بدنام زمانہ بلیک واٹر (Blackwater) کے بانی ایرک پرنس نے طالبان کو کچلنے کے لیے کرائے کے دہشت گردوں کی فوج ترتیب دینے کی تجویز دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جاری فوجی آپریشن کو بلیک واٹر کے حوالے کردیا جائے، یا یوں کہیے کہ اس بدنصیب ملک میں جاری خونریزی کی نجکاری کردی جائے۔ ایرک پرنس امریکی فوج کے چھاپہ مار دستے SEALکے ایک سابق افسر ہیں جنھوں نے فوج سے سبک دوشی کے بعد بلیک واٹر کے نام سے سیکورٹی ایجنسی قائم کرلی۔ موصوف کا تعلق ارب پتی خاندان سے ہے، جس کی وجہ سے سی آئی اے اور فوج میں روابط پیدا کرنا اُن کے لیے کچھ مشکل نہ تھا، چنانچہ جلد ہی انھیں امریکی حکومت کی طرف سے 2 ارب ڈالر کا معاہدہ عطا ہوا جس میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر خفیہ سرگرمیوں کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ بہت سے پیشہ ور افغان جنگوئوں اور نجی ملیشیا سے ایرک پرنس کے قریبی تعلقات تھے اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں نے9/11کے بعد ان جنگجوئوں سے مل کر امریکی حملے سے پہلے ہی طالبان ٹھکانوں پر کئی مہلک شب خون مارے۔ ان کامیابیوں کی بنا پر بلیک واٹر افغانستان میں امریکی سی آئی اے کی محبوب سیکورٹی کمپنی بن گئی۔ کچھ سینئر افغان مجاہدین کو شک ہے کہ احمد شاہ مسعود کے قتل میں بھی بلیک واٹر کا ہاتھ تھا۔ افغان جہاد کے ہیرو، 48 سالہ فاتحِ پنجشیر 9/11 حملے سے دو دن پہلے یعنی 9 ستمبر2001ء کو افغان صوبے تخار میں اُس وقت اپنی جان سے گئے جب صحافیوں کے روپ میں آنے والے مبینہ دہشت گردوں کے کیمرے میں چھپا بم پھٹ گیا۔ ایک مبینہ خودکش بمبار عبدالستار ضحمانی زندہ گرفتار ہوا لیکن اُسے گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ اُس کی بیوہ ملکہ الاروض نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ حملہ اُس کے شوہر سمیت صحافیوں نے نہیں کیا تھا۔ ملکہ نے کہا کہ احمد شاہ مسعود کے انٹرویو سے پہلے اس کے شوہر نے اپنے ان ہی ساتھیوں کے ساتھ پروفیسر برہان الدین ربانی اور مجاہد رہنما عبدالرب رسول سیاف کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ اگر وہ دہشت گرد ہوتے تو برہان الدین ربانی کو ہلاک کرتے جو احمد شاہ مسعود کی پارٹی جمعیت اسلامی کے امیر تھے۔ محترمہ ملکہ الاروض غالباً اس وقت بیلجیم کی جیل میں ہیں۔ ان پر ’جہادی ویب سائٹ‘ چلانے کا الزام ہے۔
عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد بلیک واٹر وہاں بھی سرگرم ہوگئی۔ معاہدے کے تحت عراق میں بلیک واٹر کی بنیادی ذمے داری امریکہ کے سفارت خانے، قونصل خانوں، سفارت کاروں کی رہائش گاہوں اور آمدورفت کے دوران تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ فوجی قافلوں اور اہم عسکری تنصیبات کی نگرانی و نگہبانی بھی بلیک واٹر کو سونپ دی گئی۔ بلیک واٹر کے ایجنٹ تشدد کے طریقوں سے خوب واقف ہیں، اس لیے امریکی فوج کے زیرحراست جنگی قیدیوں کی لب کشائی کا کام بھی اس ادارے کی ذمے داری ٹھیرا۔ عراق میں تعیناتی کے دوران بلیک واٹر نے کئی جگہ نہتے معصوم عراقی شہریوں پر بلااشتعال فائرنگ کی، جس میں درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ دلچسپ بات کہ سابق صدر اوباما نے جو اُس وقت سینیٹر تھے، بلیک واٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور 2008ء کی انتخابی مہم کے دوران بلیک واٹرکو پیشہ ور قاتل اور اُس کی حکمتِ عملی کو امریکی اقدار کے منافی قرار دیتے رہے۔ لیکن برسراقتدار آکر صدر اوباما نے بلیک واٹر کو دنیا کے مختلف امریکی سفارت خانوں پر گارڈر فراہم کرنے کے لیے 12 کروڑ ڈالر کا ٹھیکہ دیا، جس کے چند دن بعد 10 کروڑ ڈالر کا ایک اضافی ٹھیکہ سی آئی اے کے لیے عطا کیاگیا۔ ان اقدامات سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ جناب ایرک پرنس کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔
مسٹر پرنس کی ہمشیرہ محترمہ بیٹسی ڈیووس امریکہ کی وزیر تعلیم اور صدر کی مقربین میں شمار ہوتی ہیں۔ خود ایرک پرنس صدر ٹرمپ کے قریبی دوستوں میں ہیں اور انھوں نے مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں خطیر عطیات دیئے تھے۔ موصوف متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہیں اور ولی عہد شہزادہ محمد بن زید المعروف MBZ مسٹر پرنس کے احباب میں شمار ہوتے ہیں۔ بلیک واٹر نے 2009ء میں ژی سروسز (Xe Service)اور 2010ء میں اکیڈمی (Academi)کا نام اختیار کرلیا۔ آج کل یہ ادارہ کونسٹیلس ہولڈنگز (Constellis Holdings) کے نام سے سرگرم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ Wakenhut بھی بلیک واٹر سے ہی وابستہ ہے جو پاکستان میں G4Sکے نام سے کام کررہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کی مختلف فوجوں کے 50 ہزار سابقین ایرک پرنس کے ادارے سے وابستہ ہیں جنھیں دورانِ تربیت اردو، فارسی، عربی، پشتو اور دری زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔ لڑنے بھڑنے والے سپاہیوں کے ساتھ بلیک واٹر نے سینکڑوں سابق سفارت کار، صحافی، جامعات کے پروفیسر، ماہرینِ نفسیات اور مذہبی علما بھی بھرتی کررکھے ہیں۔
ایرک پرنس اور ان کے عسکری و تنظیمی ڈھانچے کے بعد آتے ہیں افغانستان کی طرف۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ ہفتے عرض کیا تھا افغانستان کی سرکاری فوج عملاً شکست کھاچکی ہے اور سارے ملک میں طالبان دندناتے پھر رہے ہیں۔ عسکری ماہرین کے خیال میں امریکہ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، یعنی یا تو امریکی بلبل چمنِ افغانستان سے اپنا آشیانہ اٹھا لے، یا چچا سام طالبان کو شکست دینے کے لیے اپنی برّی فوج کو میدان میں لے آئیں، اس لیے کہ محض بمباری سے طالبان کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ تاہم پینٹاگون کو خدشہ ہے کہ طالبان سے زمین پر براہِ راست لڑائی میں خاصہ جانی نقصان ہوگا اور قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کی آمد کو امریکی عوام برداشت نہیں کریں گے۔
اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرک پرنس نے افغان جنگ کی ’نجکاری‘ کا مشورہ دیا ہے۔گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں ایرک پرنس نے کہا کہ ایک سال پہلے افغانستان کے لیے صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ جنوب ایشیا حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے، کابل سمیت سارا افغانستان طالبان کے نشانے پر ہے اور اب تو بگرام کا امریکی اڈہ بھی پوری طرح محفوظ نہیں۔ مسٹر پرنس نے امریکی فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو مکمل آزادی یعنی Free-Handکے ساتھ 62 ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی دی، لیکن یہ لوگ نہ صرف طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے بلکہ منشیات، ناقص تربیت اور بدعنوانی کی بنا پر افغان فوج بھی اب عملاً تحلیل ہوچکی ہے۔
