ایک معیاری نثری مزاح پارہ ہے
کتاب :کون سے کام بند ہیں (طنز و مزاح)
مصنف :مرزا عاصی اختر
صفحات:108
ناشر:رنگ ادب پبلی کیشنز
رابطہ: 0334-3199732
ای میل:mirzaaasiakhtar@yahoo.com
مرزا عاصی اختر ایک سینئر شاعر اور جونیئر نثرنگارہیں۔ ان کے بارے میں ’عرضِ ناشر‘ میں کتاب کے ناشر اور رنگِ ادب کے مدیر جناب شاعر علی شاعرؔ رقم طراز ہیں کہ بہت کم شاعر ایسے ہیں جو نثر بھی لکھتے ہیں۔ زیادہ تر اہلِ قلم یا تو شاعری کرتے ہیں یا پھر نثر نگاری ان کا میدان ہوتی ہے۔ بہت کم ایسے اہلِ قلم ہیں جن میں یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بہ یک وقت شاعری بھی کرتے ہیں اور نثر نگاری بھی۔ ایسے ہی ایک قلم کار سندھ کے آم کے لیے معروف علاقے میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے مرزا عاصی اختر ہیں، جن کے پہلے تین شعری مجموعے ’’شرارت‘‘، ’’گدگدی‘‘ اور ’’چٹکیاں‘‘ شائع ہوچکے ہیں اور اب ان کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل مختصر کتاب یا بڑا کتابچہ ’’کون سے کام بند ہیں‘‘ شائع ہوئی ہے۔ مرزا عاصی اختر کی کتاب ’’شرارت‘‘ مرزا غالب کی زمینوں میں لکھی گئی مزاحیہ غزلیات کا مجموعہ ہے۔
مرزا عاصی اختر کا تخلص عاصیؔ ہے۔ وہ 6 اگست 1954ء کو جناب مرزا عبدالغنی کے گھر صوبہ سندھ کے ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ غزالی کالج، جام شورو سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج کے میگزین ’’الغزالی‘‘ میں ان کی پہلی مزاحیہ غزل اور پہلی نثر ’’کل پاکستان تفریحی دورے کی روداد‘‘ شائع ہوئی۔ یہ 1975ء کی بات ہے۔ مشاورتِ سخن کے لیے انہوں نے جناب پروفیسر عنایت علی خان اور واجد سعید کا انتخاب کیا اور ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کیے، ان کارہائے نمایاں پر انہیں اسناد و ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ پہلی کتاب ’’شرارت‘‘ پر ابوظفر زین ایوارڈ ملا۔ (یہ ابوظفر زین معروف مزاح گو شاعر شوکت جمال اور مترجم و ادیب ابوالفرح ہمایوں کے والد محترم ہیں)۔ اس کے علاوہ متعدد شیلڈز اور ’’بزمِ شیدائی‘‘ حیدرآباد کی جانب سے ’’پروفیسر عظیم عباسی ایوارڈ‘‘ سے بھی ان کو نوازا گیا۔ فارغ تحصیلِ علم ہونے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوکر علم کی روشنی سے طالب علموں کے اذہان و قلوب کو منور کرنے لگے۔ مرزا عاصی اختر اپنے پورے خاندان میں فردِ واحد ہیں جو شاعری کے میدان میں تن تنہا سامنے آئے ہیں ۔ مرزا عاصی اختر آج کل میرپورخاص میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور گاہے گاہے کُل وقتی شاعروں اور ادیبوں کی فہرست میں نام لکھوا رہے ہیں۔
مرزا عاصی اختر نے میرپورخاص سے بھیجا تو کیا بھیجا؟ … غالبؔ کی غزلوں کی تضامین پر مشتمل مجموعہ کلام!!… اب جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کو ہم اس کتاب سے انہی کا ایک مطلع دہرا سکتے ہیں
آموں کی ترے ہم کبھی پروا نہیں کرتے
