حکومت کی تشکیل کے مراحل میں ایک اہم مرحلہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی ہے۔ حقیقی طور پر یہ قومی اسمبلی کی بے اختیار اور بے کار قسم کی کمیٹی ہے جو کسی محکمے کی جانچ پڑتال کرسکتی ہے نہ کسی محکمے کے سربراہ کو طلب کرکے سوال وجواب کرسکتی ہے۔ اس کا سربراہ وفاقی وزیر کے برابر مراعات سمیٹتا اور چاہے تو کسی اہم دن پر کشمیر کے بارے میں لب کشائی کرتا، اور کسی سیمینار کی صدارت کرکے اپنے عہدے اور مراعات کو سند ِجواز عطا کرتا ہے۔ اگر کوئی اس موقع پر بھی نہ بولنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت زور زبردستی سے اس شخص سے کشمیر کے حق میں ایک جملہ بھی ادا نہیں کروا سکتی۔ عملی طور پر اس حقیقت کے باوجود کشمیر کمیٹی کی معنوی اہمیت زیادہ ہے، اور جب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنانے کا اعلان کیا ہے، اس کمیٹی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بااختیار اور عوام کے براہِ راست ووٹوں سے قائم ہونے والے قانون ساز فورم پر مسئلہ کشمیر سے متعلق ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور اور پاک بھارت تعلقات میں کور ایشو ہے۔ پاکستان اس کا اعلان و اعتراف کرے یا نہ کرے، عملی طور پر مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے تعلقات کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ یہ حصار کشمیریوں کی قربانیوں سے طاقت اور توانائی حاصل کرتا ہے، دونوں ملک چاہیں بھی تو اس حصار کو گرا کر اس کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ انسانی لہو کی طاقت زمینی حقیقت بن کر دونوں کے درمیان موجود ہے۔ کشمیر کمیٹی چونکہ کشمیر سے منسوب ہے، اس لیے اس کی سربراہی اب مسئلہ کشمیر کے ساتھ کسی بھی حکومت کی دلچسپی یا عدم دلچسپی کا مظہر بن چکی ہے۔ عوام کشمیر کمیٹی کی سربراہی کو مسئلہ کشمیر کے کور ایشو کے تناظر میں دیکھنے لگے ہیں، اور کچھ یہی صورتِ حال کشمیر سے باہرکشمیری حلقوں اور سری نگر میں برسرِ میدان سیاسی اور عسکری قوتوں کی ہے۔ ان کے لیے کشمیرکمیٹی کی سربراہی اب حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا بیرومیٹر بن چکی ہے۔ عملی طور پر ایسا ہرگز نہیں، کیونکہ کشمیر پالیسی میں کشمیر کمیٹی کی مشاورت کا دخل تو ہوسکتا ہے مگر پالیسی سازی میں یہ کسی کلیدی کردار کی حامل نہیں۔ اسی طرح کشمیر کمیٹی کو حکومتِ پاکستان یا پاکستان کے منتخب ایوان، نمائندوں اور آزادی کے لیے مصروفِ عمل کشمیریوں کے درمیان ایک پُل بھی سمجھا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ توقعات محض حسنِ ظن ہو، مگر نظری اعتبار سے کشمیر کمیٹی سے یہ سوچ وابستہ ہوچکی ہے۔ کشمیر کمیٹی کے پہلے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان ایک بزرگ اور قدآور شخصیت تھے، انہوں نے کشمیر کمیٹی کا معیار اس قدر بلند کیا کہ اُن کے بعد آنے والے اس مقام ومرتبے پر نہ پہنچ سکے۔ نواب زادہ نصراللہ خان بظاہر محترمہ بے نظیر بھٹو کا انتخاب تھے، مگر اس انتخاب میں وسیع مشاورت کا دخل تھا۔ اس کے بعد میاں نوازشریف کی حکومت نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی چودھری سرور نامی اس شخصیت کو دی جو قطعی طور پر اس مسئلے کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بے بہرہ تھی۔ یوں نواب زادہ نصراللہ والی کشمیر کمیٹی گویا کہ اس انتخاب سے 180 ڈگری سے واپس نیچے آگئی۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ چودھری سرور جیسی کمزور شخصیت کا انتخاب دانستہ اور سوچا سمجھا ہے۔ اس کے بعد جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت نے اس کمیٹی کے لیے سردار عبدالقیوم خان کو چنا۔ اُس وقت ملک میں قومی اسمبلی نہیں تھی اس لیے پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو قومی کشمیر کمیٹی کا نام دیا گیا۔ یہ چودھری سرور کی منحنی شخصیت کے ہاتھوں گری پڑی کشمیر کمیٹی کو نواب زادہ نصراللہ خان جیسی ہی ایک اور قدآور شخصیت کے ذریعے دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش تھی۔ مگر جلد ہی فوجی حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور انتخابات کے ساتھ ہی سردار عبدالقیوم خان قومی کشمیر کمیٹی سے فارغ ہوگئے، جس کے بعد حامد ناصر چٹھہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا تو یہ دھڑکا مسلسل لگا رہا کہ وہ کسی وقت کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کے خلاف ہی بیان نہ داغ دیں۔ مولانا نے خود کو فعال اور کشمیر کمیٹی کو غیر فعال کردیا۔ ان کے انتخاب پر سری نگر میں خاصی بے چینی بھی محسوس کی گئی تھی، اور ایک اہم مزاحمتی راہنما کا مخالفانہ بیان بھی سامنے آیا، مگر جلد ہی مولانا اس اختلاف کو مینج کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ میاں نوازشریف نے بھی انہیں اس منصب پر بحال رکھا، اور اب ان کی انتخابات میں شکست اور سیاسی منظر میں غیر معمولی تبدیلی نے کشمیر کمیٹی کو آزادی دلادی۔ اب یہ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بھی ایک امتحان بن گئی ہے۔ اس کے لیے عامر لیاقت حسین کا نام سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے۔عامر لیاقت حسین کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے سوا ملک میں ہر عہدے کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔امید ہے عمران خان کشمیر کے معاملے میں اس قدر بدذوقی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔آثاربتاتے ہیںکہ ان کے دو ر میں مسئلہ کشمیر واقعی ایک کور ایشو کے طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بچھی بساط پر موجود ہوگا، اور اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ فیصلہ کرتے ہوئے کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی علامتی اور معنوی حیثیت کا بھرپور خیال رکھا جائے۔