جناب پرنس کا کہنا تھا کہ نجکاری مسئلے کا حل ہے اور وہ اس تنازعے کو بہت آسانی سے نمٹا سکتے ہیں جس میں امریکہ کا جانی و مالی نقصان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے پر صرف 10 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور آپریشن کی نگرانی کے لیے 1500سے بھی کم امریکی فوجی افسران کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت افغانستان میں نیٹو کے 15000 سپاہی تعینات ہیں۔ ایرک پرنس کا کہنا ہے کہ آپریشن کی نجکاری کی صورت میں یہاں موجود امریکی فضائیہ کے طیاروں میں بھی کمی کی جاسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بھاری بمباروں کے بجائے ڈرونز اور گن شپ ہیلی کاپٹر کافی ہوں گے۔ اسی کے ساتھ پرنس صاحب نے یقین دلایا کہ ’انسانی حقوق‘ کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ ایرک پرنس نے اپنی حکمت عملی کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن عسکری نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ نجکاری منصوبے کے تحت:
٭پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا بھر سے پیشہ ور مجرموں، قاتلوں اور خونیوں کو طالبان کے خلاف تربیت دے کر میدان میں اتارا جائے گا۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پشتونوں اور فارسی بانوں میں منافرت پھیلاکر ازبکوں اور تاجکوں کو نسلی بنیاد پر طالبان کے خلاف کھڑا کیا جائے گا۔
٭پاکستان سے فتنہ گر شیعہ اور دیوبندی مولویوں کے ذریعے سنیوں اور ہزارہ برادری میں نفرت کو مزید فروغ دیا جائے گا اور عراق و شام کی طرز پر شیعہ دستوں کو طالبان کے خلاف منظم کیا جائے گا۔
٭تحریک طالبان پاکستان اور داعش کو منظم کرکے طالبان کے خلاف تکفیری حربے استعمال کیے جائیں گے۔ مسٹر پرنس کا خیال ہے کہ عسکری اعتبار سے طالبان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور اُن پر پشت سے وار کی ضرورت ہے، جس کے لیے لسانیت اور فرقہ واریت کا ہتھیار بہت کارگر ہوگا۔
ایرک پرنس کی اس تجویز پر صدر ٹرمپ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اخباری نمائندوں کا کہنا ہے کہ 18 اگست کو دارالحکومت کے قریب کیمپ ڈیوڈ کے صدارتی استراحے(Retreat) میں ایک خصوصی اجلاس ہوا ہے جس میں صدر نے اپنے قریبی مشیروں اور مقربین سے اس سلسلے میں مشورہ کیا۔ اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب ٹرمپ کی ہدایت پر اجلاس میں شرکت کے لیے نائب صدر مائک پینس نے اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کردیا۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اس سلسلے میں فیصلہ نہیں کرپارہے اور ابھی مزید سوچ و بچار کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی جرنیل اس تجویز کے مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ متوازی فوج کی تشکیل سے امریکی فوج کے حوصلے پست ہوں گے اور اسے فوج پر امریکی صدر کا عدم اعتماد سمجھا جائے گا۔ افغان حکومت نے بھی اس تجویز پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کابل کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں افغانستاں نجی ملیشیا کے زیراثر آجائے گا۔