مرتے ہیں، ولے ان کی تمنا نہیں کرتے
یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں کا جو کریٹ ہمیں بھیجا ہے اُس میں بھی قلمی آموں کی طرح میٹھے اور خوشبودار قلمی اشعار موجود ہیں۔ کبھی کبھی ہم حیران (اور پریشان) ہوتے ہیں کہ مرزا عاصی اختر زیادہ اچھے شاعر ہیں، یا زیادہ اچھے انسان؟ اچھا شاعر ہونے کی تصدیق تو یہ کتاب کردے گی، اچھا انسان ہونے کے لیے اُن کی ایک حرکتِ شائستہ کا ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے جس بڑے لفافے میں ہمیں اپنا یہ کلام برائے تبصرہ بھیجا ہے، اس میں ایک عدد جوابی لفافہ بھی رکھ دیا ہے۔
’’کون سے کام بند ہیں‘‘ مرزا عاصی اختر کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے جس کا پیش لفظ پاکستان کے نمائندہ مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے تحریر کیا ہے، جب کہ ’’تبسم زیرِ لب‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے، ’’مرزا عاصی اختر کا نثری مزاح‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عتیق جیلانی، اور ’’مرزا غالب کا ایک تازہ مکتوب‘‘ کے عنوان سے انور احمد علوی نے اظہارِ خیال کیا ہے۔
جناب عطاء الحق قاسمی کے پیش لفظ سے اقتباس ملاحظہ ہو
’’مرزا عاصیؔ اختر کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے انتہائی سنجیدگی سے میدانِ مزاح نگاری کا انتخاب کیا ہے اور پھر بڑے خلوص اور جانفشانی سے اپنے کام کو حتی الامکان پورا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ بغیر کسی لگی لپٹی کے سادہ اور سلیس زبان میں اپنے خیال کو لفظوں کا پیراہن دینا ایک مشکل کام ہے، لیکن مرزا عاصی اختر نے بڑی خوب صورتی سے اس مشکل کام کو نبھایا ہے۔ آپ کے مضامین پڑھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی تحریر میں لفظوں کے رنگ روغن کے بجائے خیال کی مضبوط عمارت کو تعمیر کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کی ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آپ کی نثر پر بھی آمد کا گمان گزرتا ہے، اور یہ بڑے کمال کی بات ہے جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘۔
معروف مزاح نگار اور ایک چوتھائی سینکڑہ سے زیادہ کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ایس۔ ایم۔ معین قریشی ’’تبسم زیرلب‘‘ کے عنوان سے مرزا عاصی اختر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مرزا عاصی اختر کا شمار ایسی قابلِ تقلید ہستیوں میں کیا جاسکتا ہے جو اپنی ذہانت، لیاقت اور مہارت کے بل بوتے پر مجموعہ صفات ہوتے ہیں۔ انہیں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ وہ ادب کے نام نہاد اور معروف مراکز سے الگ میرپورخاص جیسے دور دراز اور نسبتاً چھوٹے شہر میں علم و ادب کے ڈنکے بجارہے ہیں، جن کی آواز اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ سرحد پار بھی سنی جاسکتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ان کے نثری مزاح میں وہ زور تو نہیں جو ان کی شاعری میں ہے، جو کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کردیتی ہے، البتہ یہ مضامین زیرلب مسکراہٹ ضرور بکھیرتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا شاعر انہیں اشعار کے ٹانکے لگانے پر مجبور کررہا ہے جس کی بے جا مداخلت کے باعث مزاح کا یہ نرم گرم لحاف اکثر جگہوں پر رلّی میں تبدیل ہوگیا ہے۔
