۔50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کی دعویدار تحریک انصاف نے وفاق، خیبرپختون خوا اور پنجاب میں کامل، بلوچستان میں مخلوط اور سندھ میں ایف اے پاس گورنر کے ساتھ حکومتیں بناکر کام شروع کردیا ہے۔ وفاق میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور پرویزمشرف کی ٹیم کے ارکان کی اکثریت کے ساتھ کابینہ بنی ہے، جس میں ’’تھوڑی سی‘‘ نمائندگی تحریک انصاف کو بھی مل گئی ہے۔ پنجاب میں یہی صورتِ حال اس اضافے کے ساتھ ہے کہ اسپیکر قاف لیگ سے ہے، جب کہ 4 ماہ قبل پارٹی میں شامل ہونے والے ایک نامعلوم ایم پی اے کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا ہے، جس کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ اُس کے اپنے گھر میں بھی بجلی نہیں ہے۔ کوہِ سلیمان کے دامنی علاقے تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کی تین پشتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ اُن کے دادا دوست محمد بزدار جماعت اسلامی کے درویش صفت رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر شہید کے نیچے 1970ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اُن کے والد فتح محمد بزدار تین بار ایم پی اے، جب کہ خود عثمان بزدار دوبار تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ غالباً یہ اُس مزاج کے قبائلی سردار ہیں جو اپنے علاقے میں اسکول، کالج اور سہولتیں خود نہیں آنے دیتے، ورنہ اس سیاسی پس منظر کے ساتھ اپنے گائوں میں بجلی پہنچانا کچھ مشکل نہیں تھا۔ لیکن چوں کہ یہ لوگ خود قریبی شہروں میں رہتے ہیں اس لیے بجلی نہ ہونے کی تکلیف تو گائوں والوں کو ہے۔ انہیں تو شہر میں ساری سہولتیں میسر ہیں۔ گائوں مہینے دو مہینے بعد گئے تو ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں سے اتر کر تھوڑا وقت بجلی کے بغیر گزار لیا، جب کہ وہاں دستی پنکھوں سے ہوا دینے کے لیے درجنوں خدمت گار پہلے ہی موجود ہوتے ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ نے راولپنڈی کے ایک ڈھابے پر چائے پی کر اپنی عوامیت کا مظاہرہ بھی کردیا ہے، جب کہ خاتونِ اوّل بشریٰ بی بی کے سابق شوہر اور بچوں کے پولیس کے ساتھ جھگڑے کے بعد ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے انہوں نے اپنے انتظامی کام کا بھی آغاز کردیا ہے۔ اس کیس میں پولیس کا رویہ روایتی اور زیادتی پر مبنی لگتا ہے، تاہم پولیس میڈیا کے ذریعے اپنی مظلومیت کی کہانی سامنے لارہی ہے، جب کہ بے لگام سوشل میڈیا اس میں دور دور کی کوڑیاں نکال کر لارہا ہے۔ وزیراعلیٰ اس معاملے میں براہِ راست مداخلت کرنے کے بجائے ضابطہ کے مطابق کارروائی کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ دوسری جانب وزیر ریلوے شیخ رشید کی چیف کمرشل منیجر ریلوے کے ساتھ تلخ کلامی اور شٹ اپ کے تبادلے کے بعد انہیں اس عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔
لگتا ہے کہ نئی حکومت کسی ہوم ورک کے بغیر جلد بازی میں اپنا کام شروع کررہی ہے، اور اصل اہداف کے بجائے مصنوعی اور کاسمیٹکس طریقوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ حکومت بھی روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ انحصار کیے ہوئے ہے، حالاں کہ اسے معلوم ہے کہ نوازشریف کو موجودہ انجام تک اُن کے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور مریم نواز کے میڈیا سیل نے پہنچایا ہے۔