دوسری طرف امریکی کانگریس کے پاکستان دشمن عناصر خاص طور سے ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن رکن ڈانا رہراباکر (Dana Rohrabacher) ایرک پرنس کی تجویز کے دل و جان سے حامی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح جناب رہراباکر بھی افغانستان میں امریکی فوج کی کارکردگی سے سخت مایوس ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ نئی افغان پالیسی کے تحت صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو جو اہداف دیئے تھے امریکی فوج اس سے کوسوں دور ہے۔ وزیرخارجہ مائک پومپیو کا بھی یہی خیال ہے کہ افغانستان امریکہ کے لیے دلدل بن چکا ہے جہاں سے جلد از جلد نکل جانا ہی بہتر ہے۔ لیکن یہ وہ کمبل ہے جس سے جان چھڑانا بھی اتنا آسان نہیں۔ قومی سلامتی کے لیے صدر کے مشیر جان بولٹن ڈرا رہے ہیں کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تو یہ ملک امریکہ مخالف عسکری تحریکوں کو گڑھ بن جائے گا۔
بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ افغان آپریشن کی نجکاری کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا، لیکن میدان میں ہونے والی نقل و حرکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا موڈ دیکھ کر امریکہ کے اربابِ حل و عقد نے اس سمت میں ابتدائی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ طالبان الزام لگارہے ہیں کہ امریکی فوج نے طالبان کے مقابلے میں داعش سے اتحاد کرلیا ہے اور اب پشتون علاقوں میں داعش کو طالبان کے مقابلے میں اتارا جارہا ہے۔ 21 اگست کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ دودن قبل ننگرہار اور کنڑ میں لڑائی کے دوران امریکی بمباروں نے داعش کے سپاہیوں کو فضائی تحفظ (Air Cover) فراہم کیا، جنگ میں مصروف طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔ طالبان کو اس جھڑپ میں امریکی بمباری سے شدید جانی نقصاں اٹھانا پڑا۔ افغانستان میں امریکہ کے نامزد سفیر جان باس نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے، لیکن داعش کے لیے امریکی حمایت کا الزام نیا نہیں ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کے ہیلی کاپٹروں سے داعش کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ روسی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں کرزئی صاحب نے کہا کہ اُن کے پاس ایسے شواہد اور شہادتیں موجود ہیں جن کے مطابق بے نام و نشان ہیلی کاپٹر رات گئے ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں پر اترتے ہیں اور ان ہیلی کاپٹروں سے اسلحہ اترنے کا مشاہدہ مقامی افغانوں نے خود کیا ہے۔ چند روز پہلے ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف نے بھی کہا تھا کہ امریکہ شام اور افغانستان میں داعش کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے بھی صدر کرزئی کی طرح اپنے الزام کے حق میں ٹھوس شواہد کا دعویٰ کیا ہے۔
اسی ضمن میں ایک افواہ یہ بھی گرم ہے کہ جناب زلمے خلیل زاد کو نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان بنایا جارہا ہے۔ مزارشریف میں جنم لینے والے 67 سالہ زلمے خلیل زاد کو اپنی دبنگ اور بارعب شخصیت پر بڑا ناز ہے۔ موصوف افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بطور سفیر کابل بھیجے گئے تھے اور ان کا تحکمانہ انداز وائسرائے والا تھا۔ 2003ء میں عراق پر قبضے کے بعد اسی حیثیت میں وہ بغداد میں تعینات کیے گئے تھے، جس کے فوراً بعد داعش کو فروغ ملا۔ مدرسہ و مُلاّ مخالف پتھر دل خلیل زاد کو طالبان کی کامیابی کسی طور منظور نہیں۔ موصوف ایرک پرنس کے قریبی دوست ہیں اور مبینہ طور پر ’پرائیویٹ دہشت گردی‘ کے حامی ہیں۔