’’مرزا عاصیؔ اختر کا نثری مزاح‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی فرماتے ہیں کہ زیر نظر مزاحیہ نثر پارے ان کی تخلیقی شخصیت کا ایک اور توانا رخ سامنے لارہے ہیں۔ ان کے قہقہہ بار قلم سے ظہور میں آئے ہوئے یہ مضامین برسوں پہلے ادبی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ مجھ جیسے اختر شناس ایک عرصے سے متمنی تھے کہ مسکراتے ستاروں کی یہ کہکشاں، آسمانِ ادب پر کتابی صورت میں جلوہ گر ہو۔
اردو میں نثری مزاح کا سلسلہ موج در موج آگے بڑھتا ہوا شاہ حاتم کے نسخۂ ضحک سے عہدِ یوسفی تک آپہنچا ہے۔ زندگی کے جو مضحک کردار ان تحریروں میں مصنف کا تختۂ مشق بنے ہیں ہم ان کا احوال پڑھ کر مسکراتے ضرور ہیں مگر ان سے متنفر نہیں ہوتے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمیں چاچا چوہان، دادا دل دادہ، استادِ محترم، پروفیسر اور مدہوش مین پوری جیسے کرداروں سے ہمدردی ہوجاتی ہے۔ مصنف نے تخلیقی عمل کے دوران اپنے پیش رو مزاح نگاروں کی طرح بعض دل چسپ تراکیب یا اصطلاحات وضع کرنے کی سعی بھی کی ہے، جیسے جورو گزیدہ، اصنافِ آلائش، طعامی نفاست اور مچھرانیت وغیرہ۔
انور احمد علوی ’’مرزا غالب کا ایک تازہ مکتو ب‘‘ کے عنوان سے مرزا عاصی اختر کے نثری مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میاں عاصی نے اردو عبارت کا حق ادا کردیا، میں اس امر میں مجتہد یا مفتی نہیں، میرے نزدیک مزاح نگاری مختصر نویسی سے عبارت ہے، پڑھ کر قاری کی عیادت نہ کرنی پڑے تو عبادت ہے ورنہ غبادت ہے۔ مرزا عاصی نے چھوٹے چھوٹے بامعنی جملوں سے مزاح پیدا کیا ہے۔ سچ پوچھو تو ان کی نثر ان کی شاعری پر حاوی ہے۔ کتاب ان کی زیادہ تر غیرشخصی خاکوں پر مبنی ہے جن کا تانا بانا میاں رشید احمد صدیقی کے دھوبی سے ملتا ہے۔ عاصی اختر کے خاکے محض خاکے نہیں، ان کو اظہار بناکر مرزا صاحب نے معاشرتی ناہمواریوں پر اچھی خامہ فرسائی کی ہے۔ اگلے وقتوں میں مفلسی اور بے کاری انسان کو شاعر اور ادیب بنادیتی تھی، اب معاشی حیثیت اسے آہستہ آہستہ بڑا بھی بنادیتی ہے۔ مرزا صاحب اپنی صلاحیت کے بل پر یہاں تک پہنچے ہیں‘‘۔
کتاب میں 13 مضامین شامل کیے گئے ہیں جن کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:
’’ایک اور پروفیسر؟‘‘، ’’برسات کے بعد!‘‘، ’’چاچا چوہان‘‘، ’’استادِ محترم‘‘، ’’دادا، دل دادہ‘‘، ’’ہیں گداگر کچھ‘‘، ’’جس کو سمجھے تھے انناس‘‘، ’’مدہوش مین پوری‘‘، ’’مجبور ہیں ہم!‘‘، ’’مکھن لگائو بھائی!‘‘، ’’نالہ آتا ہے اگر لب پہ‘‘، ’’افسرِ بالا‘‘، ’’وہ دکان اپنی بڑھاگئے‘‘۔
