وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک انٹرویو میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نئی تجاویز کی تیاری کا مژدہ سناتے ہوئے کہاکہ وہ بہت جلد اس مسودے کو تمام متعلقہ حلقوں کے علاوہ کابینہ کے اجلاس میں بھی پیش کریں گی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسے مسئلے کے حل کا ماڈل قرار دیا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری ایک قلم کار اور اپنے دوٹوک خیالات کے حوالے سے ایک واضح شناخت رکھتی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی سربراہ رہ چکی ہیں اور اپنے مضامین اور تحقیقی مقالوں میں ان کے نظریات واضح طور پر جھلکتے رہے ہیں۔ شاید اسی پس منظر میں ان کا نام وزیر دفاع کے طور پر لیا جارہا تھا۔ کشمیر مسز مزاری کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں۔ وہ تین عشروں سے اس مسئلے کے زیر وبم پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور 1990ء کی دہائی میں جب کشمیر میں تحریک ایک نئے انداز سے انگڑائی لے رہی تھی تو ڈاکٹر شیریں مزاری سرکاری میڈیا پر بطور تجزیہ نگار دکھائی دینے والوں میں نمایاں تھیں۔ جب سے انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک نئے فارمولے یا تجاویز کی بات کی ہے وہ ایک نئی بحث کا موضوع بن گئی ہیں۔ بھارت کے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے کہا ہے کہ ایک تو شیریں مزاری کے پاکستان کی سیکورٹی اور اسٹرے ٹیجک معاملات سے گہرے تعلق کی وجہ سے یہ مسودہ اہم ہوگا، اور اس کے علاوہ یہ اس لحاظ سے بھی اہم ہوگا کہ اس مسودے میں فوج کا نقطہ نظر بھی لازماً سمویا گیا ہوگا۔ سری نگر میں حریت پسند خواتین کی فعال تنظیم دخترانِ ملّت کی ترجمان نے شیریں مزاری کے اس بیان کا یہ کہہ کر خیرمقدم کیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی میں کشمیر کو اہمیت دے رہا ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کے فارمولے کی نوعیت کیا ہے؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے دو طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ پہلا مسئلہ کرم خوردہ فائلوں میں بنی گھسی پٹی کشمیر پالیسی ہے، جس سے نہ پاکستان کو کچھ حاصل ہورہا ہے نہ کشمیریوں کو ایک انچ پیش قدمی مل رہی ہے۔ یہ پالیسی چھ سات دہائیاں قبل تیار کی گئی تھی اور اب تک اسے سینے سے سجائے ہمارے سفارت خانے مکھی پر مکھی مارنے میں مصروف ہیں۔ یہ کشمیر پالیسی چیخ چیخ کر اپنے ازکارِ رفتہ اور ناکام ہونے کی دہائی دے رہی ہے مگر اس ضمن میں ’اسٹیٹس کو‘ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس پالیسی میں انقلابی تبدیلی کے لیے کوئی مسودہ تیار ہے؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر معاملات پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کشمیر دونوں ملکوں کے تمام تعلقات پر حاوی ہوچکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر تعلق پر مسئلہ کشمیر کی پرچھائیں منڈلاتی ہے۔ دونوں ملکوں نے اس مسئلے کے حل کی طرف جب بھی پیش رفت کی، کوئی حادثہ رونما ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی نے مسئلے کے حل کے ٹیسٹ کیس کے طور پر جب سیاچن گلیشیر سے فوجی انخلاء پر اتفاق کیا تو بھارتی فوج نے راجیو گاندھی کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا۔ میاں نوازشریف نے جب اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر پر ایک سمجھوتا کرنے کی جانب پیش رفت کی تو کارگل نے سارا قالین ہی اُن کے پیروں تلے سے کھینچ لیا، اور یوں مفاہمت کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ کچھ یہی حال جنرل پرویزمشرف اور من موہن مذاکرات کا ہوا۔ کمند اُس وقت ٹوٹی جب مفاہمت اور سمجھوتے کی منزل چند گام کی دوری پر تھی۔ وکلا تحریک نے جنرل پرویزمشرف کے سارے خواب تعبیر سے پہلے ہی بکھیر کر رکھ دئیے۔ جنرل پرویزمشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کہہ چکے ہیں کہ مفاہمت کے مسودے پر صرف دستخط ہونا باقی تھے کہ وکلا تحریک نے سارا منظر بدل دیا۔
شیریں مزاری جن تجاویز کی بات کررہی ہیں ان پر اصل بحث کا آغاز اُس وقت ہوگا جب یہ اندازہ ہوسکے گا کہ ان کی نوعیت کیا ہے۔ کیا ان کا تعلق پاکستان کی داخلی کشمیر پالیسی میں تبدیلی سے ہے، یا یہ تجاویز بھارت کے ساتھ مسئلہ حل کرنے سے متعلق ہیں؟ ہر دو صورتوں میں ان تجاویز پر جہاں ملک کے اندر تمام حلقوں کا اتفاقِ رائے ضروری ہے وہیں وادیٔ کشمیر کے عوام کی رضامندی بھی ناگزیر ہے۔ وادیٔ کشمیر کے عوام ہی اِس وقت مسئلہ کشمیر کو اپنی جانوں کی قیمت پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی قربانیوں کی مثال دنیا میں کسی اور علاقے اور قوم میں نہیں ملتی۔ وادی ہی اس وقت شدید اُبال کا شکار ہے۔ کشمیر پالیسی میں تبدیلی تو آسان ہے مگر مشکل ایک نئی سرد جنگ کا اُبھرتا ہوا منظر ہے۔ پاکستان امریکہ سے دور اور روس و چین جیسی طاقتوں سے قریب ہورہا ہے اور مغربی دنیا میں اِس وقت امریکہ کا سکہ چلتا ہے۔ عالمی اداروں میں بھی امریکہ کا اثر رسوخ نمایاں ہے۔ اس مخاصمانہ فضا میں مغرب پاکستان یا سفارتی عمل میں شریک کشمیریوں کی بات کو اتنی ہی اہمیت دے گا جتنی کہ فلسطینی عوام اور ان کے مسئلے کو دی جارہی ہے۔ اگر ان تجاویز کا تعلق بھارت کے ساتھ کسی سمجھوتے اور مفاہمت سے ہے تو نریندر مودی جس قدر جذباتی فضا بنا چکے ہیں اُس میں سخت گیر عناصر کے ہوتے ہوئے شاخِ زیتون لہرانا اور اپنے لوگوں کو سرپرائز دینا قطعی ناممکن ہے۔ مگر پاکستان کی مشکل یہ بھی ہے کہ چین بھی اس معاملے کا عارضی ہی سہی، ایسا حل چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کلی طور پر منجمد نہ رہیں، اور اختلافات کے باوجود تعلقات اور معاملات کی گاڑی مسائل کے اونچے نیچے اور ناہموار راستوں پر رینگتی رہے۔