراضی خرید کر دینے کے ماہر ہیں۔ ایسے چہروں کی شمولیت کے باعث مرکز کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں ان کی ٹیم سب کے سامنے ہے۔ وفاق اور پنجاب
کے بعد کے پی کے میں تحریک انصاف کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔
وزیراعظم کے پہلے سو دنوں پر حزبِ اختلاف کی نظر ہے۔ وزیراعظم نے تین ماہ کی مہلت مانگی ہے، انہیںبہرصورت یہ رعایت ملنی چاہیے، البتہ ان تین مہینوں کے دوران حکومتی امور میں کوئی ایسی قباحت نظر آئے جس سے ملک کے تشخص اور عوام کی فلاح کے حوالے سے مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے مثبت تنقید بھی برداشت کرنا ہوگی۔
حکومت کے ان پہلے دو ڈھائی ہفتوں میں تحریک انصاف کے درجن بھر نومنتخب ارکانِ قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی ہے، سب نے یہ گلہ کیا کہ ہماری خواہش کے باوجود وزیراعظم نے کسی اجتماعی محفل میں ہم سے ہاتھ نہیں ملایا۔ حال یہ ہے کہ جو افراد کابینہ میں لیے گئے ہیں وہ وزارتوں سے خوش نہیں ہیں، اور جو شامل نہیں کیے گئے انہیں وزیر نہ بنانے کا شکوہ ہے۔
حکومت کی پہلی ترجیح ملکی معیشت کی بگڑی ہوئی صورت حال کو سنوارنا ہے، لیکن وزارتِ خزانہ سے متعلق وزارتی ڈویژن کے لیے کوئی انچارج وزیر ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ اقتصادی کمیٹی کی تشکیل ہوئی ہے، متعدد پرانے چہرے ہیں اور نئے ناموں پر بھی سنگین اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ حکومت کے وزرا خوش اور مطمئن ہیں کہ جی ایچ کیو میں وزیراعظم کو خوش آمدید کہا گیا ہے، لیکن یہ بات اعزاز کے ساتھ ساتھ ذمے داری میں بھی اضافہ کررہی ہے۔ اس ذمے داری کو نہ سمجھا گیا تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات تو اب مستقل طور پر طے ہوچکی ہے کہ قومی سلامتی ملک کی پہلی ترجیح ہے، آئندہ ہر سیاسی حکومت اسے مرکز تسلیم کرکے امور خارجہ، معیشت،اطلاعات اور وزارتِ داخلہ جیسی چار وزارتوں کا باہمی ربط قائم کرکے اہداف طے کرے گی اور ان کے تمام وسائل قومی سلامتی کے تابع رہیں گے۔ مستقبل میں ہر فیصلہ پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے امور کا پہلا زینہ ہوگا۔ پارلیمنٹ اور کابینہ فیصلہ سازی کے وقت خود کو قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا پابند رکھیں گی۔ وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے اہم وزرا کی جی ایچ کیو میں فوجی قیادت سے ملاقات کا اصل حاصل یہی ہے کہ اب یہ تصور ختم سمجھا جائے کہ حکومت اور ملک کی فوجی لیڈرشپ ایک صفحے پر نہیں ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے چار اہم وزرا نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف اور فوجی لیڈرشپ سے قومی سلامتی کے امور پر آٹھ گھنٹے طویل ملاقات کی، جس میں قومی سلامتی کے لیے اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کو بنیاد بنالیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی صدارت میں فوجی لیڈرشپ کا اجلاس ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اب نہر کے دوکناروں کی طرح نہیں بلکہ یک جان دو قالب کے تصور کے ساتھ سیاسی اور فوجی لیڈرشپ قدم سے قدم ملا کر چلے گی اور جمہوری حکومت کا ہر فیصلہ قومی سلامتی کے تابع ہوگا۔ یہ نہایت غیر معمولی نوعیت کی بریفنگ تھی جو وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اہم وزرا کو دی گئی، اور وزیراعظم کو یہ اعزاز دیاگیا کہ وہ فوجی لیڈرشپ کے اجلاس کی صدارت کریں۔ فوجی قیادت کے اجلاس کی صدارت ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور ذمے داری بھی۔ اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ کارکر دگی دکھائے۔ اس بریفنگ کے بعد ہی وزیراعظم کا پہلا بیان سامنے آیا کہ امریکہ کی کوئی غلط بات اور کوئی نامناسب مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کو معیشت اور خارجہ امور میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وسائل کم ہیں، قومی سلامتی کے لیے ضرورتیں زیادہ ہیں۔ کوئی ملک بھی ہمیں غیر مشروط قرض دینے کو تیار نہیں۔ امریکہ ماضی کی طرح اب بھی مطالبات کی ایک لمبی فہرست ہاتھوں میں تھمانا چاہتا ہے، ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری دفاع برائے امور ایشیا و بحرالکاہل رینڈل شرائیور اس کا اظہار بھی کرچکے ہیںکہ پاکستان کی بہت سی حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتی تھیں لیکن جلد ہی ان حکومتوں کو حقائق اور مشکلات کا اندازہ ہوگیا، پاکستان سے متعلق امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور مالی امداد میں کٹوتی کا رویہ بھی برقرار رہے گا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی؟