اس مختصر سے نثری مزاح پارے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے کُل مطبوعہ صفحات کی تعداد ایک سو سات ہے جس میں سے اگر کتاب کے تکنیکی کوائف، فہرست، پیش لفظ، تقریظات و تعارف نکال دیں تو کُل تیرہ غیرشخصی خاکوں پر مشتمل ستّر صفحات کا یہ ایک کتابچہ رہ جائے گا۔ اس دور کے لوگوں کی عدم فرصت کے تقاضے کے لحاظ سے اصل کتاب کی یہ ضخامت قابلِ ستائش و مقبول ہے، لیکن خوش ذوق قارئین کی اچھے نثری فکاہیہ مزاح کی بھوک و پیاس نہیں مٹتی اور بجھتی۔ تیرہ غیرشخصی خاکوں میں ایک خاکے کی ضخامت بمشکل ساڑھے پانچ صفحے ہے۔ ایک خاکہ تو تین صفحات پر ہی مشتمل ہے۔
شخصی اور غیرشخصی خاکے
شخصی خاکے ایک جیتی جاگتی شخصیت یا سال ہی میں مرحوم شخصیت کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اگر وہ شخصیت حیات ہے تو اس کے فوائد اور نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ غیر شخصی خاکوں سے مصنف کو یہ فائدہ ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت کو استعارتاً نشانہ بناکر اسے غیرشخصی خاکے میں تبدیل کرسکتا ہے اور شخصیت کے خوف یا عتاب سے محفوظ بھی رہتا ہے۔ رشید احمد صدیقی کے شخصی اور غیر شخصی خاکے، سعادت حسن منٹو کے گنجے فرشتے، یا یوسفی کے یعسوب الحسن غوری یا صبغے اینڈ سنز کے ان کے معروف کردار، اپنی ادبی خصوصیات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے عملی عکاس بھی ہیں۔
ان کے مضامین سے اقتباسات ملاحظہ کرتے ہیں تاکہ ان کی نثرنگاری کے محاسن سامنے آسکیں۔ ملاحظہ ہوں:
’’جب سے پروفیسر ہوئے تھے گفتگو کا انداز بالکل بدل گیا تھا، اور گفتگو ہی پر کیا موقوف، ان کا تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ یہاں تک کہ بیوی بھی بدل لی تھی۔ پہلی ناخواندہ، مگر خدمت گزار تھی لیکن دوسری میں یہ خوبیاں بالکل الٹ تھیں۔ چنانچہ اب کپڑے (بیوی کے بھی) خود ہی دھوتے اور استری کیا کرتے تھے۔‘‘
(ایک اور پروفیسر)
’’جب لوگ ’تھری پیس سوٹ سائیکل سوار‘ کی پھبتیاں سرِعام کسنے لگے تو نہایت ہی بدتر کنڈیشن کی ایک ہونڈا ففٹی خرید لی، جسے عام طور پر لوگ محکمۂ آثار قدیمہ کی ملکیت سمجھتے اور پروفیسر کو وہاں کا افسر۔ اس گاڑی کے بارے میں یار لوگوں نے مشہور کردیا تھا کہ ہٹلر اسی پر بیٹھ کر فوجوں کا معائنہ کرنے نکلتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور مماثلت یہ تھی کہ ہٹلر بھی انہی کی طرح مکھی مونچھ رکھا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگ انہیں نظر بچا کے ہٹلر کہہ دیتے تھے۔ بات ہورہی تھی ہونڈا کی، اس کی آواز اتنی ہولناک تھی کہ شب کے سناٹے میں، چھوٹے بچے چیخ مارتے ہوئے اپنی مائوں کے سینوں سے چمٹ جاتے تھے اور بچوں کے ابا غصے میں دانت پیستے رہ جاتے تھے‘‘۔
(ایک اور پروفیسر)
’’مگر بارش کے موسم میں شرافت اور کیچڑ دونوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے، مبادا پھسل جائیں۔ قصہ مختصر یہ کہ بس اسٹاپ پر ہوٹل کے عین سامنے بارش کا پانی پھیلا ہوا تھا، مگر کنارے پر مذکورہ بالا راہ داری بن گئی تھی۔