حکمرانوں نے ابھی تک اپنے پارٹی منشور اور عمران خان کے دعووں/ وعدوں کی جانب پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا، سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں سے بھی کوئی سبق سیکھنے کا عملی مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ زیادہ تر کام وہی کیے ہیں جو سابقہ حکمران کرتے رہے ہیں۔
اس وقت ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے، معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، بے روزگاری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، ادارے تباہ اور ان کی کارکردگی صفر ہے، صنعتوں اور کاروبار کا حال پتلا ہے، جب کہ عوام کو تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولتیں بھی حاصل نہیں، ایسے میں رشوت اور کرپشن پر مبنی دفتری نظام نے عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے، جبکہ انصاف اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی اُس جانب دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ان مشکلات کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکٹ ایبلز کا دبائو بھی ہے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کا ہوم ورک بھی نہیں ہے، تجربہ بھی بالکل نہیں ہے۔ یہ دونوں چیزیں اُس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرسکتی ہیں۔ وزیراعظم سادگی کے دعووں اور مظاہروں کے ساتھ پانچ سال پورے نہیں کرسکتے، انہیں ابھی صدارتی انتخاب اور اُس کے بعد ایوانوں کو بھی چلانا ہے، جہاں تجربہ کار اور مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر عمران خان کی تقریر ایک مشتعل سیاسی لیڈر کی تقریر ہے۔ لگتا ہے وہ ابھی تک کنٹینر کے اوپر ہی ہیں۔ انہیں اب اشتعال اور جلد بازی سے نکل کر کچھ کرنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی، معیشت، گڈ گورننس، ملک میں سرمایہ کاری، صنعتوں کے قیام اور عوام کو سہولتیں دینے کے لیے سوچ بچار کے بعد کام شروع کرنا ہوں گے۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں جنوبی صوبہ پنجاب بنانے، فاٹا کے صوبہ پختون خوا میں انضمام، بلوچستان اور کراچی کی ترقی، پولیس، صحت، ٹرانسپورٹ میں بہتری، سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی اصلاح، صنعتی ترقی، سول سروس، پولیس اور عدالتی نظام میں اصلاحات، کرپشن کے خاتمے اور نیا بلدیاتی نظام لانے کا اعلان کیا۔ یہ اعلانات خوش آئند ہیں، مگر یہ سب کام ایک دن میں ہونے والے نہیں۔ نظام پہلے ہی تباہی کا شکار ہے، عملہ سست، نااہل اور کام چور ہے۔ اس لیے اگر ڈنڈا پکڑ کر بھی سارے کام فوری شروع کردیے جائیں تب بھی ان میں 10 سے 20 فیصد بہتری آنے میں بھی کئی سال لگ جائیں گے۔ تو کیا اتنا عرصہ عوام صرف انتظار کرتے رہیں گے، جبکہ عوام تو فوری تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم جہاں اپنی ان ترجیحات پر تیزی سے فوری کام شروع کریں وہیں کچھ ایسے اقدامات بھی کریں جن کا عوام کو فوری فائدہ پہنچے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کو چند فوری اقدامات کرنا ہوں گے:
-1 عوام اس وقت بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں، اُن کی بیشتر شکایات دفتری نظام کی وجہ سے ہیں، جہاں وہ رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی جائز کام نہیں کراسکتے۔ لوگوں کی درخواستیں اور فائلیں برسوں دبی رہتی ہیں۔ اس لیے فوری طور پر ہر محکمے میں ایک ایسا سیل بنایا جائے جو شہریوں کی شکایات اور مسائل پر مبنی درخواستیں دستی یا ڈاک کے ذریعے وصول کرے، انہیں اس کی رسید جاری کرے اور پندرہ دن کے اندر اندر جواب دے۔ اس طرح ہزاروں لوگوں کی دبی ہوئی درخواستیں خودبخود اوپر آکر لوگوں کے کام ہوجائیں گے۔ جب محکمہ جواب دے گا تو کچھ سوچ سمجھ کر دے گا، اگر سائل اس سے مطمئن ہے تو بہتر، ورنہ وہ دوبارہ وہیں یا اس سے آگے فورم پر تحریری شکایت لے جائے۔
