ملک میں صدارتی و پارلیمانی نظام اور مارشل لا کے ادوار میں اب تک 12 صدور اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں، اور ان کے بعد ڈاکٹر عارف علوی ملک کے 13ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔
1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور صدر کا عہدہ تخلیق کیا گیا، جس کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا تھے جوتقریباً 2 سال 7 ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔27 اکتوبر 1958ء کو ایوب خان نے فوجی طاقت کے ذریعے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا، جس کے بعد ایوب خان تقریباً ساڑھے 10 سال صدر کے عہدے پر رہے۔ اُن کے بعد جنرل یحییٰ خان 25 مارچ 1969ء سے 20 دسمبر 1971ء تک صدر رہے۔یحییٰ خان نے 20 دسمبر 1971ء کو عنانِ اقتدار مغربی پاکستان کی مقبول جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردی۔ اس طرح 20 دسمبر 1971ء سے 13 اگست 1973ء تک وہ صدر رہے۔ فضل الٰہی چودھری 1973ء کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کے وہ پہلے صدر بنے جن کے پاس وزیراعظم سے کم اختیارات تھے۔ وہ 5 سال ایک ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر جنرل ضیاء الحق16 ستمبر 1978ء سے 17 اگست 1988ء تک 10 سال صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ غلام اسحق خان کا دورِ صدارت 17 اگست 1988ء سے 18 جولائی 1993ء تک تقریباً 5 برسوں پر محیط رہا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کے ساتھ 14 نومبر 1993 سے 2 دسمبر 1997ء تک ملک کے صدر رہے۔ رفیق تارڑ یکم جنوری 1998ء سے 20 جون 2001ء تک صدر رہے۔ اسی طرح جنرل پرویزمشرف جون 2001ء سے 6 اکتوبر2007ء تک صدر رہے، لیکن پرویزمشرف کا دورِ صدارت رفیق تارڑ اور فضل الٰہی چودھری کی طرح اختیارات سے عاری نہ تھا، کیونکہ ان کے پاس 58-2(B) کے تحت اختیار تھا۔ آصف علی زرداری 9 ستمبر 2008ء سے 8 ستمبر 2013ء تک صدر رہے۔ ان کے بعد ممنون حسین نے صدارت سنبھالی۔ اب عارف علوی پاکستان کے 13ویں صدر بنے ہیں۔ اس پورے دورانیے میں وسیم سجاد اور میاں محمد سومرو بھی قائم مقام صدر رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عارف علوی پاکستان کے بااختیار صدر ہیں؟ تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہی ہوگا، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے صدر کے اختیارات خاصے محدود ہوگئے ہیں، یعنی وسیع معنوں میں وہ بھی ممنون حسین کی طرح ایک نمائشی صدر ہوں گے۔ 18ویں ترمیم کے بعد سے صدر پارلیمان کے آئینی سال کے آغاز پر اُس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اور ریاست کے رہنما اصول کی یاددہانی کراتا ہے۔ اس کے ساتھ صدرِ پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا سزاؤں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار بھی ہے۔ ہمارے صدر کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے یا اپنی آئینی مدت مکمل کر لے تو صدر ہی اپنی نگرانی میں عام انتخابات منعقد کراتا ہے۔ صدر کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون جو اُس کے پاس پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کے لیے آیا ہو، اسے نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتا ہے۔ اور تمام وفاقی جامعات کا چانسلر صدرِِ مملکت ہی ہوتا ہے۔ صدرِ پاکستان اسمبلی بھی تحلیل کرسکتا ہے، لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد وزیرِاعظم کی درخواست پر ہی وہ یہ کام کرسکتا ہے۔ وہ غلام اسحق والی پوزیشن میں اب نہیں رہا۔ مختلف ممالک کو بھیجے جانے والے سفرا کو حقوق تفویض کرنا اور ملک میں آنے والے مختلف سربراہانِ ریاست کی میزبانی کرنا بھی صدر کا اختیار ہے۔ اس کے ساتھ صدر مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری بھی وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔
ان محدود اختیارات کے ساتھ کراچی سے تعلق رکھنے والے عارف علوی پاکستان کے صدر ہیں۔ انہوں نے 353 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ عارف علوی نے قومی اسمبلی، سینیٹ، خیبر پختون خوا، پنجاب اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا، مولانا فضل الرحمن دوسرے اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن تیسرے نمبر پر رہے۔ قومی اسمبلی و سینیٹ میں 424 ووٹوں میں سے عارف علوی نے 212، فضل الرحمن نے 131 اور اعتزاز احسن نے 81ووٹ حاصل کیے۔ عارف علوی نے پنجاب اسمبلی سے 186، بلوچستان سے 45، خیبر پختون خوا سے 78 اور سندھ اسمبلی سے 56ووٹ حاصل کیے۔
ڈاکٹر عارف علوی 29 جولائی 1949ء کوکراچی میں ڈاکٹر حبیب الرحمن علوی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد انڈیا میں ڈینٹسٹ تھے جو قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ وہ خود بھی پیشے کے لحاظ سے ڈینٹسٹ ہیں اور ان کا شمار دانتوں کے ملک کے معروف ترین معالجین میں کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل عارف علوی پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن سے وابستہ رہے، اور بطور صدر ایشیا پیسفک ڈینٹل فائوندیشن میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی کا سیاسی کیریئر پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ڈاکٹر عارف علوی کا گھرانہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا تھا۔ عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان کے جسم میں ایک گولی آج بھی پیوست ہے جو ایوب خان کی آمریت کے دنوں میں احتجاج کے دوران انھیں لگی تھی۔ کہتے ہیں کہ ادارہ نورِ حق کی زمین کی خریداری کے مراحل میں بھی وہ شریک رہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ڈینٹل کالج میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ طلبہ یونین کے صدر بھی تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ان کے والد جواہر لال نہرو کے بھی ڈاکٹر تھے اور ان کی نہرو سے خط کتابت ان کے پاس موجود ہے، جبکہ فاطمہ جناح نے انھیں مہتا پیلس کا ٹرسٹی مقرر کیا تھا۔ علوی نے 1979ء میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس وقت جماعت اسلامی کے امیدوار تھے، لیکن یہ انتخابات نہ ہوسکے اور ملک میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت آگئی، جس کے بعد وہ اپنے پیشے کی جانب آگئے۔ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی رکن ہیں،1997ء میں پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن بنے، اسی سال کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا۔2001ء میں تحریک انصاف کے نائب صدر بنے۔ 2002ء میں پھر صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے لڑے اور پہلی مرتبہ مسلم لیگ نواز کے سلیم ضیا اور دوسری مرتبہ متحدہ مجلس عمل کے عمر صادق سے شکست کھاگئے۔آپ 2006ء سے 2013ء تک پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری رہے اور 2013ء کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 2016ء میں عارف علوی کو پارٹی کا صوبائی صدر نامزد کیا گیا اور 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں عارف علوی دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ تحریک انصاف کے اُن رہنماؤں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا یعنی ٹوئٹر اور فیس بک پر سرگرم ہیں، اس کے علاوہ عارف علوی ٹیتھ میسٹرو کے نام سے بلاگ بھی لکھتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئینی طور پر محدود لیکن متحرک کردار کے حامل عارف علوی کتنے’’ممنون‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