افغان آپریشن کی نجکاری کا مطلب پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا بھر سے پیشہ ور مجرموں، قاتلوں اور خونیوں کو طالبان کے خلاف تربیت دے کر میدان میں اتارنا ہے۔ داعش کی شکل میں بے رحم، مسلح اور تجربہ کار کرائے کے فوجی پہلے سے موجود ہیں۔ یہ قتل و غارت گری کے ساتھ ہزارہ سنی منافرت، پشتونوں اور فارسی بانوں کے درمیان تعصب اور طالبان کے خلاف تکفیری حربے بھی بہت حکمت کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی کی نجکاری سے شمالی سرحد پر فتنہ و فساد کی لہر پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ابھی چند دن پہلے داعش کے پراسرار سربراہ ابوبکر البغدادی کی نئی ٹیپ سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے اپنے ساتھیوں کو وقتی ناکامی و آزمائش کا ’جرأت‘ سے مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فتح مبین کی بشارت دی ہے۔ البغدادی کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ موصوف چھ ماہ پہلے شام میں روسی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے، لیکن اب اچانک اُن کا یہ جارحانہ بیان خاصہ معنی خیز ہے۔ زلمے خلیل زاد کا تقرر، افغان آپریشن کی نجکاری، داعش کو امریکی اسلحہ کی فراہمی، افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ اور داعش کا مبینہ اتحاد، اور اب ابوبکر البغدادی کی جانب سے مایوس سپاہیوں کو فتح مبین کی بشارت پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ نجکاری کی حکمتِ عملی سے طالبان کو جو نقصان ہوگا وہ تو ہوگا لیکن سرحد پر فتنہ و فساد کی یہ نئی لہر پاکستان کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ اس اہم اور سنگین مسئلے پر امریکی وزیرخارجہ سے دوٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی ستمبر کے آغاز میں اسلام آباد آمد متوقع ہے۔
نفرت کا سوداگر گیرٹ وائلڈرز
نفرت کے سوداگر گیرٹ وائلڈرز (Geert Wilders) نے دنیا کے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کے دل چھلنی کررکھے ہیں۔
54 سالہ گیرٹ وائلڈرز کی تعلیم واجبی سی ہے۔ مزاج بچپن ہی سے آوارگی کی طرف مائل تھا، چنانچہ وہ ہائی اسکول مکمل کرتے ہی گھر سے بھاگ کھڑے ہوا اور ادھار ٹکٹ لے کر اسرائیل چلا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب عراق اور ایران کے درمیان گھمسان کی جنگ ہورہی تھی اور سارے اسرائیل میں مسرت و اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا داخلی امن اسرائیل کو اس کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس عرصے میں گیرٹ نے عرب ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ اُس کے احباب کا خیال ہے کہ گیرٹ اس دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستہ تھا اور یہ دوڑ بھاگ اُس کی جاسوسی مہم کا حصہ تھی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اب بھی موساد کا تنخواہ دار ہے۔ وہ سال میں کم ازکم دوبار اسرائیل جاتا ہے۔2011ء میں جائزآمدنی سے کہیں اعلیٰ معیار زندگی کے شبہ میں اس کے خلاف حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا جس پر گیرٹ نے ایک خفیہ کمپنی چلانے کا اعتراف کرلیا۔ ڈچ قانون کے مطابق یہ قابلِ سزا جرم ہے، لیکن جس طرح معاملے کو دبا دیا گیا اس سے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں کسی حد تک صداقت نظرآتی ہے۔ اسرائیل سے واپسی پر گیرٹ ہیلتھ انشورنس فروخت کرنے لگا اور اسی دوران اُس کی ملاقات پیپلز پارٹی برائے آزادی و جمہوریت کے سربراہ فرٹز بولکسٹین سے ہوگئی۔ فرٹز نے اُس کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر بھاری مشاہرے پر اسے پارٹی کا اسپیچ رائٹر یا خطبہ نویس بھرتی کرلیا۔ فرٹز خود بھی ایک متعصب انسان ہے اور اسے ہالینڈ میں اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے پر شدید تشویش تھی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرٹز نے کہا کہ ہالینڈ کے شہر اور قصبات مراکش کا منظر پیش کررہے ہیں۔ سارے ملک میں ہر طرف پگڑی، داڑھی اور برقعوں کی بہار ہے۔ ہر بڑے بازار میں حلال گوشت کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ہمارا ملک بھی غرناطہ بن جائے گا۔ فرٹز نے اپنے خطاب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا اور جوشِ خطابت میں یہ بھی کہہ گیا کہ ہالینڈ ڈچ قوم کا ملک ہے اور جن لوگوں کو عرب ثقافت عزیز ہے وہ مشرق وسطیٰ چلے جائیں۔ فرٹز کی اس تقریر سے مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیلا اور دوسرے ہی روز پچاس ہزار مسلم نوجوان ایمسٹرڈم کی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں قرآن اور ڈچ پاسپورٹ اٹھا رکھے تھے۔ یہ نوجوان فرٹز کے احمقانہ خطاب کے جواب میں جو نعرے لگا رہے تھے اس کا ترجمہ حضرتِ کلیم عاجز کی زبان میں کچھ اس طرح کیا جاسکتا ہے
ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائیں گے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں نہ نکالے آپ کے جائیں گے
فرٹز کی یہ تقریر اُس کے خطبہ نویس گیرٹ وائلڈرز نے لکھی تھی۔ اس کے بعد سے گیرٹ نے اپنی پوری زندگی اسلام کے خلاف وقف کردی۔ اس نے قرآن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جو اس کے خیال میں عورتوں کی غلامی کی دستاویز اور دہشت گردی کا تفصیلی ہدایت نامہ ہے۔ اس نے قرآن کریم کو میین خیمپف (میری جدوجہد) قرار دیا جو ہٹلر کی خودنوشت سوانح عمری اور نازی منشور ہے، جس کی اشاعت، تقسیم اور فروخت پر امریکہ اور یورپ میں مکمل پابندی ہے۔ اپنے وضاحتی بیان میں وائلڈرز نے کہا کہ اسے مسلمانوں سے نہیں قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت ہے۔ گیرٹ وائلڈرز نے فتنہ کے عنوان سے ایک انتہائی نفرت انگیر دستاویزی فلم بھی بنائی۔ گیرٹ کی فتنہ انگیزی پر خود مسیحی دنیا بھی لعنت و ملامت کررہی ہے اور برطانیہ میں اس کی آمد پر کئی بار پابندی لگ چکی ہے، جبکہ امریکی صدر اوباما نے اس سے ملاقات سے انکار کردیا تھا۔ ہالینڈ کی سپریم کورٹ اس پر ’’فروغِ نفرت‘‘ کے الزام میں مقدمہ چلاچکی ہے۔ گو کہ آزادیٔ اظہار کے پردے میں اسے بری کردیا گیا، تاہم عدالت نے اس کے خیالات کو نفرت کی حد تک انتہا پسند قرار دیا۔ اس شرِ مجسم کی ذاتی زندگی بھی نشانِ عبرت ہے۔ خوفزدہ گیرٹ نے گزشتہ بارہ سال سے خودساختہ نظربندی اختیار کررکھی ہے۔ دنیا کے اس بزدل ترین فرد کو مردِآہن کہا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ گیرٹ نے خود کو فولاد کے خول میں بند کررکھا ہے۔ یہ سر سے پیر تک فولادی زیر جامہ پہنے رہتا ہے اور سوتے وقت بھی اسے نہیں اتارتا۔ اسی بنا پر کئی جلدی امراض میں مبتلا ہے۔ اس کے دفتر اور گھر کی بیرونی دیواریں کنکریٹ میں فولاد کی چادریں چن کر بنائی گئی ہیں، اس کی خواب گاہ ڈیڑھ فٹ چوڑی فولادی چادروں سے بنائی گئی ہے۔ اس کی اہلیہ کو بھی ملاقات سے پہلے جامہ تلاشی کی ذلت سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی بنا پر میاں بیوی کے درمیان بالمشافہ گفتگو ہفتے میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ اپنی ذلت آمیز زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے خود گیرٹ نے کہا کہ وہ اپنے بدترین دشمن کے لیے بھی ایسے عذاب کی خواہش نہیں رکھتا۔