عام انتخابات کے بعد ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ نومنتخب حکومت کچھ نیا کرکے دکھانا چاہتی ہے، لیکن ملکی معیشت کا ڈھانچہ اور بیوروکریسی کا نظام وہی پرانا ہے، وسائل بھی محدود ہیں۔ حکومت سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اس وقت تین کام ہورہے ہیں: حکومت کا ایک طبقہ تبدیلی چاہتا ہے، دوسرے کی خواہش ہے کہ نظام جیسے چل رہا ہے اسی طرح چلنے دیا جائے، لیکن ایک تیسرا طبقہ ہے جو سامنے آیا ہے، وہ ہے مافیا۔ اس کے اپنے کاروباری مفادات ہیں اور اسے ملک یا عوام سے کوئی ہمدردی نہیںہے۔ کاروباری طبقے میں ہائوسنگ کا شعبہ ایسا ہے جس نے کابینہ کے اہم ترین وزرا کے گرد اپنے مفادات کے تحفظ کی آکاس بیل لپیٹ دی ہے۔ ہائوسنگ کا یہ شعبہ اس کوشش میں ہے کہ وفاق کا جہاں جہاں بس چلتا ہے وہاں کی سرکاری اراضی اونے پونے داموں خرید لی جائے اور وہاں رہائشی فلیٹ بناکر فروخت کیے جائیں۔ اس کاروباری طبقے کے دبائو پر اب پنجاب میں ایسی اراضی کے لیے سروے شروع ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز، آئی جی پولیس، اسٹیٹ گیسٹ ہائوسز کے زیراستعمال اراضی کا سروے کیا جائے گا، اور یہ اراضی مافیا کو فروخت کی جائے گی۔ اس اراضی کی فروخت کے لیے جہاں جہاں قانون سازی کرنا پڑی، کی جائے گی۔ حکومت کا خیال ہے کہ وہ اس طرح ملکی وسائل پیدا کرے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت سی پیک منصوبے کے لیے چین کے ساتھ نئی شرائط پر بات چیت کرنے جارہی ہے۔ سی پیک کے بنیادی طور پر تین روٹس ہیں… پہلا روٹ مغربی، دوسرا مشرقی اور تیسرا وسطی روٹ ہے۔ ان تینوں روٹس پر چین اپنے بینک کے ذریعے قرض دے کر کام کررہا ہے، اور چینی کمپنیاں ہی کام کررہی ہیں، پاکستانی کمپنیوں اور لیبر کا بہت کم عمل دخل ہے۔ چین سی پیک کو اپنا مستقبل سمجھتا ہے۔ چین کے قومی ادارۂ اعدادو شمار کے اپنے جائزے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ مکمل طور پر کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے اور یہ باہمی رابطے کے نیٹ ورک کے فروغ میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ چین کے پاکستان اور بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میںگزشتہ پانچ سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ جون2018ء تک چین اور ان ممالک کے درمیان تجارتی حجم 5 ٹریلین ڈالرسے زیادہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ان ممالک کے اقتصادی اور تجارتی زونز میں چین کی کُل سرمایہ کاری28.9 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جس سے 2.01 ارب ٹیکس ریونیو اور مقامی طور پر 2 لاکھ44 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ چین نے 103ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے 118معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون گزشتہ سال بیجنگ میں ہوا تھا جس سے279 منصوبے زیر غور آئے، ان میں اب تک 265 مکمل ہوچکے ہیں، باقی 14بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق چین 25 بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ چین کی تجارت میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 1.1فیصد سالانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ چین نے پانچ سال کے دوران بیلٹ اینڈ روڈ ممالک میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ براہِ راست سرمایہ کاری کی، جس میں اوسطاً7.2 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ ان ممالک کے ساتھ انجینئرنگ کے شعبوں میں ہونے والے نئے معاہدوں کی مالیت پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے چین غیر ملکی سرمایہ کاری کی اپنی مارکیٹ تک رسائی آسان بنا رہا ہے، اور وہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک سے سرمایہ کاری چاہتا ہے۔ اسی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد میں چینی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا۔ وفد میں بیجنگ انوسٹمنٹ گروپ، اے کے ڈی سیکیورٹیز اور ہینان ایل وی روئی جن نیو انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ شامل تھے۔ اس دورے میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات چیت ہوئی۔ چینی وفد نے آئل اینڈ گیس کے شعبے، رئیل اسٹیٹ اور صحتِ عامہ کی صنعت میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ وفد میں شامل نجی کمپنیوں نے زراعت، پانی اور سیاحت کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لیا۔ چین پاکستان میں زرعی صنعت کے شعبوں کا جائزہ لے رہا ہے، خاص طور پر سویابین اگانا چاہتا ہے، لیکن پاکستان کے بزنس میں غیر معمولی خسارہ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ کاروباری مندی کے اثرات غالب آنے سے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 74 ارب روپے ڈوب گئے جس کے سبب سرمائے کا مجموعی حجم87 کھرب روپے سے کم ہوکر 86 کھرب روپے رہ گیا۔ اسٹاک تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ اداروں کے مالیاتی نتائج توقعات کے مطابق نہ آنے اور نئی حکومت کی جانب سے معاشی اقدامات کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں سے سرمایہ کاروں کے ساتھ غیر ملکی انویسٹر بھی تذبذب کا شکار ہیںاور وہ مارکیٹ میں نئی پوزیشن لینے سے گریز کرنے کے ساتھ پرافٹ ٹیکنگ کو بھی ترجیح دے رہے ہیں، اسی لیے مارکیٹ قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پارہی۔ اسٹاک تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے معاشی بہتری کی نوید سنائی گئی، خصوصاً اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے مثبت پالیسیاں مارکیٹ کا رخ مندی سے تیزی کی جانب موڑ سکتی ہیں۔ مندی کے سبب مارکیٹ کے سرمائے میں 74 ارب 83 کروڑ 28 ہزار 402 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