-2 وزیراعظم خود اپنا ایک شکایت سینٹر بنائیں جہاں لوگ ڈاک سے اپنی شکایات بھیجیں، اُن کا عملہ انہیں جوابی رسید جاری کرکے متعلقہ محکمے کو بھجوا دے، جو سائل کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے شکایت سینٹر کو بھی جواب دے۔ اس طرح ہزاروں لوگوں کی دادرسی ہوجائے گی۔
-3 مہنگائی ہر ایک کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ اس کی دیانت داری سے مانیٹرنگ کی جائے، صرف نگرانی سے 25 فیصد مہنگائی کم ہوسکتی ہے جو ایک بڑا ریلیف ہوگا۔ دیگر اقدامات کے ذریعے اسے بآسانی 50 فیصد تک لایا جاسکتا ہے، اس پالیسی کے اثرات فوراً ظاہر ہوں گے۔
-4 عوام بالواسطہ ٹیکسوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا فوری جائزہ لے کر ان میں سے غیر ضروری ٹیکس ختم کردیے جائیں، البتہ براہِ راست ٹیکسوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
-5 ہر چھوٹی سے چھوٹی شے کی خریداری پر بھی رسید جاری کرنے کا کلچر جبراً شروع کیا جائے، اس سے ایک تو گراں فروشی کا خاتمہ ہوگا، دوسرے صارفین شکایت لے کر آگے جاسکیں گے، تیسرے حکومت کو ہزاروں نئے ٹیکس فائلرز، ٹیکس دہندگان مل جائیں گے۔
-6 سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کو فوراً بہتر حالت میں لایا جائے، مزید اسکول اور اسپتال بنائے جائیں، وزرا ٹرینوں سے سفر کریں، اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں اور اپنا علاج سرکاری اسپتالوں میں کرانے کے پابند ہوں۔ اس سے ان کا معیار بہتر ہوگا اور قوم میں برابری کا احساس پیدا ہوگا۔
-7 پرائیویٹ یونیورسٹیوں، پرائیویٹ اسپتالوں اور لیبارٹریوں کی فیسیں حکومت مقرر کرے اور اُن سے زیادہ شرح سے ٹیکس وصول کرے۔ حکومت وکلا اور ڈاکٹروں کی فیسیں بھی خود مقرر کرے۔
-8 جب کوئی فرد یا گروہ کسی جرم میں سزا پائے تو اس سے صرفِ نظر کرنے والے یا اسے سہولت فراہم کرنے والے اہلکاروں اور افسروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ مجرموں کو تو سزائیں مل جاتی ہیں لیکن رشوت لے کر اُن کی مدد کرنے والے سرکاری اہلکار موجیں کرتے پھرتے ہیں۔ یہ انداز پورے معاشرے کو تباہ و برباد کررہا ہے۔
-9 فوری طور پر درآمد کی جانے والی اشیا کا جائزہ لیا جائے اور تمام غیر ضروری مصنوعات کی درآمد پر مکمل پابندی لگادی جائے۔
-10 حکومت ایسی منافع بخش اسکیمیں شروع کرے جن میں عام آدمی سرمایہ کاری کرسکے۔ اس رقم سے منافع بخش صنعتیں لگائی جائیں اور عوام تک یہ منافع پہنچایا جائے۔
-11 پرائیویٹ رہائشی کالونیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے، صرف حکومت خود رہائشی کالونیاں ضرورت کے مطابق بنائے اور اُن کو بہت کم منافع پر اور آسان اقساط پر شہریوں کو فراہم کرے۔
-12 حکومت محکمہ ڈاک کو فعال کرے، اور کم خرچے، اچھی سروس اور تیز رفتار اور محفوظ ترسیل کے ذریعے پرائیویٹ کوریئر کمپنیوں سے صحت مند مقابلہ کرے۔ تمام سرکاری دفاتر اپنی ڈاک سرکاری محکمہ ڈاک کے ذریعے بھیجنے کے پابند ہوں۔ اسی طرح سرکاری افسران ریلوے میں سفر کے پابند بنائے جائیں، اگر وزرا بھی ایسا کریں تو بہت بہتر ہوگا۔
-13 سب سے اہم کام یہ ہے کہ عمران خان اپنی پارٹی کو ایک جمہوری اور عوامی پارٹی بنائیں جو عوام کی خدمت اور وزرا کا حساب کرے، نیز بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرکے اپنا بوجھ کچھ کم کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو حکمرانوں کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوگا۔