’’وہ موصوفہ ہمارے آگے آگے تھیں۔ تھیں تو ہمارے پیچھے، مگر ہم نے Ladies First والے کلیے کے پیش نظر ان کو آگے جانے دیا۔ بس یہی عمل، بلکہ حسنِ عمل ہماری نیکی اور منگنی کو لے ڈوبا، کیوں کہ راہ داری اتنی پتلی تھی کہ ہم ان کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور تھے۔ ہمارے ممکنہ سسر صاحب اور ان کے رفقائے کار نے یہ دل دوز منظر دیکھا تو تاب نہ لاسکے، دوسرے دن رشتہ کرانے والی صاحبہ سے کہلا بھیجا کہ چوں کہ لڑکا بدمعاش ہے اور لڑکیوں کا پیچھا کرتا ہے، لہٰذا یہ رشتہ منظور نہیں۔‘‘
(برسات کے بعد)
’’چاچا چوہان محلے کے بچوں میں بے حد مقبول ہوگئے۔ اب نالی سے گٹر تک کے مسائل یہ حل کرتے۔ چوں کہ گٹروں کے ڈھکن خاصے دنوں سے غائب تھے، اس لیے کرکٹ کی گیند اور فٹ بال اکثر ان میں جاگرتی۔ یہ فوراً گیند نکالنے دوڑتے۔ اس سستے زمانے میں فی گیند آٹھ آنے لیا کرتے۔ بچوں کا اب یہ عالم تھا کہ میچ شروع ہونے سے قبل ایمپائر اور ریفری کے بجائے چچا کو پہلے تلاش کرتے، کیوں کہ ایمپائر تو کوئی بھی بن سکتا تھا، مگر نالیوں اور گٹروں میں جھانکنا کسی کے بس میں نہ تھا‘‘۔
(چاچا چوہان)
’’ایک مرتبہ ان سے ملنے گیا تو کمرۂ جماعت میں تھے۔ کھڑکی سے جھانکا تو عجیب منظر تھا۔ ان کی پیشانی عرق آلود تھی اور باقی جسم بھی ایضاً۔ ایک ہاتھ میں شاگرد کے زنانہ بال مردانہ تمکنت سے مٹھی میں بھینچے ہوئے، جب کہ دوسرے ہاتھ سے انگوٹھے والا مکا بنا رکھا تھا۔ کسی پرانی فلم کے ولن لگ رہے تھے۔ یہ دہشت ناک منظر دیکھ کر میں ان سے ملے بغیر واپس چلا آیا۔ شام کی ملاقات میں جب ان سے استفسار کیا تو بڑی بے بسی سے فرمانے لگے ’’یار اس کلاس کے بچے نرے احمق ہیں، دیدہ دانستہ ایسے سوالات پوچھتے ہیں، جن کا جواب مجھے نہیں آتا‘‘۔
(داد، دلدادہ)
’’آج کی ماڈرن خواتین کسی دفتر میں ملازم ہوں، وہ کام نہیں، کام تمام کرتی ہیں۔ پھر باس کے کمرے میں جانا اور آنا
ان کی کُل دفتری مصروفیات ہوتی ہیں۔ دفتر میں آٹھ دس گھنٹے کی محنتِ شاقہ کے بعد ہشاش بشاش اور چاق و چوبند نظر آتی ہیں، لیکن گھر واپسی پر کوئی ایک کپ چائے کی فرمائش کر بیٹھے تو شاعرِ خوش بیان کی زبان میں
دفتر میں آٹھ گھنٹے جو کرتی تھی ٹائپنگ
گھر میں بنائی چائے تو ہلکان ہو گئی
(جس کو سمجھے تھے انناس)
’’محلے بھر میں مشہور تھا کہ مرد مار عورت ہے، اور یقین اس لیے کرنا پڑتا تھا کہ مدہوش صاحب ان کے چوتھے خاوند تھے۔ متقدمین میں سے دو کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ایک نے عروسی ازار بند کا پھندا گلے میں لگاکر خود کو عالم بالا کی راہ دکھائی۔ مدہوش صاحب متوسطین کی صف میں کھڑے متاخرین کو تکتے کہ دیکھیں ان کا نمبر کب آتا ہے۔ مدہوش صاحب کو دیکھ کر اکثر احباب رشک کرتے کہ قدرت نے اتنی خوب صورت زوجہ سے نوازا ہے، مگر جب پچھلوں کا حشر دیکھتے تو ان پر حیرت اور افسوس کے سائے منڈلانے لگتے‘‘۔
(مدہوش مین پوری)