یہ بات کلی طور پر اب تسلیم شدہ ہے کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان خارجہ امور سے متعلق ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کی طرح خارجہ پالیسی اب سیدھا سادہ شعبہ نہیں رہا، اب دنیا بھر میں ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں۔ او آئی سی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلم ممالک خود ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اقوام عالم میں خارجہ امور کے بدلے ہوئے اصول ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہوئے ہیں لیکن ’’اتحادِ امت‘‘ کا تصور پاکستانی قوم اور دینی جماعتوں کے لیے ابھی بھی بہت پُرکشش ہے، جب کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور ملک کے پالیسی ساز ادارے عالمی سطح پر تبدیلیوں کے باوجود ازسرنو خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں ناکام ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس محاذ پر مشکلات پیش آرہی ہیں۔
عام انتخابات سے قبل عمران خان نے تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، اس دورے میں انہیں غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی حکومت کھل کر سامنے آئے اور اسلامی عسکری اتحاد کی مکمل حمایت کرے۔ سعودی قیادت کا یہ پیغام اور خواہش حکومت تک پہنچ چکی ہے۔ سفارتی امور کے ماہرین بھی تصدیق کرتے ہیں کہ سعودی قیادت چاہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کھلے عام اس اتحاد کی حمایت کریں کیونکہ اُن کے خیال میں ایسا کرنے سے پوری دنیا میں اتحاد کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ خیال بھی آگے بڑھایا جارہا ہے کہ اسلامی اتحاد میں عراق اور ایران کی عدم شمولیت کی وجہ، مذہبی یا نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ سیاسی وجوہات ہیں اور سعودی عرب کو اس ضمن میں پاکستان کی حمایت چاہیے۔
رواں ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہورہا ہے، اس میں وزیراعظم کے بجائے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے، اس دوران عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہونا روایت رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان فی الحال کسی ملک کو اہم عالمی امور میں پاکستان کی حمایت کی فراہمی کی کسی طرح یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اسی لیے پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ کے سپرد کی گئی ہے تاکہ عالمی ایشوز پر حکومتوں کے سربراہ کی سطح پرکوئی ہاں یا ناں کے بجائے بات چیت کو دوسرے درجے کی سطح پر ہی رکھا جائے۔
ماضی میں پاک سعودی تعاون بہت مثالی رہا، لیکن اب ہر ملک اپنا مفاد پہلے دیکھتا ہے، لہٰذا خارجہ امور زیادہ حساس ہوچکے ہیں۔ اب ہمیں مسلم ملک سے بھی مشروط امداد ہی ملتی ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ملکی امور چلانے کے لیے 9 ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ یہ کہاں سے آئیں گے؟ کیا ہم اپنے مقامی وسائل سے یہ حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو کسی ملک کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر جواب ہاں میں نہیں تو پھر لازم ہے کہ آئی ایم ایف سمیت دوسروں کی جانب دیکھا جائے گا۔
پاکستان جنوب ایشیا کا اہم ملک ہے، اس خطے میں چین، امریکہ، بھارت اور روس کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور یہ مفادات مسلسل بڑھ رہے ہیں، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے کام کرے، لیکن اسلام آباد کے لیے یہ بات کبھی بھی ممکن نہیں رہی، اسی لیے پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ گاجر اور چھڑی کے دائرے میں رہے ہیں اور اب بھی یہی کیفیت ہے۔